Daily Roshni News

میں زندہ کیوں رہوں؟۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

میں زندہ کیوں رہوں؟

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میں زندہ کیوں رہوں؟۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )جب کبھی خودکشی کے موضوع پر قلم اٹھایا کمنٹس سیکشن میں کئی قارئین نے یہ لکھا کہ جب انسان پر مصائب کی انتہا ہو جائے، دعا قبول نہ ہو، اللہ تعالٰی بندے کو چھوڑ دے، رشتے دار ساتھ نہ دیں، ڈپریشن یا انگزائٹی ہو تو انسان خود کو مارے نہ تو کیا کرے؟

   مان لیا آپ پر جو دکھ تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں لیکن کیا دنیا میں صرف آپ ہی مصائب و مسائل کا شکار ہیں؟ نہیں بلکہ ہر شخص کو الگ الگ مسئلے درپیش ہیں۔تو کیا سب لوگ خودکشی کر لیں؟

      کیا اللہ تعالٰی نے قرآن میں بار بار یہ نہیں بتایا کہ ہر شخص جان، مال، کھیت کے نقصان اور اولاد کی طرف سے آزمایا جائے گا۔جو شخص صبر کرے گا اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد مانگے گا وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گا۔کیا اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم کسی بھی شخص کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتے۔اور ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔پھر کوئی کیسے ان سب آیات کے خلاف جا سکتا ہے؟

    کیا قرآن میں مذکور انبیاء میں سے چند ایک کے سوا سب پر مال، جان، اولاد ، ظالم حکمران جیسی آزمائشیں نہیں آئیں؟ سب کو چھوڑ دیجئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام کی مثال لے لیجئے۔غربت، بھوک، مال کا نقصان، امراء و سرداروں کے ظلم، قتل کی سازشیں کیا کچھ نہیں سہا انہوں نے ان میں سے کتنے لوگ مایوس ہو کر اسلام چھوڑ گئے یا خودکشی کر گئے؟؟؟کیا ہمارے مسائل ان سب سے بڑھ کر ہیں؟

   چلیے ذرا اپنے ان مسائل کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے ہم نا امید ہو کر اس قبیح فعل پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔

1: جاب نہ ملنا، بزنس کا نقصان یعنی مالی مسئلہ

2: شادی نہ ہونا یا طلاق ہو جانا زوج کی وفات کی صورت میں فنانشل مسئلہ۔

3: اولاد نہ ہونا

4: گھر، گاڑی، مالی آسودگی نہ ہونا

5: سسرال کے مسائل یا بہو داماد کی طرف سے اذیت

6: اولاد کے کردار میں بگاڑ یا ان کی موت

7: نشے کی لت

8: محبت میں ناکامی

9: امتحان میں ناکامی یا من پسند پوزیشن گریڈز لینے میں ناکامی

10: کوئی حادثاتی معذوری یا لمبی بیماری

11: بلیک میلنگ

12: زوج کی بے وفائی

13: جائیداد کے جھگڑے

14:گھریلو مسائل ، جن میں سرفہرست اخراجات کا پورانہ ہونا

15: سحر یا ذہنی بیماری

اس فہرست میں قارئین اضافہ کر سکتے ہیں۔

    اب ذرا غور فرمائیے ان سب مسائل میں ایک چیز مشترکہ ہے اور وہ یہ کہ یہ سب ہماری دنیاوی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک بھی چیز اخروی زندگی کے متعلق نہیں۔ جب کہ قرآن حدیث میں بارہا یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہمارا رزق لکھ دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شخص کمی بیشی نہیں کر سکتا ۔اور یہ کہ ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔

