ناجائز تجاوزات
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ناجائز تجاوزات۔۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )پاکستان کے ہرشہر میں حکومت یا پرائیویٹ پراپرٹی پر قبضہ مافیا کا راج ہے۔کئی ہاوسنگ سوسائٹیز،مارکیٹس، ہوٹلز اور رہائشی عمارات ایسی زمین پر تعمیر کی گئی ہیں جو کسی حکومتی ادارے کی ملکیت ہوتی ہے اور اس کامقصد ترقیاتی کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔جیسے ریلوے کی زمینوں پر ریلوے ٹریک بچھایا جاتا ہے۔ اور ٹریک کے اردگرد کم از کم 15 سے تیس میٹر تک عمارت بنانا منع ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔ جب کہ ہر بڑے شہر میں ٹریک سےصرف دو گز کے فاصلے ہر ہر طرح کی عمارت بنی نظر آتی ہے۔چنانچہ آئے دن حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
پی آئی اے کی زمین پر ایئرپورٹ اور اس سے متعلقہ آفسز بنائے جاتے ہیں۔نالوں کے اوپر کچھ بھی بنانا منع ہے کم از کم دس میٹر چوڑانالہ ہونا چاہیے تاکہ سیوریج کا نظام صحیح طور پر کام کر سکے۔ بالفرض محال کوئی عمارت بنانا ناگزیر ہو تومیونسپل کارپوریشن اورمتعلقہ محکمے سے منظوری لیناضروری ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی بھی قانون فالو نہیں کیا جاتا۔لہذا جس شخص کے پاس چند پیسے ہوں وہ کچھ زمین خریدتا ہے۔ اس پر ہاوسنگ سوسائٹی یا فلیٹس، ہاسپٹل، مارکیٹ بناتا ہے اور دھڑا دھڑ پیسے کماتا ہے۔چند سال پہلے کراچی کی رہائشی عمارات نسلہ ٹاور اور تجوری ہائٹس کو جب سپریم کورٹ نے ناجائز تجاوزات قرار دے کر گرانے کا حکم دیا تو ان کے رہائشیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ ہم نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر مشکل سے سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ بنایا ہے اور حکومت ہم پر ظلم کر رہی ہے۔ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب مارکیٹس سے پتھارے داروں کو ہٹایا گیا۔ان کا موقف تھا کہ ہم دکانوں کا کرایہ افورڈ نہیں کر سکتے اس لیے اسٹالز لگا کر روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں جو حکومت سے برداشت نہیں ہوا اور ہم غریبوں کے کاروبار تباہ کر دئیے گئے ہیں۔
آج کل پنجاب کے چند شہروں اور بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی اینکروچمنٹ ختم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جس کے لیے اے سی کوئٹہ حمزہ شفقات اپنی نگرانی میں مختلف علاقوں میں عمارات گرا رہے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ شہر کی مرکزی مارکیٹس ہوں یا سڑکیں ہر جگہ دکانداروں، رہائشیوں اور ہاسپٹلز تک نے کئی کئی میٹر زمین اپنے قبضے میں لے رکھی ہے اور نصف صدی سے اس پر ایسے براجمان ہیں جیسے ان کی وراثتی زمین ہو۔جونہی ان بلڈنگز کے اس قبضہ شدہ حصے کو توڑا گیا، پارکنگ ختم کی گئی، دس میٹر والے نالے پر موجود دکانیں ،گھر گرائے گئے جن کی وجہ سے نالا تین فٹ کا رہ گیا تھا اور سیوریج کا پانی مستقل سڑکوں پر نظر آتا تھا۔ہلکی سی بوندا باندی کے بعد شہر کسی گٹر کی مانند ابلنےلگتا تھا۔سب صاف ہو گیا۔سڑکیں کشادہ ہو گئیں جس کی وجہ سے ٹریفک جام کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
