مسکراہت کا صدقہ
تحریر۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مسکراہت کا صدقہ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود)ہوتی۔ میرا نقطہ نظر ان سے مختلف تھا کہ کم از کم مسکراہٹ انسان کی آنکھوں کو تو لبھاتی اور تسکین دیتی ہے، خوش اخلاقی کا تاثر دیتی ہے اور خوش اخلاقی انسان میں خوشی اور مسرت کے جذبات ابھارتی ہے۔
ہمارے دین میں حسن اخلاق پر بڑا زور دیا گیا ہے اور مسکرا کر ملنے کو نیکی اور صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم مسلمان اتنی آسان نیکی کے ثواب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں آپ کو مسکراہٹ یا مسکر اگر استقبال کے مناظر بہت کم نظر آئیں گے۔ اسی طرح السلام علیکم کی عادت بھی کم کم ہی ملے گی۔ رہی گلاب میں خوشبو کی تلاش تو سر راہ چلتے ہوئے کسے اتنی فرصت ہوتی ہے کہ گلاب میں خوشبو تلاش کرتا پھرے ، گلاب پر نظریں پڑتے ہی آنکھوں کو تسکین کا سامان مہیا ہو جاتا ہے کیا یہ کافی نہیں ؟ چلتے چلتے کوئی آپ کو مسکرا کر “ہائے ” کہہ دے یا گڈ مارننگ کہہ دے تو وہ بہر حال اپنا تاثر چھوڑ جاتا ہے اور اگر آپ کو گلیوں، بازاروں، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے ہر شخص اسی طرح مسکراتا اور ”وش “ کرتا نظر آئے تو سارا ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے اور ہر شے مسکرانے لگتی ہے۔
مسکراہٹ کا ایک اپنا جادو ہے اور وہ ہر آنکھ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشروں میں ہر طرف پھیلی ہوئی بے زاری بلکہ آدم بیزاری ، چہروں پر غصہ یا لا تعلقی پورے ماحول کو لا تعلق اور بے زار بنادیتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ لا تعلقی اور بے زاری ہماری دینی تعلیمات اور رویوں کی نفی ہے ، انسانی محبت، احترام، ہمدردی، خوش اخلاقی ہمارا مذہبی و دینی ورثہ ہے لیکن ہم اس سے دور ہو گئے ہیں اور مغرب نے اسے اپنا لیا ہے۔ اسی طرح سچ بولنا، ٹھیک تو لنا، ملاوٹ سے پرہیز، قانون و ضابطے کی پابندی اور احترام انسانیت و غیر دو غیر ہ اسلامی معاشرے کی کچی اقدار ہیں جو ہمارے ہاں نا پید ہو چکی ہیں لیکن مغرب نے انہیں کافی حد تک اپنا لیا ہے۔
بعض چھوٹے چھوٹے واقعات انسان پر ابدی نقش یا تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ مجھے چند روز قبل بہت یاد آیا۔ طویل عرصہ قبل جب میں آکسفورڈ میں حصول تعلیم کی خاطر گیا تو پہلی چھٹی آتے ہی لندن جانے کا ارادہ کیا۔ دل وطن سے اداس تھا، سوچا لندن میں کچھ ہم وطنوں سے مل کر اداسی کا علاج کروں گا۔ ہوسٹل سے نکلا ، بس اسٹاپ پر جانا تھا لیکن بس اسٹاپ کا راستہ معلوم نہیں تھا۔ ہائی اسٹریٹ کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک بوڑھی انگریز عورت کے پاس سے گزرا تو ہمت کر کے پوچھا “مام، معاف کرنا، کیا آپ مجھے بس اسٹاپ کا راستہ بتا سکتی ہیں؟“ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ سے میری طرف دیکھا اور بتایا کہ سیدھے چلتے جائو تین بلاک چھوڑ کر دائیں طرف گلی میں مڑ جاتا۔ سیدھے چلتے جانا تم بس اسٹاپ پر پہنچ جائو گے۔
میں نے ایک سطحی سی مسکراہٹ زور لگا کر چہرے پر پیدا کی، شکریہ ادا کیا اور چلنے لگا۔ چند منٹوں کے بعد تین بلاک کا سفر طے کر کے دائیں جانب مڑنے لگا تو اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ بزرگ خاتون وہیں کھڑی تھی اور اس کی نگاہیں میرا تعاقب کر رہی تھیں۔ اس نے پھر مسکرا کر مجھے ہاتھ کے اشارے سے یہ پیغام دیا کہ تم ٹھیک راستے پر جارہے ہو۔ اسے آپ خوش اخلاقی کی انتہا کہیے کہ اس خاتون کو یہ خدشہ تھا کہ میں اجنبی دوں، کہیں غلط موڑ نہ مڑ جائوں۔ یقین کیجئے میں آج تک اس بزرگ انگریز خاتون کی شفقت اور خوش اخلاقی نہیں بھولا کہ حسن اخلاق بہر حال متاثر کرتا ہے اور اپنا نقش چھوڑ جاتا ہے۔
