نوجوان بچیوں کے والد پلّے سے باندھ لیں کہ رشتہ طے کرنے سے نکاح تک کی ترتیب کیا ہو؟
The Complete Ideal Road Map For Marriage.
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آپ کے گھر میں بیٹی ہے؟ اور اگر آپ اس کے ولی ہیں تو آئندہ سے اُن کے رشتوں کے حوالے سے طریقہِ کار سمجھ لیں۔۔ اگر وہ کسی کو پسند کرتی ہے تو ظاہر ہے آپ ہی نے اتنی ہمت دے رکھی ہو گی کہ بالغ ہونے پر اسے کوئی پسند آجائے۔ یہ مقام ناراض ہونے کا، ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا، اب اچانک سختی کرنے کا یا فوری کہیں اور رشتہ ڈھونڈ کر اس کی زبردستی شادی کرنے کا ہرگز نہیں ہے کہ عزت بچ جائے۔۔ اللہ کے بندے عزت بچی ہوئی ہے تب ہی گھر تک بات پہنچی ہے! اپنی تربیت پر اور اللہ رب العزت کی ذات پر بھروسہ رکھیں۔۔ لڑکے سے مل لیں۔۔ یہ نہیں کہ پورا ٹبّر گھر بلا لیں کہ وہ براہِ راست رشتہ لے آئیں۔۔ خیر رہی تو یہ اگلا اسٹیپ ہوگا۔
فی الوقت one on one ملاقات رکھیں اُس شادی کے خواہاں مرد سے جس نے آپ کی بیٹی کا ہاتھ آپ سے مانگنا ہے۔۔ اگر لڑکے میں اتنا اعتماد نہیں کہ وہ آپ سے اکیلا مل پائے تو اسے وقت دیجیے کہ وہ لڑکے کے خول سے نکل کر مرد بن سکے۔ یا پھر بیٹی کو سمجھائیں کہ بیٹا وہ تو مجھے ہی فیس کرنے کو تیار نہیں ہے، تمہیں لے کر کل کو کیا کرے گا؟ سمجھائیں کہ آپ ولی ہیں اور شرعی طور پر آپ اُن کا بھلا چاہتے ہیں نیز یہ ذمہ داری اللہ نے آپ پر عائد کی ہے کہ جسے بیٹی دیں اس کا دین ایمان کم از کم سمجھ لیں کہ نسلیں برباد نہ ہو جائیں۔۔ اب جب وہ لڑکا ملے تو آپ نے عزت کے ساتھ باوقار طریقے سے ملنا ہے، نہ اتنا غرور کہ پہلے ہی ذہن بنا ہو کہ اس کی اوقات ہی کیا ہے، یہ تو محض انکار سے پہلے والی فارمیلیٹی ہے۔۔ نا ہی اتنا بِچھے اور جُھکے چلے جانا کہ بھئی اچھا لڑکا ہے تو ہر ریڈ فلیگ ہی اگنور کر دینا۔۔
دوسری ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے گھر میں بیٹی تو ہے، لیکن اسے کوئی پسند نہیں اور اب ساری ذمہ داری آپ پر عائد ہوگئی ہے کیونکہ وہ آپ کے انتخاب اور اللہ کی رضا میں راضی ہے ارینج میرج کے لیے۔۔
یہاں آنے والے رشتوں پر بیٹیوں پر اول تو پریشر نہیں ڈالنا، پیشگی ہی ایسی تربیت کریں کہ انہیں صحیح غلط کا امتیاز ہو اور اولین فوقیت شریعت و کردار کو دیتی ہوں، پھر احساسِ ذمہ داری کو، پھر حسب نسب کو اور پھر مال و دولت یا کاروبار کو۔۔
دوسرا اور لازمی قدم یہ اٹھانا ہے کہ بیٹیوں کا تماشہ نہیں لگانا، نمائش نہیں کرنی، کیٹ واک یا ماڈلنگ نہیں کروانی۔۔ کہ چل کر دکھائیں، دانت چیک کروائیں، گا کر سنائیں وغیرہ۔۔ کیا کوئی منڈی کا جانور بک رہا ہے؟ پورا قبیلہ بھر کر آجاتا ہے رشتے لانے کے نام پر دعوتیں اڑانے، خاندان کی عورتیں نقص نکالتی ہیں، نا محرم رشتے دار آنکھیں سیکتے ہیں۔ کہاں سے ملا آپ کو یہ ؟ یہ ہندوانہ رواج ہے، اسلامی نہیں! مردوں کو الگ بٹھائیں اور عورتوں کو الگ۔۔ لڑکی سے عورتیں مل لیں اور جس نے شادی کرنی ہو وہ دونوں ضرور ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔۔ اگر آپ کی موجودگی میں ان دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی بات سوالات کرنے ہیں تو کرنے دیجیے۔۔ تین لوگوں کی مرضی شرط ہے، لڑکی کی، لڑکے کی اور لڑکی کے باپ کی باپ نہ ہو تو اگلے ولی کی۔۔ بقیہ سب کی رضامندی ہو تو اچھی بات ہے پر خاندان کے ہر فرد کو کو پسند آجانا ہر ایک کے لیے ضروری نہیں۔۔
پچھلے پیرا میں بیان کیے گئے پورے سیناریو سے پہلے ایک کام کیجیے۔۔ لڑکی کا باپ لڑکے سے اکیلے میں کہیں باہر یا گھر بلا کر ملاقات کرلے۔
یہاں سے ایک ہی طریقہ ہے خواہ رشتہ لڑکی کی پسند سے ہو یا مکمل ارینج میرج۔ اب مرحلہ ہے گفتگو کا۔۔ دو ہم پلّہ لوگ جیسے ملتے اور بات کرتے ہیں بلکل ویسے ہی دو ٹوک اور سیدھے مدعے کی بات کریں۔
انسان کی پیدائش کا مقاصد کیا ہیں؟
شادی کا مقصد کیا ہے؟
ترجیحات و اہداف کیا ہیں؟
اسلام کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہے، عبادت میں ہی نہیں، معاملات میں بھی!!!