   لیکن ہم دنیا کے ان مسائل میں اتنے گم ہو چکے ہیں کہ آخرت کی پرواہ ہی نہیں۔ایوب علیہ السلام نے سترہ سال بیماری جھیلی،  اولاد، زوج، مال سب تباہ ہو گیا مگر بے صبر نہیں ہوئے۔نوح علیہ السلام نے 950 سال لوگوں کے طعنے سہے مگر صابر و ثابت قدم رہے۔ابراہیم، موسی، محمد علیہم السلام نے وقت کے ظالم بادشاہوں کا مقابلہ کیا مگر خودکشی نہیں کی۔لوط ، نوح علیہم السلام کے بیوی بچے، قوم ، ابراہیم علیہ السلام کے والد، آسیہ علیہ السلام کا شوہر ان کے خلاف ہوئے، مریم علیہ السلام نے اپنے کردار پر باتیں سنیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا گھر، کاروبار، مال متاع سب چھوڑ کے ہجرت کرنی پڑی۔ اسلام قبول کرنے پر جسم کے ٹکڑے کر دئیے گئے، گرم پتھر سینے پر رکھ کر گرم ریت پر لٹایا گیا، قالین میں لپیٹ کر دھواں دیا گیا، دن رات مشقت کروائی گئی۔بھوکے پیٹ کئی کئی دن جنگ کرتے تھے، غلام بنا لیے گئے۔ بجلی، پانی، گیس، پبلک ٹرانسپورٹ یا ذاتی بائیک گاڑی جیسی عیاشی تو انہیں میسر ہی نہ تھی۔غرض کہ کوئی ستم ایسا نہ تھا جو ان پر نہ توڑا گیا ہو۔مگر ان میں سے کوئی بھی خودکشی نہیں کرتا تھا۔

    مانا کہ جب تکالیف بہت زیادہ ہو جائیں تو انسان کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔مگر نا امیدی سے بچ کر اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اسی سے مدد مانگنا چاہیے۔میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ جب کبھی ایسا لگا کہ کوئی دعا قبول نہیں ہو رہی ہر طرف اندھیرا ہے تب بھی اللہ کا دامن نہ چھوڑیے صرف اسی کی ذات ہے جو ہمارے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔کوئی بھی مسئلہ ہودو نوافل پڑھیے سجود میں دعا کیجئے۔استغفار لازم کیجئے۔دیگر اذکار کی کثرت کیجئے۔تہجد کا اہتمام کیجئے۔دعا ایسے کیجئے جیسے اپنے کسی قریبی دوست کے ساتھ مسئلہ ڈسکس کرتے ہوئے کرتے ہیں۔اللہ سے ایسے مانگیے جیسے چھوٹا بچہ اور فقیر ضد کر کے مستقل مزاجی سے مانگتے ہیں جب تک چیز لے نہ لیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔آپ سے بہتر آپ کے لیے کوئی دعا نہیں کر سکتا اس لیے دوسروں کو دعا کی درخواست کرنے سے پہلے خود دعا کیجئے۔

     اور یہ کبھی مت کہیے کہ ہماری تو دعا ہی قبول نہیں ہوتی اللہ تعالٰی نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ واحد وہ ذات ہے جو اپنے نافرمان ترین اور گناہ گار ترین بندوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔دیکھ لیجئے کسی غیر مسلم یا بے عمل مسلمان کی بھی سانس، رزق یا خوشیاں نہیں چھینی جاتیں ۔

     نوح علیہ السلام نے 950 سال دعا کی مگر ان کی قوم کے صرف 80 لوگ ایمان لائے۔یعقوب علیہ السلام نے ایک طویل عرصے تک اس قدر گریہ و زاری کی کہ نابینا ہو گئے مگر دعا نہیں چھوڑی اوراپنا بیٹا پا لیا۔ مریم علیہ السلام نے کردار پر تہمت پر خاموشی، صبر اور ذکر سے مدد لیا اور واحد خاتون ہونے کا شرف حاصل کیا جن کے پاس جبریل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آئے ۔جن کے نام پر قرآن میں ایک سورہ اتاری گئی۔

