Daily Roshni News

واصف علی واصفؒ : کچھ یادیں کچھ باتیں۔۔۔ مصنف ۔۔۔۔ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

واصف علی واصفؒ : کچھ یادیں کچھ باتیں

مصنف ۔۔۔۔ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ واصف علی واصفؒ : کچھ یادیں کچھ باتیں۔۔۔ مصنف ۔۔۔۔ڈاکٹر مخدوم محمد حسین)بقول حضرت واصف علی واصف ؒ ، صاحبِ حال بغیر حال کے سمجھ نہیں آتا اور صاحبِ نظر وہ ہوتا ہے جس کے سامنے “ماضی” اور “مستقبل” “زمانہ حال” ہوتا ہے اور جن کے تقرب سے “حرفِ آرزو” حرفِ بے نیازی ہو کر رہ جاتا ہے ۔ قحط الرجال کے اس دَور میں جہاں لالچ ، خوف ، خود غرضی ، جنسی بے راہ روی ، نفسا نفسی اور مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے انسان کو سکونِ قلب سے محروم کر دیا ہے ۔سکون کی تلاش میں انسان کبھی نیند کی گولی کھاتا ہے ، کبھی وسی ۔ آر دیکھتا ہے اور کبھی نفسانی خواہشات کی تکیمل کو سکونِ قلب کا نسخہ سمجھتا ہے ۔ سکون کی خواہش اس کے لئے مزید بے سکونی پیدا کرتی جا رہی ہے ۔

             مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

سکونِ قلب سے محروم انسان سکون کو تلاش کرتا ہوا خود “مرحوم” ہو جاتا ہے مگر اسے سکون نہیں ہو پاتا ۔ تو کیا سکونِ قلب کا نسخہ کسی ماہرِ امراضِ قلب سے ملے گا؟ ہرگز نہیں ۔ تو کہاں سے ملے گا؟ بقول حضرت اقبالؒ نسخہ یہ ہے

              پرورش دل کی اگر مدِ نظر ہے تجھکو

              مردِ مومن کی نگاہ غلط انداز ہے  بس

سکونِ قلب حاصل کرنے کا نسخہ ایسے ماہر قلب کے پاس ہے جس کا قلب غیراللہ سے “عاری” ہو اور جس کے قلب میں “ذکر” جاری ہو ۔ مومن کا قلب ہی وہ مکان ہے جو لامکاں ہے

                     اے تن رب سچے دا حجرا

                     اندر  پا  فقیرا  جھاتی  ہُو

حدیث پاک ہے اللہ قلبِ مومن کے سوا کہیں اور نہیں سما سکتا ۔ سکونِ قلب کے لئے خواہشات کا “بے ہنگم” پھیلاوء عدم پھیلاوء ہونا چاہیے ۔ خواہشات کی کثرت وحدت کے راستے میں باعثِ نفرت ہے ۔ کم خواہش با سکون زیادہ خواہش بے سکون ۔

بے سکونی کے مرض میں مبتلا کسی آدمی نے واصف ؒصاحب  سے سکونِ قلب کا نسخہ پوچھا تو فرمایا “سکونِ قلب” اسے ملے گا جسے جو چیز پسند ہے وہ حاصل کر لے یا جو حاصل ہے اسے پسند کر لے ۔

“سکونِ قلب” کی تلاش میں انسان کو کوئی لمبے چوڑے سفر بھی نہیں کرنا ہوتے بلکہ یہ سفر تو خالص انسان کے اندر کا سفر ہے ۔ یہ سفر دل کے راستے سے شروع ہوتا ہے اور دل پر آ کر ختم ہو جاتا ہے ۔ گویا دل ہی راستہ ہے ، دل ہی منزل ۔ ” یہ سفر اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی ” کا سفر ہے اور یہ سفر بغیر شوق کے طے نہیں ہوتا ۔

             نگاہِ شوق  میسر  نہیں  اگر  تجھ  کو

             تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

دل کے مسافر کو منزل کو مل جائے تو بانصیب ، اگر راستے میں بھی رہ جائے تو خوش نصیب ۔ سیدھا راستہ ہی خوش نصیبی ہے ۔