شریعت کا روز مرہ کی زندگی میں کس قدر عمل دخل ہے؟
کماتا کیا ہے؟ حرام حلال کا امتیاز ہے یا نہیں؟
شادی کیسی کرنا چاہتا ہے؟ جہیز کا امیدوار تو نہیں؟
کس قدر ذمہ دار شخص ہے؟
فہم کا مصدر کیا ہے؟
اولاد کی تعلیم و تربیت میں مرد کا کیا کردار ہے نیز اس حوالے سے ارادے یا منصوبے کیا ہیں؟
چھوٹوں، بڑوں، خود سے رتبے میں کم اور زیادہ والوں سے کیسے پیش آتا ہے؟
فیصلے کرنے میں جھکاؤ عدل کی طرف ہے یا مخصوص رشتوں کی طرف؟
لڑکے سے اس کی ایک سب سے بڑی خوبی، طاقت، خامی اور کمزوری پوچھیں۔
اس سے اس کے تین بڑے خواب پوچھیں جنہیں وہ دنیا میں مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
اس سے پوچھیں کہ جو کام کر رہا ہے وہ ختم ہوگیا تو کیا کرے گا؟
غصے اور اختلاف میں کیسا رد عمل دیتا ہے؟
ایک سے زائد شادی پر کیا رجحان ہے؟
ذہنی، جسمانی اور ایمانی صحت کیسی ہے؟
قوام کی تعریف پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟
آوارہ گردی یا نشے تماشوں میں تو ملوث نہیں؟
آپ کی بیٹی کو شادی کے بعد کہاں رکھے گا؟ کیا اس کے پردے اور پرائیویسی کا خیال رکھا جائے گا کہ نہیں؟ ذاتی کمرہ، باتھ روم اور کچن ملے گا؟ یا الگ رکھے گا یا جوائنٹ یا کنیکٹڈ؟
نان نفقے، وقت اور رہائش کی ذمہ داری کا کس قدر احساس ہے؟
کتنا حق مہر دینے کی اہلیت رکھتا ہے؟
نکاح کے وقت کوئی اضافی شرائط تو نہیں چاہتا؟ ہاں تو کون سی؟
یہاں لکھا ہر سوال اپنی ذات میں ایک باب ہے جس کی گہرائی یا وجوہات سمجھانا یہاں مزید طوالت اختیار کرلے گا۔۔ امید ہے آپ خود ہی سمجھتے ہیں گے کہ کوئی بھی سوال کیوں غیر ضروری نہیں اور ہر جواب بہت کچھ واضح کردیتا ہے۔۔
ضروری نہیں سامنے سے ہر سوال کا سچا جواب ملے، یہاں ولی کو بہت سی چیزیں بھانپنے کے قابل ہونا چاہیے مثلاً اخلاق، آداب و انداز میں کس قدر مادہ پرستی غالب ہے نیز کس قدر فکرِ آخرت؟ کتنا میچیور ہے؟ ڈیسیژن میکنگ، پرابلم سولونگ، باڈی لینگویج، ریڈ فلیگز، ایموشنل انٹیلیجنس، ڈبل اسٹینڈرڈ، فیس اینڈ ایکسپریشن ریڈنگ، معاملہ فہمی، بندہ شناسی وغیرہ جیسے باریک عناصر پرکھنے کے لیے ولی کا تجربہ کار، جہاں دیدہ، پُر اعتماد اور زیرک ہونا بہت ضروری ہے ورنہ اس کی کہی ہر بات ہی سچ یا جھوٹ لگتی رہے گی اور حقیقت کھلے گی شادی کے بعد۔۔ پھر ہوگا پچھتاوا۔۔ ابھی وقت ہے اچھے سے چھان پھٹک کر لیجیے آپ کا حق ہے۔ اس سب کے لیے اگر ولی خود کو اہل نہیں سمجھتا تو اپنے ساتھ کسی قابلِ بھروسہ مخلص و فہیم دوست یا رشتے دار کو بھی بٹھا سکتا ہے جس سے ملاقات کے بعد میں مشورہ کرلے۔۔ اور ابھی سے کوشش کرے کہ یہ تمام اسکلز ہر کوئی سیکھ لے۔۔
لڑکے سے بھی کہا جائے کہ وہ کھل کر جو سوال کرنا چاہے ضرور کرے۔۔
اب ملاقات کے بعد اگر دل کو اطمینان ہے تو لڑکے کو اتنا جان لینے کے بعد استخارہ کرے، جہاں سے تصدیقِ قلب کے بعد ہی بیٹی کو لڑکے کے سامنے لایا جائے۔
