Daily Roshni News

ٹائم اینڈ اسپیس۔۔۔قسط نمبر1

ٹائم اینڈ اسپیس

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کیا زمان و مکان میں سفر ممکن ہے؟

یعنی کیا انسان کا  بغیر کسی واسطے یا ذریعہ کے لمحوں میں میلوں کا سفر ممکن ہے۔۔۔؟

انسانی شعور اس بات کو جانتا ہے کہ سفر کوئی بھی کیا جائے اس میں دو چیزیں مشترک ہوتی ہیں ایک تو وسیلہ سفر یعنی ہمیں سفر کے لئے میڈیم کی ضرورت ہے چاہے وہ کسی سواری یعنی رکشہ ، ٹیکسی سائیکل بس یا ہوائی جہاز کی شکل میں ہو یا پھر پیدل چل کر کسی مسافت کا طے کرنا ہو ۔ دوسر ا وقت جو ہمیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے یا فاصلہ طے کرنے کے لئے درکار ہوتا ہے یہ دورانیہ چند منٹوں سے لے کر کئی گھنٹوں بسا اوقات کئی سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔

جدید سائنسی تحقیقات کا رخ اب اس جانب ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس وقت کی رفتار سے آزاد ہوا جائے یا پھر سفر میں درکار لمحوا وقت کو کم سے کم اور وسیلے کے استعمال کو صفر کر دیا جائے یعنی زمان و مکان میں سفر کو ممکن بنایا جا سکے۔ دنیا بھر میں اس سلسلے میں کی جانے والے کیا تحقیقات منظر عام پر آرہی ہیں اور سائنسدان کامیابی سے کتنے قدم دور ہیں۔ اد اس پر بات کرنے سے پہلے ہم کو اس سوال کا جواب ایک اور زاویہ نظر سے حاصل کرتے ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے جب حضرت سلیمان نے کہا کہ تم میں سے کون اس کا تحت جلدی لا سکتا ہے تو جنات نے کہا جتنی دیر میں آپ دربار برخاست کریں میں تخت حاضر کر دوں گا۔

دوسری آیت ہے کہ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ پلک جھپکنے بھی نہ پائے گی اور تخت یہاں موجود ہو گا۔ اور تخت آگیا۔ ایک آن میں بغیر کسی ظاہری میڈیم کے ملکہ سبا کا تخت ہزاروں میل کی دوری سے حضرت سلیمان کے دربار میں حاضر کر دیا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک شخص جو کتاب کا علم رکھتا تھا پلک جھپکتے کے وقفے میں ڈیڑھ ہزار میل کے طویل فاصلے سے مادی ہے یعنی تخت کو منتقل کر دیا۔ گو کہ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ دور جدید میں سائنسی تحقیقات و ایجادات اپنے عروج پر ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ جدید تحقیقات اور مسلسل دریافتوں سے حاصل ہونے والے شواہد بار بار یہی عندیہ دیتے نظر آتے ہیں کہ ماضی کا انسان آج کے انسان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ جدید تحقیقات اور روحانی مشقوں میں وہ درجہ کمال کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ اور اس سے بڑھ کر وہ اپنے باطنی تشخص کا آج کے انسان سے کہیں زیادہ علم رکھتا تھا جو خالق کائنات نے اسے ودیعت کیا ہے ۔ اگر صرف ان واقعات پر ہی ذرا سا غور کیا جائے تو ہم اپنے پری ذرا سا کیا جائے ہم اپنے

سوال کا جواب پالیں گے۔

جی ہاں زمان و مکان میں سفر ممکن ہے مگر کس طرح …. ؟ اس کا جواب عظیم روحانی سائنسدان حضور قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات میں ہمیں ملتا ہے۔ آپ وہ برگزیدہ ہستی ہیں جنہوں نے زمان و مکان کی حقیقت کی وضاحت فرمائی ۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ کائنات کی ہر تخلیق خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی روشنی کے خلاف میں بند ہے اور روشنی کے اوپر نور منڈھا ہوا ہے۔ ہر تخلیق کی طرح انسانی زندگی بھی دو حواسوں یارخوں پر کام کرتی ہے۔ جنہیں حضور قلندر بابا اولیاء شعور یا بیداری کے حواس اور لاشعور یا نیند کے حواس کا نام دیتے ہیں۔ زمان یا وقت کیا ہے اس کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ دونوں حواسوں میں ہم زمان یعنی وقت کا صرف تذکرہ کرتے ہیں زمان یا وقت حواس کی گرفت سے ماوراء ہے۔ یہ محض شعوری اور لاشعوری تعین کی درجہ بندی ہے ۔ یعنی ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں

ایک لمحہ دوسرا لحہ اور گھنٹے ایک متواتر انداز میں گزر ہے ہیں تو یہ تعین زمان پر گرفت کو مضبوط کر دیتا ہے یعنی ہمیں زمان و مکان میں قید کر دیتا ہے۔ اسے Serial Time کہتے ہیں ۔ لیکن اگر شعور زمان یا وقت کے گزرنے یا نہ گزرنے کی طرف سے توجہ ہٹا دے تو لمے ، گھنٹے ، دن ہفتے کی زمانیت ایک آن میں سمٹ جاتی ہے۔ یہی وہ طرز ہے جو خواب میں کام کرتی ہے جیسے کہ خواب میں انسان کے ذہن کی رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے اور جو کچھ خواب میں نظر آتا ہے وہ زیادہ تر مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق ہو تا ہے۔ یعنی ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ ابھی لندن میں ہے اور ایک لمحے بعد وہ دیکھتا ہے کہ وہ کراچی میں ہے۔ یہ بات ذہن کی اس واردات سے متعلق ہے جس کا نام زمان غیر متواتر -Non SerialTime یا لا شعور ہے جہاں شعوری حواس کی Serial Time ترتیب بے معنی ہو جاتی ہے۔ اب اگر لاشعور کی اس صلاحیت پر مراقبہ کے ذریعے غلبہ حاصل کر کے ارادے کے ساتھ وابستہ کر لیا جائے تو بیداری یا شعوری حواس میں رہتے ہوئے بھی آئندہ پیش آنے والے واقعات کا نہ صرف مطالعہ اور مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ میلوں کی مسافت لمحوں میں طے ہو سکتی ہے۔

یہ وہ روحانی طرز فکر ہے جو ہمارے لئے یہ سمجھنا آسان کر دیتی ہے کہ زمان و مکان ہے کیا اور اس میں سفر کس طرح ممکن ہے ۔ چونکہ انسانی شعور قدم بہ قدم چلنے کا عادی ہے جس کے تحت وہ ہر چیز کو مادیت میں سمجھنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ یہی وہ طرز فکر ہے جو ہمیں طبیعات، کیمیا، نفسیات مابعد لنفسیات اور دیگر سائنسی اور غیر سائنسی علوم کی صورت میں نظر آتی ہے۔ فی زمانہ سائنسی علوم اس قدر تو ترقی کر چکے ہیں کہ اب کائنات کے بہت سے اسرار سے پردے اٹھنے لگے ہیں اور بہت سے تاریخی واقعات کی سائنسی تو جیہات انسانی عقل میں سمانا شروع ہو گئیں ہیں۔ اس کے باوجود انسان اصل میں ہے کیا اور اس کی صلاحیتوں کی حد کہاں تک ہے اس پر کام کرنا ابھی باقی ہے۔ بہر حال یہاں آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جدید سائنسی تحقیقات زمان و مکان میں سفر کو ممکن بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں اور اگر واقعی یہ ممکن ہونے جارہا ہے تو کس حد تک

اور کس طرح؟ٹیلی پورٹیشن کیا ہے؟

زمان و مکان میں سفر کو سائنسدان ٹیلی پورٹیشن کا نام دیتے ہیں۔ ٹیلی پورٹیشن سے مراد کسی بھی مادی شئے کی ایک مقام سے دوسرے مقام تک بلا واسطہ اور فوری منتقلی ہے۔ ایسا سفر جس کے دوران فضا اوروقت دونوں ہی آڑے نہیں آتے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس عمل میں انسانوں کو بھی پلک چھپکتے ہی کسی بھی مقام پر منتقل کیا جاسکے گا۔ مسافت خواہ ایک فٹ سے لے کر ایک میل تک کیوں نہ ہو مسافر کو کوئی فاصلہ طے کرنا نہیں پڑے گا۔ یہ تو ہوئی ٹیلی پورٹیشن کی مختصر تعریف اب یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی۔ سائنسی تحقیقات کا سفر آئن اسٹائن وہ پہلی شخصیت ہے جس نے بتایا کہ مادہ اور توانائی دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ سکے کے دو رخ ہیں اور مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں ڈھل سکتے ہیں۔ آئن اسٹائن یہ کہتا ہے کہ زمان و مکان بھی ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں ۔ اس وقت زمان و مکان میں سفر ایک ناممکن اور غیر منطقی سی بات تھی۔ لیکن آئن انسٹائن نے یہ نظر یہ ایک الہام کے طور پر پیش کیا جس کے صحیح ثابت ہونے کا اسے پورا پورا یقین تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ خلا اور وقت کا تانا بانا ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔ جسے اس نے زمان و مکان کا پھیلاؤ کا نام دیا۔ آئن اسٹائن کے اس نظریہ اضافیت نے سائنسدانوں کے لئے تحقیق کی کئی راہیں ہموار کیں۔ اس کے کئی سال بعد ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ سب سے پہلے 1966ء سے 1996ء تک ٹی وی پر دکھائی جانے والی سیریل اسٹار ٹریک میں پیش کیا گیا تھا۔ اس سیریل کا مرکزی خیال جبین رائن پیری کی لکھی ہوئی کہانیوں پر مبنی تھا جس میں خلائی جہاز کی مختلف مہمات دکھائی جاتی تھیں ۔ اسے ناظرین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس پر انتہائی حیرت کا بھی اظہار کیا تھا۔ اس سیریل میں کیپٹن کرک اسپاک اور ڈاکٹر میکائے اپنے ساتھیوں سمیت اپنے خلائی جہاز سے کسی بھی سیارے پر اتر جاتے تھے اور یہ فاصلہ سیکنڈوں میں ملے ہو تا تھا۔ انہیں ایک شیشے کی ٹیوب میں کھڑا کیا جاتا جہاں وہ آن واحد میں تیز روشنی میں تبدیل ہو کر مطلوبہ مقام پر موجود ایسی ہی ایک شیشے کی ٹیوب میں نمودار ہو جاتے۔ اسی طرح کی دیگر سائنس فکشن فلم جیسے بیک ٹو دی فیچر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں۔

1993ء میں ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ سائنسی تصورات کی حدوں سے نکل کر اس وقت حقیقت کی۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2015

Loading