بقول حضرت واصف علی واصف ؒ ” منزل خود مسافر کی تلاش شروع کر دیتی ہے ” ایسی ہی ایک تلاش چند دوستوں کے ہمراہ تین سال پہلے واصف صاحب ؒ کے پاس لے گئ ۔ یہ پہلی ملاقات گھڑی کے حساب سے بہت تھوڑی تھی لیکن یہ خوش نصیبی کی گھڑی تھی  ، تعلق کے حوالے سے لمبی ملاقات  ثابت ہوئی ۔ میں ان کی تحریروں کی تاثیر لئے ہوئے ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔ واصف صاحب ؒ سے پوچھا کہ صاحب آپ نے اپنی کتابوں میں صاحبِ حال و صاحب ِ نظر کا جو مقام بتایا ہے آپ کیسے جانتے ہیں؟ کیا آپ صاحبِ نظر ہیں ؟ فرمایا مَیں نے کب لکھا ہے کہ مَیں صاحبِ نظر ہوں ۔ مَیں نے کہا لکھا تو نہیں مگر مجھے خوشبو محسوس ہوئی ہے ۔ پھر فرمایا “کیا تم خوشبو کو پہچانتے ہو” ؟ ان کا یہ کہنا تھا کہ میرے جسم میں حرارت سی پیدا ہوئی اور سردی کے موسم میں پسینہ نکل آیا ۔ ایسی لذت اور خوشبو پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی ۔ خوشبو سے تعارف تھا ۔ پہچان تھی ۔

واصف صاحبؒ کے گھر پر ہر جمعرات کی شام سوال و جواب کی محفل ہوتی تھی ۔ محفل میں سوال ایک یا دو آدمی کرتے مگر جواب پوری محفل سنتی ۔ محفل کا ہر آدمی یہ بات کرتا کہ جو سوال میں نے ابھی پوچھنا تھا اس سوال کا جواب بھی مجھے دے دیا ہے ۔

اکثر سوال کرنے والے محفل میں تو خاموش بیٹھتے مگر جواب اپنا اپنا سن کر واپس جاتے اور روح کی تسکین پاتے ۔

محفل میں کسی نے سوال کرنے کا طریقہ پوچھا تو فرمایا:”سوال سوچا کرو جواب دیکھا کرو” واہ سبحان اللہ کیسی بات ہے! یہ صاحبِ نظر کی نظر کا کمال ہے کہ جو بھی محفل میں آیا نظارہ دیکھ کر گیا ۔ فرمایا جو جانتا ہے اسے بتانا کیا اور جو جانتا نہیں ہے اسے بتانا کیا ” بقول حضرت اقبالؒ

           فیض ِ نظر  کے  لئے ضبط  سخن چاہیے

          حرف پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور

یوں تو ہماری لائبریریوں میں کتابیں لفظوں سے بھری پڑی ہیں جسے لوگ پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر تھک چکے ہیں لیکن یہی الفاظ جب واصف صاحب ؒ کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو وہ جگمگاتے ہیں ۔ جس طرح تاریکی میں جگنو روشنی دیتا ہے ، ایسے ہی مایوسی اور افسردگی کی تاریک رات میں واصف صاحبؒ کے الفاظ روشنی دیتے ہیں ۔ یہ روشنی مایوس دل کو امید اور امید والے دل کو یقین کی دولت سے منور کر دیتی ہے ۔ ان کی زبان میں تاثیر ہے ۔ بقول حضرت واصف علی واصف ؒ

                 دل کی گہرائیوں سے جب نکلے

                  پھیلتی جائے بات کی خوشبو

جو شخص ان کو ایک بار مل لیتا وہ برسوں اس تاثیر کو محسوس کرتا رہتا بلکہ جس شخص نے ظاہری ملاقات کبھی نہ کی صرف ان کی تحریروں سے رابطہ رکھا وہ بھی فیض یاب ہوا اور کچھ لوگوں نے بذریعہ خطوط رابطہ کیا وہ بھی فیض یاب ہوئے ۔

گوجرانوالہ کے ایک مشہور ڈاکٹر سلیم صاحب نے مجھے ایک دن فون کیا اور کہا کہ میں نے واصف صاحب ؒ کو خط لکھا تھا ۔ خط میں اپنی کوئی ذاتی پریشانی لکھی تھی خط کا جواب مجھے مل گیا جس میں آپ کا فون نمبر لکھا ہوا تھا ۔ براہ مہربانی آپ واصف صاحبؒ کا شکریہ ادا کر دیں کہ خط کا جواب ملنے کے ساتھ ہی میری پریشانی ختم ہو گئ ہے ۔ مشہور پامسٹ ایم ۔ اے ملک نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ایک شخص جو بے حد پریشان اور ڈپریشن میں تھا میرے پاس آیا اور بولا ملک صاحب میرا ہاتھ دیکھ کر بتائیے کہ میری پریشانی کب دُور ہو گی اور میرے لئے دعا بھی کر دیں ۔ ایم ۔ اے ملک نے کہا کہ بھائی پریشانی تو کافی لگتی ہے دعا والا بندہ میں نہیں ہوں البتہ تم ایسا کرو کہ ایک ولی اللہ شخصیت ہیں جن کا نام واصف علی واصف ؒ ہے ، تم ان کے پاس جاوء وہ صاحب ِ دعا ہیں ۔ چند دنوں بعد وہ آدمی ملک صاحب کو بڑا خوش خوش ملا اور بولا جناب ملک صاحب آپ کا بہت شکریہ ، آپ نے مجھے صحیح راستہ دکھایا  ، میں واصف صاحبؒ سے ملا ہوں ، واصف صاحبؒ نے دعا دی ہے ۔ واصف صاحبؒ  ، صاحبِ دل تھے  ، صاحب ِ درد تھے اور درد کی دوا عام کرتے تھے اور صاحب ِ درد ہی صاحبِ دعا ہوتا ہے ۔ وہ آشنائے راز کرتے تھے ۔