آپ کی موجودگی میں اسے بھی اختیار دیجیے کہ وہ خود لڑکی سے اپنی ترجیحات کے مطابق اس قسم کے سوال کرنے کا حق رکھتا ہو جس میں آپ صرف تب مداخلت کریں جب لڑکی شرم و حیا کے باعث خود جواب دینے پر راضی نہ ہو اور آپ کو اختیار دے کہ آپ اس کی طرف سے بتائیں۔۔ لیکن جو بیٹی اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں اعتماد سے جواب دے سکتی ہو اور سنجیدہ ہو تو اسے بات کرنے دیجیے۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ہے، یہاں اسے حق نہ دینا ظلم اور نا انصافی ہے۔۔
پسند نا پسند کا معیار چند اہم ترین باتوں پر منحصر ہے۔۔
دو طرفہ: دین (اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت)، شکل و صورت، اخلاق و کردار، ہم کفو اور احساسِ ذمہ داری۔ خیال رہے کسی اور قسم کی چکا چوند سے اس میزان کا توازن بگڑنے نہ پائے۔۔
کوئی ایک بھی فیکٹر موجود نہ ہو یا مثبت کے بجائے منفی ہو تو یہیں بریک لگا لیں، بیٹی بھاگ نہیں رہی۔۔ اچھے سے تسلی کرلیں۔۔
نوٹ: ذات پات، برادری، خاندان، زبان و نسل وغیرہ کو لازم سمجھنا اور اسے بنیاد بناکر کسی کو مجبور کرنا یا انکار کرنا شریعت کے منافی ہے۔۔ ایسے غیر شرعی اقدامات سے اجتناب کریں۔۔
ضدی اور ہٹ دھرم بچوں کے حوالے سے ہم الگ تحریر لگا دیں گے کسی وقت۔۔ یہ تحریر ان لوگوں کے لیے ہے جن کی زندگی کا مرکز اللہ تعالیٰ اور اس کی تعلیمات ہوں۔۔
یہ مرحلہ گزر جائے اور سب مطمئین ہوں تب اور صرف تب ہی گھر والوں کو چاہیے آپس میں ملیں، آپ نے لڑکے کے گھر جاکر ان کے مردوں سے ملنا ہے، وہ جگہ دیکھنی ہے جہاں آپ کی بیٹی کو رکھا جائے گا۔ عورتوں کو سمجھا دیں کہ وہ عورتوں سے کیسے ملیں اور کیا بات کریں کیا نہیں۔
پھر انہیں اپنے گھر بلا لیں، اور اس وقت تک اگر مین پارٹی یعنی آپ، بیٹی اور ہونے والا داماد راضی ہے تو کسی ایرے غیرے رشتہ دار کو حق نہیں پہنچتا کہ آکر آپ کی بچی کے کردار اور چال چلن کا آپریشن کرے۔۔ یہ ملاقات محض وہ فارمیلیٹی ہے جس میں دیکھا جائے گا کہ دو خاندانوں کی آپس میں کیمسٹری کتنی اچھی ہے، تاکہ مستقبل میں ایڈجسٹ کرنے میں آسانی ہو جب پیشگی معلوم ہوگا کہ دونوں فریق کس قسم کے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔
سلیکشن یا ریجکیشن کا مرحلہ پہلے ہی طے ہو چکا ہوگا۔۔ نا ہی لڑکی کی شخصیت کی دھجیاں اڑائی جائیں گی اور نا ہی اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔
ہاں لڑکے لڑکی دونوں کے والدین احتیاطاً ایک دوسرے سے لازمی مل لیں اور انتظامی امور پر بات کرلیں، ان کی پسند نا پسند بھی پوچھ لیں۔۔ اس سے بہت سی پوشیدہ چیزیں بھی سامنے آ جائیں گی جو فیصلہ کرنے میں رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔۔
اب اگر کوئی شرعی عذر سامنے نہیں آتا تو تو نکاح میں تاخیر نہ کریں۔۔ سادگی سے نکاح پڑھوا کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں اور نئی زندگی شروع کرنے والے دونوں سے چند باتیں کھل کر کہیں کہ کہاں بیٹی کو اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی کرنی ہے۔۔ کہاں ہرگز نہیں کرنی۔۔ لڑکے کو بھی صاف کہیں کہ بیٹی ہے آپ کی، لاوارث نہیں ہے۔۔ ذرا اونچ نیچ ہوئی اور بات آپ تک پہنچی تو معاملے کو شریعت کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اس لیے کوئی قطعاً نہ سوچے کہ حدود اللہ کراس کرکے وہ کسی کو جواب دہ نہ ہوگا۔۔
الحمدللہ اگر آپ نے یہ سب کر لیا تو ان شاء اللہ سب خیر رہے گی۔۔ پھر بھی کہیں خدا نخواستہ کوئی ایسی بات بعد میں سامنے آتی ہے جس کی اجازت شریعت نہیں دیتی تو اصول پر قائم رہیں۔۔ کوشش کریں کہ منفیت کا سد باب ممکن ہو تو ضرور کریں۔۔ البتہ اتمام حجت ہو جائے تو احسن انداز میں بنا لڑائی جھگڑے کے اسے رب کی طرف سے آزمائش سمجھ کر قبول کریں لیکن بیٹیوں کو تنہا نہ چھوڑیں۔۔ جان کا یا اس سے بڑھ کر ایمان کا خطرہ ہو تو طلاق احسن لے لیں۔۔ یہ آخری حل ہے اس سے پہلے کہ بیٹی کی لاش واپس آئے۔۔ جہاں رشتہ جوڑتے ہوئے شریعت کو مد نظر رکھا تھا وہیں رشتہ ختم کرتے ہوئے بھی اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ بڑا کارساز ہے اور جو ہو رہا ہے یہ اسی کے ماسٹر پلان کا حصہ ہے۔۔ اپنی بیٹی کی حفاظت کرنا شرم یا بے عزتی کی بات نہیں ہے۔۔ مگر اس میں اُس کی رضا ہونا شرط ہے۔۔ اگر وہ نبھانا چاہے تو آپ کو کوئی حق نہیں گھر توڑنے کا۔۔ عین ممکن ہے کہ اسے وہ آگ نہ دکھائی دے رہی ہو تو ایسی صورت میں اسے سمجھائیں، مشورہ دیں، استخارے کا کہیں البتہ اپنی مرضی تھوپیں نہیں۔۔
پچھلے پیراگراف سے گھبرانا نہیں ہے، کیونکہ جس قدر احتیاط سے آپ نے ابتدا سے سب کچھ کیا ہے، شاذ ہی ہو کہ بات اس نہج تک پہنچے، قدر اللہ بھی تو کوئی چیز ہے۔۔ اس کا تحریر کرنا بہرحال ضروری تھا تاکہ ذہن میں یہ بات پہنچ ضرور جائے۔۔ بس ہر حال میں شکر ادا کریں کہ اللہ نے آپ کو دین کی نعمت اور فہم سے نوازا کہ ہر فیصلہ اس کے مطابق کرنے کے بعد آپ کے دل کو کس قدر اطمینان نصیب ہوتا ہے۔۔
یہ کیفیات صرف وہی دیدہ ور جان سکتا ہے جس نے بہت سے مقامات پر توکل کو آزمایا ہو۔۔ جس کی برکت سے غیب سے اُس کی ہر موڑ پر مدد ہوتی ہو۔۔ البتہ جو معاشرتی و خاندانی معاملات میں اللہ کے دین سے دور ہو اس کے لیے یہ تمام باتیں اجنبی ہی ہوں گی۔۔ وہ دین بیزار طبقات یہاں ہمارے مخاطب نہیں ہیں۔۔
اگر آپ صاحبِ اولاد نہیں بھی ہیں یا تمام بچے شادی شدہ ہیں تب بھی معاشرے کی بہتری کے لیے جہاں ممکن ہو اس سوچ کو آگے پھیلائیں تاکہ اور کچھ نہ سہی پر ہم شعور اجاگر کرکے اپنا حصہ تو شامل کر سکیں۔۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہر پڑھنے والے، عمل کرنے والے اور آگے پہنچانے والے سے راضی ہو۔۔آمین