    چلیے یہ سب صدیوں پرانی مثالیں ہیں میں آپ کو آج کے زمانے کے ہم جیسے عام لوگوں کی مثالیں دیتی ہوں۔پاکستانی انفلوئنسر منیبہ مزاری کئی سالوں سے معذور ہیں مگر لوگوں کو حوصلہ دے رہی ہیں.فاطمہ شاہ نابینا ہیں مگر این جی او چلا رہی ہیں.تنزیلہ خان ایک اینٹر پینور ہیں۔بیرون ملک بیسیوں ایسے افراد ہیں جو جسمانی و ذہنی معذوری کا شکار ہیں مگر دوسروں کے لیے ہمت و حوصلے کی مثال ہیں ذرا گوگل کیجئے اور ان کے حالات زندگی پڑھیے.نک ویچچ چاروں ہاتھ پاوں سے معذور ہیں مگر موٹیویشنل اسپیکر ہیں.رچرڈ برینسن دنیا کے امیر ترین معذور شخص ہیں ۔اسٹیفن ہاکنگ کو ہی دیکھ لیجئے۔ اگر یہ سب چاہیں تو ان کی حکومتیں انہیں زہر کا انجیکشن دے کر مرسی کلنگ کے قانون کے تحت خودکشی کرنے کی اجازت دے سکتی ہیں مگر وہ ہم مسلمانوں کی طرح مایوس نہیں ہوتے بلکہ زندگی کی جنگ لڑتے ہیں اور اس سے جیت بھی جاتے ہیں۔

   چلیں فرض کر لیں آپ اس سب کے باوجود تھک گئے ہیں اور خودکشی کر کے ہی رہیں گے توآپ کا کیا خیال ہے ادھر آپ نے خودکشی کی ادھر سارے مصائب کا خاتمہ ہو جائے گا؟؟؟ جی نہیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ایک انسان کی کتنی زندگی ہو سکتی ہے؟ 30 سے 100 سال۔یا شاید کوئی 120 سال تک بھی جی لے گا۔اس سے زیادہ نہیں۔اس سو سالہ زندگی کے مقابلے میں قیامت تک اور اس کے بعد کی زندگی میں کیا کریں گے آپ۔جب خودکشی کی وجہ سے مستقل جہنم میں رہیں گے جہاں سے فرار بھی ممکن نہیں ہو گا تو کہاں جائیں گے آپ؟ دنیا میں تو گرمی میں بجلی نہ ہو آپ چھت ہر یا باہر چلے جاتے ہیں۔یو پی ایس یا ہاتھ کا پنکھا استعمال کر لیتے ہیں۔سردی میں گیس نہ ہو تو الیکٹرک ہیٹر ، لحاف، کمبل گرم کپڑے استعمال کر لیتے ہیں۔جہنم کی آگ سے کیسے نکلیں گے اور کہاں جائیں گے۔جس وقت آپ کی روح جسم سے نکلے گی اللہ کی ناراضگی آپ کا مقدر ٹھہرے گی۔قبر میں عذاب مستقل ہو گا پھر کیسے جان چھڑوائیں گے؟؟؟؟ذرا سوچیے پھر کوئی بچکانہ قدم اٹھائیے ۔

     ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔غربت ہے تو کام کیجئے کسی کام کو معمولی یا شان کے خلاف نہ سمجھیں۔بیماری ہے تو علاج کیجئے کئی مفت کے ہاسپٹل،  ہیلپ لائنز ہیں ان سے استفادہ کیجئے۔مالی مسائل ہیں توبیت المال اور ہزاروں خیراتی ادارے ہیں ان سے رجوع کیجئے۔طلاق، شادی، اولاد نہ ہونا ان سے زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔لاکھوں افراد اس سب کے ساتھ بھی زندہ ہیں اور خوش ہیں۔حل سوچیے زندگی سے جنگ لڑیں اور ہار نہ مانیں۔اور سب سے بڑھ کر اللہ کا ساتھ نہ چھوڑیے۔اللہ تعالٰی سب کی مشکلات دور فرمائے اور آسانیاں پیدا فرمائے