ایک راز یہ بھی بتایا کہ  “ہر عبادت کی قضا ہے لیکن انسانی دل توڑنے کی کوئی قضا نہیں ” ۔ انسان کے دل کی قدر و قیمت صاحب ِ دل ہی جانتا ہے ۔ پھول کی قدر بلبل جانتی ہے ، کرگس نہیں ۔

آج کل کے مادی دَور میں ظاہری شان و شوکت و فراوانی مال و دولت والے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جن کے بڑے “پروٹوکول” ہیں  ، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اللہ کے ہاں اور اللہ والوں کے ہاں مقرب ہوں بلکہ آپ ؒ فرماتے ہیں” جو دولت اللہ کے قرب سے دُور کر دے بدتر ہے ، وہ غریبی بہت بہتر ہے جو اللہ کے قریب کر دے اور عزت وہ جو عزت والوں کی نگاہ میں ہو اور عزت والے وہ لوگ ہیں جن کی اللہ کے ہاں عزت “۔

محفل میں حنیف رامے صاحب نے سوال کیا کہ کیسے پتہ چلے کہ اللہ ہم پر راضی ہے ؟ فرمایا تنہائی میں سوچو کہ تم اللہ پر راضی ہو ؟ جتنے تم اللہ پر راضی ہو اتنا اللہ تم پر راضی ہے ۔

کسی نے پوچھا کوئی ذکر بتائیں جو پڑھا کروں ۔ فرمایا  ”  طوطا جتنا مرضی ذکر کر لے طوطا طوطا ہی رہے گا ۔ ذکر کرنے سے جنس تبدیل نہیں ہوتی ۔ پہلے اپنے خیال اور نیت کی اصلاح کرو پھر ذکر کرو ۔ پھر یہ ذکر کافی ہے کہ الحمد للہ ، استغفراللہ ۔ اس تصور کے ساتھ کہ یااللہ تو میرے ساتھ جو کچھ کرتا ہے تیرا شکر ہے ، الحمد للہ اور جو کچھ میں کرتا ہوں تو مجھے معاف کر  ، استغفراللہ” ۔

واصف صاحب ؒ نے صاحب ِ حال کی ایک صفت یہ بیان کی کہ صاحبِ حال خواہش کو پورا کر دیتے ہیں یا اس کی خواہش کو ترک کرا دیتے ہیں ۔ محفل میں دورانِ  گفتگو یک لخت خاموشی اختیار کی ، محفل میں حیرانی ہوئی پھر فرمایا گیا کوئی زلزلہ آ رہا ہے ؟ زلزلہ قلوب میں آئے تو بات بنتی ہے ۔ پھر کچھ دیر بعد زلزلہ آ گیا جو سب نے محسوس کیا ۔

واصف صاحب ؒ کی محفل سوال ہی کی محفل ہی نہ تھی بلکہ یہ ایک روحانی تربیت گاہ تھی یہاں تزکیہ نفس ہوتا تھا ، دست شفاء ہی شفاف دل ہوتا ہے اور شفاف دل معاف کرنے والا دل ہوتا ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ “جاننے” کے لئے ماننے کی ضرورت ہوتی ہے اور ماننے والے گمراہ نہیں ہو سکتے ، زندگی بندگی سے ہے ورنہ شرمندگی ۔ وہ رازوں کو جانتے تھے وہ خود بھی ایک راز تھے وہی راز  ، پرانا راز  ، رازِ کائنات  ، رازِ حیات  ، جس نے یہ راز پا لیا وہ بھی ایک راز ہو گیا ۔ وہ فرماتے یہ راز بتایا نہیں دکھایا جاتا ہے اور دیکھنے والے کی آنکھ ہی قابلِ دید ہوتی ہے  ، ویسے بھی منظر بیان نہیں ہوتا صرف دیکھا جاتا ہے ۔

واصف صاحبؒ زندہ دل تھے  ، زندہ دلوں میں ہیں اور دلوں میں زندہ رہنے والے مرتے نہیں ہیں ۔ ان کی تعلیمات آج بھی اور آئندہ کے لئے بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں۔

           واصف   مجھے  ازل  سے  ملی   منزلِ ابد

          ہر دَور پر محیط ہوں جس زاویے میں ہوں

(کتاب :- واصفِ باصفا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ نمبر ۔۔۔۔۔۔ 182 ، 183  ، 184  ، 185  ، 186 ، 187  ، 188)

مصنف :- ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

Loading