میری نہیں تو کسی اور کی بھی نہیں
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میری نہیں تو کسی اور کی بھی نہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )ثنا یوسف کا قتل پاکستان کا پہلا واقعہ نہیں جس میں کسی لڑکی کو اس بنا پر قتل کر دیا گیا کہ اس نے لڑکے کے ساتھ تعلق بنانے سے انکار کر دیا تھا۔اس سے پہلے بھی رشتہ نہ ملنے پر دوستی نہ کرنے پر کئی لڑکیاں یا تو تیزاب گردی کا شکار ہوئیں یا قتل کر دی گئیں کہ اگر تم میری نہیں تو کسی اور کی بھی نہیں ہو سکتی۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ سوچ آخر آئی کہاں سے؟ کیا یہ محض مردانگی کا بگڑا ہوا تصور ہے؟ یا پھر ہمارے میڈیا، خاص طور پر ڈرامے، اس سوچ کو مسلسل غذا فراہم کر رہے ہیں؟
شوبز محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ عوامی سوچ ، مزاج اور رویے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔جب ایک چیز کو بار بار ڈراموں فلموں میں دہرایا جائے تو وہ غیر محسوس انداز میں ہماری سوچ کا حصہ بن جاتی ہے۔ڈراموں میں اکثر ایسے مرد دکھائے جاتے ہیں جو محبت میں ناکامی کے بعد لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے ہر حد پار کرتے ہیں :اغوا، زبردستی نکاح، تشدد، اور بعض اوقات قتل تک۔ہر دوسرا ڈرامہ ایک ایسے مرد کے گرد گھومتا ہے جو لڑکی کے انکار کو برداشت نہیں کر سکتا۔ انکار اس کی انا پر ضرب لگاتا ہے۔ اور وہ یا تو اس لڑکی کو سزا دیتا ہے یا خود کو قربانی کے طور پر پیش کر کے ناظرین کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔جیسے کہ خانی،میرے پاس تم ہو، خدا اور محبت، من مست ملنگ ، بہروپیا، جیسے آپ کی مرضی وغیرہ
لوگ ایسے کردار کو اصلی عاشق سمجھتے ہیں۔جب کہ حقیقت میں وہ مجرم ہوتا ہے جو کسی کے جذبات اور عزت کا قتل کرتا ہے۔ان ڈراموں کا اثر ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لڑکی ہاں کر دیتی تو اس کا انجام یہ نہ ہوتا۔ثنا یوسف کے قتل سے پہلے بھی ہم نے نور مقدم، قرہ العین، سبیکا شیخ، اور ان گنت بے نام لڑکیوں کی جانوں کو ایسی ہی ذہنیت کا نشانہ بنتے دیکھا۔ ان سب میں ایک مشترکہ عنصر ہے: ایک مرد کا انا۔
اس طرح کے واقعات پر معاشرے میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ہر انسان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے اس لیے خواہ اداکارہ ہو، ٹک ٹاکر یا پیشہ ور خاتون اسے قتل کرنے کا حق کسی کو نہیں۔دوسری رائے یہ ہوتی ہے کہ خواتین کو پردہ کرنا چاہیے شریعت کے مطابق زندگی گزارنے چاہیے تاکہ ریپ، اغواء، قتل اور تیزاب گردی سے بچ سکیں۔دونوں آراء ہی درست ہیں۔لیکن یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ ہم ایک اسلامی ملک کے مسلمان شہری ہیں۔اور مسلمان مردو خواتین دونوں کے لیے شریعت کے اصول، جزا سزا ایک ہی ہیں۔اگر عورت کو پردے کا حکم ہے تو مرد کو نگاہ نیچی رکھنے کا۔اگر عورت برائی میں ملوث ہے تو مرد کے ساتھ ہی ملوث ہے۔تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔اسلام میں نا محرم سے بات چیت، اس سے خفیہ دوستی، کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا گیا ہے پھر محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔گرل فرینڈ بوائے فرینڈ مغربی معاشرے کی پیداوار ہیں نہ ہمارا مذہب نہ ہی روایات و ثقافت اس کی اجازت دیتے ہیں کہ شادی سے پہلے مرد و عورت میں دوستی ہو۔اس لیے دوہرے معیار رکھنے کی بجائے شریعت پر عمل ہر کسی کو کرنا چاہیے۔