 پچھلے چند سالوں سے بچوں اور نوجوانوں میں ذرا سی بات پر خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔عشق میں ناکامی، نمبرز توقع سے کم آنا، والدین سے اختلاف، والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو آسان حل ہے کہ خود کو ختم کر لیا جائے خس کم جہاں پاک۔خودکشی حرام ہے مایوسی گناہ ہے اور اپنی جان لینا مسائل کا حل نہیں ہے اس سب پر تو مجھ سمیت کئی لکھاریوں نے قلم اٹھایا ہے۔کچھ نے والدین کو سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے بچوں سے دوستی کرنے کا مشورہ دیا۔کچھ نے جنریشن گیپ ختم کرنے کا کہا۔لیکن کسی نے بچوں کو یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ آپ بچے ہی بن کر رہیں والدین کے باپ بننے کی کوشش نہ کریں
میری جنریشن کے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے والدین تو کیا کوئی محلے دار بھی ہماری کسی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کر دیتا تھا اور ہم چپ چاپ سن لیتے تھے کہ بڑے ہیں ہماری بھلائی کے لیے ہی ڈانٹ رہے ہیں۔اساتذہ کا تو پسندیدہ مشغلہ ہی بات بات پر دھنک کر رکھ دینا تھا۔اور اگر والدین کو شکایت کرتے تو وہ بھی ٹکا کے تواضع فرماتے کہ ضرور تمہاری ہی غلطی ہو گی ورنہ اساتذہ کو کیا تم سے ذاتی دشمنی ہے۔جبکہ آج کل کے بچے اساتذہ کو تونوکر سمجھتے ہی ہیں کہ ہماری فی سے ان کی تنخواہ دی جاتی ہے۔بلکہ والدین کو بھی نوکر ہی سمجھتے ہیں جن کا کام انہیں دنیا بھر کی آسائشیں مہیا کرنا، انہیں بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھانا اور ان کی ہر بیجا خواہش بھی پوری کرنا ہے لیکن وہ ان سے کسی قسم کی بازپرس کے مجاز نہیں کیونکہ یہ بچوں کی شخصی آزادی، نفسیاتی وذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہماری جنریشن کے پاس محدود سہولیات یا آسائشات ہوتی تھیں۔ہم اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے تھے اس کے بعد چند کھیل کھیلے کچھ کارٹونزدیکھے اور خود کو خوش قسمت ترین انسان سمجھتے تھے۔جب کہ آج ہر بچے کے پاس ٹیب، لیپ ٹاپ، اپنا ٹی وی، پی سی، سائیکل، بائیک، گاڑی، پیسوں سے بھرا والٹ، اور دیگر سہولیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔جبکہ جسمانی اور ذہنی ایکٹیوٹی بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔اسکولزاپنے اچھے رزلٹ شو کرنے کے لیے نالائق ترین اسٹوڈنٹ کو بھی 90% مارکس دے کر پرموٹ کر دیتے ہیں۔تعلیم اور تربیت کی بجائے اسکولز میں صرف بزنس کیا جاتا ہے۔اور گھر والے بھی اسکولز پر تکیہ کر کے بچوں کی تعلیم و تربیت سے مبرا ہو جاتے ہیں ۔
حالانکہ اساتذہ اور والدین دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی جسمانی، روحانی اور دینی تربیت کریں۔جب والدین اور اساتذہ اپنے فرائض سے غافل ہو گئے اور بچوں کو ہر طرح کی آزادی مل گئی تو ان کے اندر ایک خلا پیدا ہو گیا۔اور وہ بور ہونے لگے، یہ وہ لفظ ہے جو ہمارے بچپن میں شاید ہماری ڈکشنری میں تھا ہی نہیں، بھرے پیٹ، آسائشوں نعمتوں میں گھرے بچے خودترسی کا شکار ہو کر ڈپریشن کے مریض بننے لگے۔اور اس سے نکلنے کے لیے پہلے ڈرگز، نامحرم سے تعلقات اور پھر خودکشی کا سہارا لینے لگے۔یقین مانیے یہ سب مغرب کی تقلید اوردین سے دوری کا نتیجہ ہے۔
