ویل وشنگ
تحریر۔۔۔اشفاق احمد
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ویل وشنگ۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد)جب وقت ملے گھر میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ کر اپنا تجزیہ ضرور کیا جانا چاہئے۔ یہ ہے تو ذرا سا مشکل کام کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی اپنی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ آپ نے سُنا ہو گا کہ یہ جور فو گر ہیں، کشمیر میں برف باری کے دنوں میں اپنا سوئی دھاگہ لے کر چلے جاتے ہیں اور وہاں کپڑے کے اندر ہو جانے والے بڑے بڑے شگافوں کی رفوگری کا کام کرتے ہیں۔ خاص طور پر گرم کپڑوں کے شکاف اور نگار “ اور چٹاخ کی رفوگری کرتے ہیں، وہ کہاں سے دھاگہ لیتے ہیں اور کس طرح سے اس کو اس دھاگے کے ساتھ مہارت سے ملاتے ہیں کہ ہم تریں نہیں کر سکتے کہ یہاں پر اتنا بڑا (Gape) سوراخ ہو گیا تھا، کیونکہ وہ بالکل ایسا کر دیتے ہیں، جیسے کپڑاکارخانے سے بن کر آتا ہے۔ یہ رفوگروں کا کمال ہے۔ وہ غریب لوگ اپنی چادر لے کر اور اپنی کا تگڑی (مٹی کی بھٹی) سالگا کر اس میں کو ملے ڈال کر ، دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہوتے ہیں اس دوران وہ اپنا تجزیہ کرتے ہیں اور ان کو پر چلتا رہتا ہے اپنے Self کو جو لے کر انسان پیدا ہوا تھا، محفوظ رکھا ہوا
ہے یا نہیں۔
ہم نے تو اپنی Self کے اوپر بہت بڑے بڑے سائن بورڈ لگا لئے ہیں، اپنے نام تبدیل کر لئے ہیں، اپنی ذات کے اوپر ہم نے پینٹ کر لیا ہے۔ ہم جب کسی سےملتے ہیں، مثلاً میں آپ سے اس اشفاق کی طرح نہیں ملتا، جو میں پیدا ہوا تھا، میں تو ایک رائٹر، ایک دانشور، ایک سیاستدان ایک ٹیچر بن کر ملتا ہوں۔ اس طرح آپ جب مجھ سے ملتے ہیں تو آپ اپنے اپنے سائن بورڈ مجھے دکھاتے ہیں۔ اصل Self کہاں ہے ، وہ نہیں ملتی۔ اصل Self جو اللہ نے دے کر پیدا کیا ہے، وہ تب ہی ملتا ہے ، جب آدمی اپنے نفس کو پہچانتا ہے ، اپنے نفس سے تعارف اس وقت ممکن ہے جب آپ اس کے تعارف کی پوزیشن میں ہوں اور اکیلے ہوں۔
جس انسان نے خود کو پیچان لیا کہ میں کون ہوں؟ وہ کامیاب ہو گیا اور وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو باوجود اس کے کہ علم زیادہ نہیں رکھتے، ان کی تعلیم بھی کچھ زیادہ لیکن وہ علم ان پر وارد ہوتارہتا ہے، جو ایک خاموش آدمی کو اپنی ذات کے ساتھ دیر تک چکھنے میں عطا ہوتا ہے۔ میں کبھی کبھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ ، عمر کے اس حصے میں میری طبیعت پر ایک عجیب طرح کا بوجھ ہے۔ میں آپ سے بہت سی باتیں کرتا ہوں۔ اب میں چاہوں گا کہ میں اپنی مشکل آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ بھی میری مدد کریں، کیونکہ یہ آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ مجھ جیسے پریشان اور درد مند آدمی کا سہارا بن جائیں۔ ہمارے ہا ہے جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی محفل میں کسی یونیورسٹی، سیمینار ، اسمبلی میں، کسی اجتماع میں یا کسی بھی انسانی گروہ میں بیٹھے کوئی دے دیا تھا کہ وہ اس کی تاب نہ لا سکا۔ اب میں بیٹھ کر سوچتا ہوں، تو دیکھتا ہوں کہ میں نے اتنے اچھے صحت مند پیارے بچے کے ساتھ کیا حماقت کی ہے۔ تب میں سمجھتا تھا کہ پڑھانے کے لئے ایسا ہی سخت رویہ ہونا چاہئے۔ پاکستان بن گیا۔ ہم ادھر آگئے۔ مجھے پتا چلا کہ وہ گھرانہ ساہیوال چلا گیا تھا۔ باپ کو اسے پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ اس نے بچے کو پھر سکول داخل کرایا، لیکن وہ سکول سے بھاگ جاتا تھا۔ ڈرتا تھا اور کا نچا تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ بہت سال بعد مجھے پھر معلوم ہوا کہ اس لڑکے نے بری بھلی تعلیم حاصل کر لی ہے اور لاہور سے انجینئر نگ یونیورسٹی سے بی ایس سی بھی کر لیا ہے۔ پچھلی سے پچھلی عید پر جب ہم نماز پڑھ چکے، تب ہم عید کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ معانقہ کرتے ہیں جبھی ڈالتے ہیں۔ میرے ساتھ لوگ ملتے رہے اور ہم بڑی محنت سے ایک دوسرے سے جیھی ڈالتے رہے۔ وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا، وہ بھی کسی سے مل رہا تھا۔ میں نے کہا یہ میری طرف تو متوجہ نہیں ہوتا، میں ہی اس کی طرف متوجہ ہوں۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور جب میں نے آگے بڑھ کر اسے جھی ڈالنے کی کوشش کی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے مجھےپرے دھکیل دیا۔
میر ایقین ہے کہ یہ وہی لڑکا تھا۔ اب میں اس کو تلاش کر رہا ہوں اور بہت تکلیف میں ہوں اور اس بات کا آرزو مند ہوں کہ کسی طرح سے مجھے اس سے معافی مل جائے۔ جو واقعہ گزرا اور جس طرح سے اس کے دل کے اوپر لگاوہ زخم کتنے ہی سال گزرنے کے بعد بھی اس کے دل پر چلا آرہا ہے اور اب وہ واقعہ ایک نئے روپ میں مجھےپریشان کرتا ہے۔ اس کا دین، اس کی دیت، اس کا قصاص کس طرح سے ادا کیا جائے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کو تاہیاں انفرادی طور پر بھی آدمی سے ہوتی ہیں، اجتماعی طور بھی ہوتی ہیں۔
ہمارے اور اللہ کے ٹائم میں بڑا فرق ہے۔ ہمارا جو ایک دن ہے وہ اللہ کے لئے تو کچھ بھی نہیں۔ پتا نہیں ہمارا کتنا ٹائم لگ جائے تو پھر اللہ کا ایک دن بنے۔ ہم اپنے اس بچے کا، جس کا میں ہیڈ ماسٹر بن گیا تھا، اس طرح سے پر اسمت“ کر سکتے ہیں ایسی خلافی کر سکتے ہیں کہ ہم ان کی بہتری چاہیں ، دل سے انہیں اچھا wish کریں۔ دعا لفظوں کے ساتھ مانگی جاتی ہے۔ جب آپ کسی کے لئے آرزوا اچھی رکھیں اور آپ کسی کو کہہ دیں کہ فلاں بڑا اچھا آدمی ہے ، اللہ اس کو بھاگ لگائے۔ چاہے آپ کسی کو بے خیالی میں کہہ دیں۔
آپ ان سب لوگوں کے لئے جو بڑے دکھ سے گزر رہے ہیں اور بڑی تکلیف میں ہیں، ان کے لئے اور کچھ نہیں کر سکتے تو well wish ضرور کریں اور اگر آپ کے گھر کے اندر کوئی دیوار ہے اور کبھی آپ کو مغرب کا وقت میسر آئے تو آپ اس کے ساتھ ڈھو (ایک) لگا کر بیٹھیں اور اپنے اللہ سے یہ ضرور کہیں کہ ” میں ان بھائیوں اور بہنوں جن پر صریحاً ظلم ہو رہا ہے، کہیں کہ “اے اللہ ! میں ان کے لئے اور کچھ نہیں کر سکتا، صرف Well Wish کر سکتا ہوں۔ اے اللہ ! تو مدد فرما۔“
اس کام کے لیے آپ کو وقت نکالنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ آپ چلتے ہوئے کر سا پڑھ لیں اس طرح سے Well Wish اثر نہیں کرے گی۔
میرے لئے بھی یہ دعا ضرور کیجیے گا کہ وہ نوجوان، اب ماشاء اللہ اس کے بچے ہوں گے، مل جائے اور اتنا ناراض نہ رہے، جتنا ناراض ہونے کا اسے حق پہنچتا ہے۔