ایک دن میں لندن سے بذریعہ ٹرین کلیسٹر جارہا تھا۔ نصف سفر طے کرنے کے بعد ٹرین میں اعلان سنا کہ آپ اگلے اسٹیشن پر اتر جائیں ترین آگے نہیں جائے گی۔ آپ کے لئے بسوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر بس پر سوار ہوں وہ آپ کو آپ کی منزل پر پہنچادے گی۔ میں اس علاقے میں نو وارد تھا۔ کچھ علم نہیں تھا کہ بس کہاں سے ملے گی۔ اتنے میں اسٹیشن پر ایک پاکستانی خاتون نظر آئی تو اس سے اردو میں پو چھا کہ بس کہاں سے ملے گی۔ اس نے نہایت بے زاری سے بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جواب دیا ” مجھے معلوم نہیں“ ۔
مجھے یقین ہے اسے پتا تھا اگر کوئی انگریز پوچھتا تو فورا جعلی مسکراہٹ چہرے پر لا کر راستہ بتا دیتی۔ تمین سال قبل میں لندن سے پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہونے کے لئے قطار میں کھڑا تھا تو پیچھے سے ایک عدد اٹیچی کیس Carry on زور سے میری ٹانگوں سے ٹکرایا۔ میں خاموش کھڑا رہا، ہم ٹنل میں جہاز کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ جوں جوں مسافر اندر داخل ہوتے ہم چند قدم آگے بڑھ جاتے۔ دوسری بار وہ اٹیچی کیس میری ٹانگوں سے ٹکرایا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک نوجوان پاکستانی لڑکی جبین ٹی شرٹ میں ملبوس کھڑی تھی۔ ظاہر تھا کہ برطانیہ کی پیدائش لیکن پاکستانی ہے۔ میں قطار سے ہٹ گیا اور کہا کہ بیٹی آپ آگے آجائیے۔ بولی میں نے جان بوجھ کر نہیں مارا، جواباً عرض کیا کوئی بات نہیں۔ وہ کندھے اچک کر قدرے بے زاری سے بولی کہ " ہو گیا پاکستان شروع ۔ مجھے اس کا پاکستان پہ یہ طنز اچھانہ لگا۔ میں نے نہایت نرمی سے کہا بیٹی آپ انگلستان میں رہتی ہیں کیا کبھی آپ کو کسی شخص نے اس طرح کی صورتحال میں بیٹی کہہ کرمخاطب کیا۔ زیادہ سے زیادہ سوری Sorry۔ بس یہی فرق ہے پاکستانی اور برطانوی اقدار Values میں۔ یہ واقعہ اپنا ناگوار تاثر چھوڑ گیا۔ یہی زندگی ہے کچھ واقعات خو انگوار تاثرات کا نقش چھوڑ جاتے ہیں تو کچھ واقعات ناگوار یاد بن جاتے ہیں۔ یہ واقعات مجھے اس لئے یاد آئے کہ میں آج کل امریکہ کے جس قصبے میں مقیم ہوں یہ پہاڑوں کے در میان نهایت سرسبز و شاداب علاقے میں واقع ہے اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ چند روز قبل میں اونچی نچی سڑکوں پر سر شام واک کر رہا تھا کہ تھک کر سڑک کے کنارے ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔ میں جتنی دیر بیٹھا رہا میرے پاس سے گزرنے والے ہر مرد و عورت نے مسکرا کر مجھے "ہائے “ کہا، ہر گزرنے والی کار میں سے مجھ پر مسکراہٹ کے پھول برسائے گئے اور ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا گیا۔ یوں یہ چند منٹوں کا قیام ایک خوشگوار اور دلفریب یاد بن کر میری زندگی کا حصہ بن گیا۔
خوشگوار یادیں زندگی کو خوشگوار بناتی ہیں جبکہ ناخوشگوار یادیں زندگی میں بے زاری پیدا کرتی ہیں۔اسی سے قومی رویے بنتے اور معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔
دوستو! مسکراہٹ ایک ایسا صدقہ ہے جس سے پورا ماحول جگمگانے لگتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2017