مغرب والدین کو ایک دو سالہ بچے کو بھی ڈانٹنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن پھر بھی وہاں بچے سیریل کلر، سائیکو پیتھ اور ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ثابت ہوا صرف پیار ہی تربیت کے لیے کافی نہیں پابندی، مار اور ڈانٹ بھی ضروری ہے۔ورنہ نماز کی پابندی کے لیے مارنے کی اجازت نہ ہوتی۔اب ذرا میری جنریشن اور آج کے بچوں کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم ذہنی ، جسمانی اور روحانی طور پر نہایت صحتمند تھے۔لیکن آج کل کے بچے ہر لحاظ سے بیمار ہیں۔مگر یہ بیماری بھی صرف امیروں کے ہاں پائی جاتی ہے۔کبھی کسی غریب کا بچہ حالات سے تنگ آ کر یا ماں باپ کی مار پیٹ پر خودکشی نہیں کرتا ۔یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ گوگل، ایپل اور کمپیوٹر کے بانیوں نے اپنے بچوں کو ایک خاص عمر تک نہ تو آسائشیں دیں نہ ہی گیجٹس وجہ ان کی تربیت کرنا تھا۔پھر ہم کیوں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کی چیزیں دے کر ہم بہترین انسان اور اسٹوڈنٹ بنا سکتے ہیں؟؟؟
بچوں کو سہولیات دیجئے مگر ان کی قدروقیمت بھی بتائیے۔انہیں بتائیے کہ کروڑوں لوگوں کو پانی اور کھانا بھی میسر نہیں اور آپ ان سب سے بہتر ہیں کہ گھر، گاڑی، کھانا، کپڑے اور دیگر نعمتوں سے مالا مال ہیں۔انہیں بتائیے کہ والدین ان کے بڑے اور دنیا کے ہر شخص سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں اور وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کا پورا حق رکھتے ہیں۔ان کی اطاعت بچوں پر فرض ہے نہ کہ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے غلام بن جائیں۔کھلائیں سونے کا نوالہ مگر دیکھئے شیر کی نظر سے۔
جو ڈرامے، فلمیں، آرٹیکلز وغیرہ اس چیز کو پرموٹ کرتے ہیں کہ بچوں کی ہر بات مانی جائے انہیں پیار سے سمجھایا جائے تبھی وہ صحتمند اور معاشرے کے لیے مفید انسان بن سکتے ہیں انہیں والدین کی حثیت اور مرتبہ بھی بتانے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ انہیں آف تک نہ کہو کجا کہ بحث کی جائے۔دوستی اور احترام کے درمیانی حد کو پہچاننا لازم ہے۔جس طرح آپ دوستوں سے فرینک ہو سکتے ہیں والدین کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔مانا کہ آپ والدین سے زیادہ کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے صرف وہی آپ کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور انہی سے اپنی ہر بات ڈسکس کرنی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ ان کا مقام ہی بھول جائیں۔
آج کل اے آر وائی کے ڈرامے پنجرہ کاموضوع بھی یہی ہے کہ والدین کی بیجا سختی اور بچوں میں موازنہ بچوں کو کرمنل بنا دیتا ہے۔بالکل درست ہر بچے کی اپنی قابلیت، آئی کیو اور ٹیلنٹ ہوتا ہے اس لیے کسی بچے کا دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔لیکن اس ڈرامے میں کچھ ایسی چیزیں بھی دکھائی گئی ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے۔