مگر اس اقدام کے نتیجے میں اے سی صاحب اور ان کے اسٹاف کو جان سے مارنے، ٹرانسفر کی دھمکیاں بھی ملیں اور ان پر حملے بھی کیے گئے۔ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے کوئی کام کرنے کی کوشش کرے تو اسے فرض کی ادائیگی کی پاداش میں بھی سزا دی جاتی ہے۔جب دھمکیوں سے کام نہ چلا تو حسب معمول سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر مہم چلائی گئی کہ غریب شہریوں اور تجار پر ظلم کیا جا رہا ہے۔وہ اپنا سامان اور کاروبار لے کر کہاں جائیں؟حالانکہ ہر شہر کی پلاننگ کے دوران ہر کام کے لیے مقامات مختص کیے جاتے ہیں کہ کہاں رہائشی کالونی ہو گی کہاں پارک، مساجد، اسکول، ہاسپٹل، مارکیٹ ہو گی۔چنانچہ کوئٹہ میں بھی ریڑھی والوں کے لیے ایک بڑااحاطہ مہیا کیا گیا کہ وہ وہاں شفٹ ہو کر سڑکوں کو چھوڑ دیں۔مگر آفرین ہے ان پر کہ انہوں نے میونسپل کارپوریشن کے ہاتھوں ریڑھیوں اور سامان سے ہاتھ دھونا برداشت کر لیا مگر سڑکیں نہ چھوڑیں۔ حالانکہ احاطے میں وہ نہ صرف محفوظ رہتے بلکہ خریداروں کےلیے بھی آسانی ہو جاتی۔
جہاں رہائشی عمارات یا ہوٹلز، مساجد، اسکول وغیرہ تھے وہاں صرف مالکان ہی قصور وار نہیں بلکہ متعلقہ محکمے بھی برابر کے شریک ہیں۔کیونکہ جب نقشہ پاس کروایا جاتا ہے تو کیوں یہ چیک نہیں کیا جاتا کہ لوکیشن حکومتی ملکیت ہے اور وہاں عمارت بنانے کی اجازت ہے یا نہیں، عمارت بنانا نقصان دہ تو نہیں۔متعلقہ محکمے کے اہلکار تو رشوت لے کر آنکھیں کان بند کر لیتے ہیں۔مگر نتائج بھگتتے ہیں مالکان۔اگر تھوڑی سی کوشش اور تحقیق کر لی جائے۔ہر شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی سائٹس پر اس کی سوسائیٹیز اور دیگر مقامات کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے متعلق تفصیل لکھی ہوتی ہے۔اسے چیک کر لیا جائے ۔یا زمین عمارت خریدنے بنانے سے پہلے ان کے آفس جا کر معلوم کر لیا جائے کہ عمارت بنانا درست ہے یا نہیں تو نہ پیسہ ضائع ہو گا نہ وقت اور بے گھر اور بے روزگار ہونے کی ذلت سے بھی بچ جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں اور ایڈمنسٹریٹیٹو عملےکو بھی ایکٹیو رہنا ہو گا تاکہ ناجائز تجاوزات بننے سے پہلے ہی روکی جا سکیں۔یہ نہیں کہ ایک بلڈر رشوت دے کر ہر محکمے سے این او سی لے لے عمارت بیچ دے اور لوگ اس میں شفٹ ہو کرسکون کا سانس لیں کہ اللہ کا شکر ہے گھر کاروبار نصیب ہوا۔ اور ان پر بجلی گرا دی جاتی ہے کہ زیادہ خوش نہ ہوں آپ تو ناجائز عمارت پر پیسے لگا چکے ہیں۔لہذا اب پیسہ بھی گیا اور عمارت بھی۔اس سب میں بلڈر، این او سی دینے والے نقشہ پاس کرنے والے، ڈویلپمنٹ اتھارٹی وغیرہم کو کوئی نہیں پکڑتا کہ یہ سب آپ کی ملی بھگت اور کوتاہی کا نتیجہ ہے لہذا جرمانہ اور سزا تو آپ کو بھی ملنی چاہیے۔عدالتیں ہوں یا کوئی بھی محکمہ اسے اپنا کام ایمانداری سے سر انجام دینا ہو گا اور عوام کو بھی غلط کاموں کے لیے رشوت دینے سے اجتناب برتنا ہو گا کیونکہ ساری پلاننگ سب قوانین عوام ہی کے فائدے کے لیے ہوتے ہیں۔جب ان کی پاسداری نہیں کی جاتی تومسائل کا انبار لگا جاتا ہے۔