Daily Roshni News

میرے شوہر کو سچ کی یہ سزا ملی کہ نوکری بھی گئی اور کوارٹر بھی۔۔۔

میرے شوہر کو سچ کی یہ سزا ملی کہ نوکری بھی گئی اور کوارٹر بھی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میرے شوہر کو سچ کی یہ سزا ملی کہ نوکری بھی گئی اور کوارٹر بھی خالی کرنا پڑا۔ شوہر جیل میں تھا اور میں جوان بچیوں کیساتھ درد بدر ہوگئی۔ آخر شوہر کے ایک دوست نے رہنے کو جگہ دی۔ میں دن کو ایک گھر میں کام کرتی اور رات کع لوٹتی۔ محلے کے ایک نوجوان، طارق، نے ہمارا گھر تاڑ لیا۔ وہ بچوں کے لیے بسکٹ اور ٹافیاں لاتا، ان سے باتیں کرتا اور ان کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر ان کے قریب ہوتا چلا گیا۔

👇👇

جن دنوں حبیب فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے، قریب ہی ہمیں ایک چھوٹا سا مکان بھی ملا ہوا تھا۔ اس مکان میں دو کمرے، ایک برآمدہ، چار دیواری، اور ایک نلکا تھا۔ ہمارے چھ بچے تھے، اور وہ اس چھوٹے مکان میں سماتے نہیں تھے، لیکن اس مہنگائی کے دور میں یہ سر چھپانے کا ٹھکانہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ میرے شوہر محنتی اور ایماندار انسان تھے۔ فیکٹری کے مالک، ملازمین، اور مزدور سبھی ان کی عزت کرتے تھے۔

جھگڑے کہاں نہیں ہوتے! ایک بار فیکٹری کے مزدور آپس میں کسی بات پر جھگڑ پڑے۔ اس جھگڑے میں ایک مزدور کو شدید چوٹ لگی، اور وہ جاں بحق ہو گیا۔ دراصل مقتول ایک لیڈر قسم کا آدمی تھا، جو مالک کی نظر میں کھٹکتا تھا۔ بہرحال، یہ تو اتفاق تھا کہ میرے شوہر وقوعہ کے وقت وہاں موجود تھے۔ انہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جھگڑے کی اصل وجہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بات کا بتنگڑ بنایا۔ جب مقتول نے جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کی، تو فسادی گروپ کے ایک شخص نے سریے کا وار کرکے اسے شدید زخمی کر دیا۔ وار اتنا خطرناک تھا کہ سریہ مقتول کے دل میں پیوست ہو گیا، اور وہ بیچارہ جان سے گیا۔

معاملہ پولیس تک پہنچا۔ چونکہ میرے شوہر وہاں موجود تھے اور جھگڑے میں فریق یا شریک نہ تھے، اس لیے چند مزدوروں نے ان کا نام لیا کہ یہ دیانتدار آدمی ہیں، اور ان کی گواہی معتبر ہوگی۔ اب انصاف کا تمام دارومدار حبیب کی گواہی پر تھا۔ مقتول ریاض کی بوڑھی ماں ہمارے گھر آکر فریاد کرنے لگی کہ “حبیب بیٹے، تم گواہی دو تاکہ ہمیں انصاف ملے۔ باقی گواہ تو قابلِ بھروسا نہیں ہیں۔” میں نے شوہر سے کہا، “تم کیوں بلاوجہ اپنی گردن پھنسواتے ہو؟” وہ گومگو کی حالت میں تھے کیونکہ مقتول کے چھوٹے بچے تھے، جن کا کوئی سہارا نہیں رہا تھا۔ انصاف ملنے سے مقتول کی بیوہ کو کچھ مالی امداد مل سکتی تھی۔

دوسری طرف، فیکٹری کا مالک چاہتا تھا کہ میرے شوہر اس کی منشا کے مطابق گواہی دیں اور حقیقت کو چھپائیں۔ اس نے میرے شوہر کو پیشکش کی کہ وہ مقتول کی بیوہ کو 50 ہزار روپے دے دے گا، اور اگر میرے شوہر صلح کروا دیں، تو انہیں بھی کچھ رقم دی جائے گی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ گواہی اس طرح دی جائے کہ ریاض خود جھگڑے میں پڑا، اور سریہ اتفاقیہ طور پر اسے لگ گیا۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔

میرے شوہر نے ریاض کی بیوہ اور ماں سے بات کی، لیکن انہوں نے صلح سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے انصاف زیادہ اہم ہے۔ میرے شوہر نے بالآخر سچ بولنے کا فیصلہ کیا اور مالک کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ وہ عدالت میں وہی بیان دینے پر اڑے رہے جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

اس کے بعد انہیں نوکری سے نکال دیا گیا، اور ہمیں مکان بھی خالی کرنا پڑا۔ اگر بات یہیں ختم ہو جاتی، تو شاید ہم سہہ لیتے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ملازمت کی تلاش میں سرگرداں میرے شوہر کو ایک دن پولیس نے گرفتار کر لیا۔ الزام یہ تھا کہ ان کے پاس چرس برآمد ہوئی ہے۔ یہ بات ناقابل یقین تھی، کیونکہ وہ نیک چلن اور پانچ وقت کے نمازی تھے۔ نشے یا ایسی کسی چیز کا تصور بھی ان کے قریب نہ تھا۔اس ناانصافی نے ہماری زندگی کو ہلا کر رکھ دیا۔

سال بھر حبیب جیل میں رہے، کوئی ضمانت دینے والا نہ تھا۔ بالآخر انہیں سزا ہو گئی۔ اس کے بعد میں آٹھ بچوں کے ساتھ ایسی بے آسرا ہوئی کہ ان دنوں کے دکھ لکھنے کی تاب مجھ میں نہیں۔ بڑی بیٹی تیرہ چودہ برس کی تھی، باقی سب چھوٹے چھوٹے تھے۔ ان کا پیٹ بھرنا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ رہنے کے لیے حبیب کے ایک دوست نے اپنے کوارٹر میں ایک کمرہ ہمیں دے دیا تھا۔ وہ بے چارہ بھلا مانس تھا، خود اپنے ایک دوست کے پاس جا کر رہنے لگا۔ لیکن یہ عارضی ٹھکانہ تھا۔ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، سو میں گھر سے باہر نکل کر کام تلاش کرنے لگی۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد قریبی بنگلوں میں کام مل گیا۔ چھوٹے بچوں کو بڑی بیٹی ساحرہ کے حوالے کر کے میں صبح سویرے کام کے لیے نکل جاتی تھی۔

میری مسلسل غیر موجودگی نے ایک اور مصیبت ہم پر کھول دی۔ ماں باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کا بھٹک جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ محلے کے ایک نوجوان، طارق، نے ہمارا گھر تاڑ لیا۔ وہ بچوں کے لیے بسکٹ اور ٹافیاں لاتا، ان سے باتیں کرتا اور ان کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر ان کے قریب ہوتا چلا گیا۔ (آگے پڑھنے کے لیے کہانی کا لنک اوپن کریں)

Loading