والد اپنی بیگم اور بچوں کے میوزک سیکھنے اور بجانے کیخلاف ہیں، والدہ بچی کو بوائے فرینڈ اور موبائل رکھنے پر سختی کرتی ہیں تو انہیں مظلوم ترین لوگ بنا کر پیش کیا جاتا یے جس کے نتیجے میں بچہ ڈرگز لینے لگتا ہے اور والدہ بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں ۔جب کہ ہر والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت بھی کریں۔والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ جو تلخ تجربات کر کےاور ٹھوکریں کھا کر انہوں نے زندگی گذاری ہے اس کاسامنا ان کے بچوں کو نہ کرنا پڑے۔وہ انہیں زمانے کے سردگرم سے بچانا چاہتے ہیں ان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان پر سختی کرتے ہیں لیکن جب بچے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر خود تجربات کرناچاہتے ہیں تو ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں۔
ایک شخص کے پانچ سالہ بچے نے باپ سے پوچھا کہ کیا وہ اونچی دیوار سے چھلانگ لگا سکتا ہے۔اس نے جواب دیا ہاں۔بچے نے چھلانگ لگائی اورچوٹ کھائی تو باپ سے گلہ کیا آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ چوٹ لگے گی۔باپ نے جواب ديا اگر میں تمہیں روکتا تو تم ضرور اس کام کو کرتے۔لیکن اب جبکہ تم خود تجربہ کر چکے ہو تو آئندہ یہ غلطی کبھی نہیں دہراو گے۔ہم اس شخص والا فارمولا اپنے بچوں کی ہر فرمائش پر لاگو نہیں کر سکتے۔اس لیے بچوں کو زندگی اور نعمتوں کی قدر کرنا سکھائیے۔اگر وہ کسی نفسیاتی بیماری کا یا الجھن کا شکار ہیں انہیں اسکول یا گھر میں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کا حل نکالیے۔انہیں خودکشی کے حرام ہونے کا علم دیجئے اور سکھائیے کی دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو مستقل ہو یا جس کاحل نہ ہو بس ہمت و حوصلے سے کام لیجئے اللہ سے مدد مانگیے اور صبر کیجئے۔
میرا بڑا بیٹا چند سال کا تھا جب ایک دن وہ اسکول سے آیا اور بولا:” ماما! میں اپنا گلا کاٹنا چاہتا ہوں۔”
میں نے سب کام چھوڑ کر اسے بٹھایا اور لمبا چوڑا لیکچر جھاڑا کہ کچھ بھی ہو جائے آپ اپنے آپ کومار نہیں سکتے۔خودکشی کے متعلق دینی و دنیاوی لحاظ سے نکات بیان کیے بیچارہ چپ چاپ سنتا رہا اور جب میں نے آخر میں پوچھا:” آپ اپنا گلا کیوں کاٹنا چاہتے ہو؟” توبڑی معصومیت سے بولا:” مجھے پیسے چاہیے ہیں اس لیے گلا کاٹنا ہے۔” وہ بیچارہ اپنا غلہ توڑ کر پیسے نکالنا چاہ رہا تھا مگر غلے کی جگہ گلا اورتوڑنے کی جگہ کاٹنا استعمال کر رہا تھا۔لیکن اس غلط فہمی کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے ذہن میں خودکشی ایک گناہ ہے کا تصور پختہ ہوگیا۔آج جب وہ تیرہ سال کا ہے تو کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے دو رکعت نفل پڑھ کر دعا کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالٰی اس کے مسائل کو ضرور حل فرمائیں گے۔اپنے امتحانات میں تہجد بھی ادا کرتا ہے تاکہ اسے کامیابی نصیب ہو۔
میرا مشورہ اور تجربہ یہی ہے کہ بچوں کو اللہ تعالٰی سے جوڑیے اس کی محبت ان کے دل و ذہن میں ڈالیے اور بےفکر ہو جائیے۔ہاں ان کے لیے دعا ضرور کیجئے کیونکہ والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔اللہ تعالٰی سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے اور والدین کو اولاد کے دکھ سے بچائے۔

Loading