ایک اور قبیح عمل جو ہمارے ہاں بڑا عام ہے کہ کسی کی مصیبت یا موت پر ہم فورا جج بن جاتے ہیں کہ یہ سب اس کے برے اعمال کی سزا ہے۔ یہی ثنا کے قتل کے وقت ہوا لوگوں نے اس کے والدین کو الزام دیا کہ نہ وہ بیٹی کو کھلی چھوٹ دیتے نہ وہ مردوں کو لبھاتی نہ کوئی مرد اس کے عشق میں اتنا پاگل ہوتا کہ اسے پانے میں ناکامی پر قتل کر دیتا۔ ثنا ٹک ٹاکر تھی تو اس کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا۔ اس کے گناہوں کی بناء پر اس کی جان کتنی مشکل سے نکلی۔یہ فتوی دینے والے حدیث کو بھول گئے کہ مرنے والے کی برائیاں بیان نہ کی جائیں۔اور عبرت حاصل کر کے اپنے اعمال درست کیے جائیں۔وہ اپنی موت کو بھول کردوسروں کے بارے میں کچھ بھی کہہ جاتے ہیں۔
خوش قسمتی سے سوشل میڈیا پر نئی نسل ان موضوعات پر آواز بلند کر رہی ہے۔ ثنا یوسف کے قتل کے بعد کئی بلاگرز، ایکٹیوسٹس اور عام صارفین نے یہ سوال اٹھایا کہ کب تک خواتین کا قتل ہوتا رہے گا۔محبت کے نام پر خواتین کے خلاف تشدد کو جواز بناتے رہیں گے۔کب تک مصنفین اور پرڈیوسرز ریٹنگ کی خاطر کہانیوں کے ذریعے زہر پھیلاتے رہیں گے۔
ناظرین کے طور پر ہمیں ایسے ڈراموں، فلموں اور ویب سیریز کا بائیکاٹ کرنا چاہیے جو خواتین کے خلاف تشدد کو رومانوی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ پیمرا اور دیگر اداروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے مواد میں خواتین کی عزت نفس کو نہ پامال کیا جائے نہ ہی انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں میڈیا لٹریسی شامل کی جانی چاہیے تاکہ نوجوان نسل سمجھ سکے کہ کون سا مواد زہریلا ہے اور اس سے کیسے بچنا ہے۔ ڈرامہ رائٹرز کے لیے ورکشاپس اور سیشنز منعقد کیے جائیں جن میں انہیں بتایا جائے کہ کیسے وہ محبت، رشتوں اور انا جیسے موضوعات کو حقیقی، مثبت اور معاشرتی طور پر فائدہ مند انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔اور ایسے اصول و قوانین مرتب کیے جائیں کہ 18 سال سے کم عمر بچے بچیاں سوشل میڈیا استعمال کریں تو حدود میں رہ کر جیسا کہ اکثر مغربی ممالک میں طلباء کو انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت ہے مگر تعلیمی ادارے اور والدین مختلف ایپس کے ذریعے ان کے انٹرنیٹ کے استعمال پر چیک رکھتے ہیں۔
اور سب سے اہم کام جو حکومت، والدین اور اداروں کو مل کر کرنا ہے کہ صرف خواتین کو ہی نہیں مردوں کو بھی اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا، کسی کی نہ کو برداشت کرنا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا اور لوگوں سے ہمدردی کرنا، ہر ایک کو بحیثیت انسان محترم جاننا ، اس کی عزت کرناسکھایا جائے۔کیونکہ عدم برداشت کی وجہ سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