موضوع شدت سے ڈسکس کر رہے ہوں اور اس پر اپنے دلائل پیش کر رہے ہوں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسی دلیل آجائے جو بہت طاقتور ہو اور اس سے اندیشہ ہو کہ اگر میں یہ دلیل دوں گا تو یہ بندہ شرمندہ ہو جائے گا کیونکہ اس آدمی کے پاس اس دلیل کی کاٹ نہیں ہو گی۔ اس موقع پر ہا ہے“ کہتے ہیں کہ ” اپنی دلیل روک لو، بندہ بچالو، اسے ذیح نہ ہونے دو، کیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے۔“ ہم نے تو ساری زندگی کبھی ایسا کیا ہی نہیں۔ بڑی دیر کی بات ہے، 1946ء کی، جب پاکستان نہیں بنا تھا۔ میں اس وقت بی اے کر چکا تھا۔ ہمارے قصبے کے ساتھ ایک گاؤں تھا۔ اس میں ایک ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل سکول تھا، وہاں کا ہیڈ ماسٹر چھٹی پر گیا۔ اس کی جگہ تین ماہ کے لئے مجھے ہیڈ ماسٹر بنادیا گیا۔ اب میں ایک چھوٹے قد کا نوجوان بڑے فخر کے ساتھ ایک سکول ہینڈل کر رہا ہوں۔ گو مجھے زیادہ تجربہ نہیں ہے ، لیکن میں زور لگا کے دوسرے ماسٹروں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بی اے کیا ہوتا ہے، کیونکہ وہ بیچارے نارمل سکول پڑھے ہوئے تھے۔
جیسا کہ ہر نئے آدمی کی عادت ہوتی ہے یا جو بھی کسی جگہ نیا آتا ہے ، وہ ہمیشہ سٹم ٹھیک کرنے پر لگ جاتا ہے۔ میں نے بھی سوچا کہ میں سکول کا سسٹم ٹھیک کروں گا، حالا نکہ مجھے چاہئے تو یہ تھا کہ میں پڑھاتا اور بہتر طور پر پڑ جاتا لیکن میں نے کہا نہیں، اس کا سسٹم بدلنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے کہا یہ گملا ادھر نہیں ادھر ہونا چاہئے۔ وہ جو سن فلاور (سورج مکھی) ہوتا ہے ، وہ مجھے بہت برا لگتا ہے۔ اس پہلے پھول کو میں نے وہاں سے نکال دینے کا حکم دیا۔ اب اگلا ہپنا (ڈیسک) پیچھے کر کے پچھلا آگے کر کے سسٹم تبدیل ہو رہا ہے۔ گملوں کو گیر ونگار و، سُرخ رنگ کا، سفیدی کردو، تمام ماسٹر صاحبان پگڑی باندھ کر آئیں۔
اس طرح سکول میں سسٹم کی تبدیلی جاری تھی۔
ماسٹر بیچارے بھی عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ سکول میں چھٹی کے وقت پہاڑے کہلوائے جاتے تھے۔ چھ کا پہاڑہ ماسٹر صاحب کہلوا ر ہے تھے۔
چھ کم چھ چھ دونی بارہو چھ تیار اٹھارا
میں نے سکول میں ایک شرط عائد کر دی کہ بچوں میں شرمندگی اور خلقت دور کرنے کے لئے ان کو سٹیج پر آنا چاہئے اور بلیک بورڈ ( تختہ سیاہ) کے سامنے کھڑے ہو کر یہ پہاڑہ لکھنا چاہئے۔
چوتھی جماعت کا ایک لڑکا تھا، اب مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ اس نے تختہ سیاہ پر لکھنے سے انکار کر دیا کہ میں نہیں لکھوں گا۔ استاد نے کہا کہ یہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا حکم ہے، تمہیں وہاں جا کر لکھنا پڑے گا، لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ شرماتا ہو گا بیچارہ گاؤں کا لڑکا۔
اسے میرے سامنے پیش کیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ لڑکا پہاڑہ تو ٹھیک جانتا ہے، لیکن بورڈ پر لکھتا نہیں۔ میں نے پر چھا، تم کیوں نہیں لکھتے ، اس نے کہا میں نہیں لکھوں گا۔ میں نے اس کا کان پکڑ کر مروڑا اور کہا کیا تجھے معلوم ہے کہ میں تجھے سخت سزاد وں گا۔ اس نے کہا جی میں یہ نہیں کر سکتا، مجھ سے لکھا نہیں جاتا۔ شرمیلا تھا شاید۔
میں نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ اسے ساری کلاسوں میں پھر ائیں اور سب کو بتائیں کہ یہ نافرمان بچہ ہے اور اس نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات نہیں مانی۔
ماسٹر صاحب میرے حکم کے مطابق اسے لے گئے اور اسے گھماتے رہے۔ دیگر استادوں نے بھی بادل نخواستہ اپنی طبیعت پر بوجھ سمجھ کر میرے اس فلم کو قبول کیا، تاہم انہوں نے میری یہ بات پسند نہیں کی، جسے میں اپنی انتظامی صلاحیت خیال کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ لڑکا کبھی سکول نہیں آیا۔ میں نے اپنے ایک فیصلے اور حکم سے اسے اتنا بڑا از خم ۔۔ ۔ جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2024