نام کیا رکھیں؟
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ نام رکھنے کی تاریخ )نام کی اہمیت اور شخصیت پر اس کے اثرات کو صدیوں سے ہی مانا جاتا رہا ہے، تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب مصر میں بھی ہم کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔
قدیم مصر کی تحریروں کتاب الاموات Book of Death اور کتاب النفس Book of Breathing سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے لوگ نام کو انسان کا ایک اہم حصہ مانتے تھے، مصریوں کا ماننا تھا کہ انسان صرف مادی وجود( جسے وہ محت Khat کہتے تھے ) کا نام نہیں بلکہ کئی باطنی وجود کا مجموعہ ہے۔ جو اس کے ساتھ بڑے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیوت (Sheut) یعنی سایہ، اب (Ib) یعنی قلب و جذبات، با (Ba) شخصیت یا پرسنالٹی کا Ka) روح یا زندگی کا جوہر ، اخ (Akh) سوچ و ذہن اور رین (Ren) یعنی نام ۔ مصریوں کا ماننا تھا کہ نام انسان کے مرنے کے بعد بھی ہمیشہ اس کی روح کےساتھ بڑار بتا ہیں۔
وہ مخطہ جہاں نام رکھنے کے معاملے کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے وہ ہےہندوستان ۔۔۔ جہاں بچے کا نام کسی جیوتش یا پنڈت کے مشورے کے بغیر رکھا نہیں جاتا۔ اہل ہند کا بھی مانتا ہے کہ نام کا انسانی زندگی اور اس کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔اس لیے اہل ہند تاریخ پیدائش، مجوم اور زائچوں کی مدد سے بچہ کا درست نام تجویز کرتے ہیں۔
اگر ہم الہامی مذاہب کی جانب دیکھتے ہیں تو وہاں نام کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، تو راہ میں تحریر ہے کہ سب سے پہلے انسان کا نام آدم رکھا گیا جس کے معنی سرخ مٹی یا زمین سے نکالا ہوا کے ہیں، آدم کا نام آدم ہی کیوں رکھا گیا ؟ اس کا جواب اس کے نام کے معنوں میں پوشیدہ ہے کیونکہ وہ زمین سے نکالا یا تخلیق کیا گیا، اُن کا نام عین ان کی شخصیت کے مطابق تھا۔ اس کے بعد جو اگلا نام ہے وہ ہے حوا۔ یہ نام عبرانی لفظ خاوا سے بنا ہے جس کے معنی زندگی کے ہیں عبرانی لفظ خائی عربی میں بدل کر جی بن گیا۔ آدم نے جب اپنی بیوی کو یہ نام دیا تو کہا کہ یہ زندوں کی ماں ہو گی اسلئے یہ حوا کہلائے گی یعنی ان کا نام بھی عین ان کی
ذات کا عکس ہے۔
انا جیل میں بھی نام کے متعلق تذکرہ ملتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواری سائمن یا شمون Simon (سننے والا) کا نام تبدیل کر کے پیٹریا پطرس Peter (سنگ بنیاد رکھا اور کہا کہ یہ کلیسیا کی سنگ بنیاد بنے گا۔ حضرت عیسی کے بعد پطرس نے ہی حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کو پورے یورپ میں پھیلا اور کلیسیا کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح ایک حواری ساؤل Saul(سوال کرنے والا، سائل ) کا نام بدل کر پال Paul (شائستہ) رکھا گیا۔
نام اور فلسفہ الہامی مذاہب کے بر عکس تاریخ میں ایسی اقوام و شخصیات بھی گزری ہیں جو مادی فلسفہ پر یقین رکھتی تھیں، اور انہوں نے نام کی اہمیت سے سرے سے انکار کیا ہے ۔ جیسا کہ یونانی فلسفی افلاطون اپنے مکالمے کریٹیلس Cratylus میں لکھتا ہے کہ الفاظ ہمارے ناطق اعضا سے نکلنے والی آوازوں) کا مفہوم یا اشیا کی روح سے واسطہ ہونا ضروری نہیں۔ اسی لیے لوگ جنہیں بہادر کہتے ہیں وہ بزدل بھی ہو سکتے ہیں اور جنہیں خوبصورت قرار دیا جاتا ہے وہ بد صورت بھی ہو سکتے ہیں۔ نام اور اس سے مفہوم کے مابین رشتہ کے غیر فطری ہونے کا تصور افلاطون کے بعد کسی نہ کسی شکل میں بابز ، لاک لیب نیز، بر کلے، فشٹے اور ہیگل کے یہاں پایا جاتا ہے۔ افلاطون کے نقش قدم پر چل کر سوئس فلسفی فرڈی ننڈ ڈی سوسیئٹر Ferdinand de Saussure نے سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کی تھیوری پیش کی کہ ، لفظ یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں کوئی فطری رشتہ“ نہیں۔ لفظ کسی نہ کسی تخیل کو جنم دیتا ہے اور توجہ اس جانب مرکوز ہو جاتی ہے۔ جب ایک لفظ کا دوسرے لفظ سے ٹانکا لگتا ہے تو ذہن پر ایک نقش ابھرتا ہے اور تصور نما Signifier سے تصور معنی Signified کا فاصلہ طے ہوتا ہے۔ جب ٹانکا لگتا ہے تو معنی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ پھول جو ویرانے میں کھلتا ہے مفہوم نہیں رکھتا کیونکہ اسے مفہوم میں ڈھالنے والا کوئی موجود ہی نہیں۔ لیکن جب اسی پھول کو کسی معاشرے میں رکھ دیں تو نشان بن جاتا ہے مثلا جنازے کا حصہ بنادیں تو وہ غم کانشان بن جائے گا۔ ایسی صورت میں پھول تصور نما Signifier اور غم بطور تصور معنی Signified متصور ہو گا۔سوسکیر کے مطابق زبان ایک ہئیت (Form)۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2016