Daily Roshni News

ٹائم اینڈ اسپیس۔۔۔قسط نمبر2

ٹائم اینڈ اسپیس

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ٹائم اینڈ اسپیس )زمان کیا ہے….؟؟

حضور قلندر بابا اولیاء سے سوال کیا گیا کہ زمان کیا ہے آپ نے فرمایازمان ماضی ہے …. ایک نشست میں حضور بابا صاحب نے فرمایا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زمانہ گزر تا رہتا ہے حالانکہ فی الحقیقت زمان ریکارڈ (ماضی) ہے۔ حال اور مستقبل علیحدہ کوئی وجود نہیں رکھتے بلکہ ماضی کے اجزاء ہیں۔

سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے: ‘جو کچھ ہونے والا ہے، قلم اس کو لکھ کر خشک ہو گیا۔ سورج جس کہکشاں میں واقع ہے اس کا نام ملکی وے ہے۔ ہیت دانوں نے اس ملکی وے میں موجود تقریبا چار سو بلین ستاروں کے فاصلے ناپنے کے لئے جو اصطلاح وضع کی اسے نوری سال کہا جاتا ہے اس اصطلاح کا مطلب ہے وہ مسافت جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے طے کرتی ہے۔ یعنی سورج سے زمین تک کا ڈیڈ سومین سال کا سفر طے کرنے میں اسے آٹھ منٹ لگتے ہیں۔ اگر روشنی اسی رفتار سے ایک سال تک چلتی رہے تو اسے نوری سال کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق ملکی وے کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے ۔ اب مثال کے طور پر سورج چمکنا بند کر دے تو یہ ہمیں آٹھ منٹ بعد ہی پتہ چلے گا کیونکہ یہی وہ وقت ہے جو روشنی کو زمین تک پہنچے میں لگتا ہے۔ لہذا جو ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ماضی میں کیسی تھی نہ کہ اس وقت کیسی ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ازل سے زمین تک آنے میں ہر انسان کو تقریبا سترہ مقامات (زون) سے گزرناپڑتا ہے۔ سائنس اس کے شواہد پیش کرتی ہے کہ ارضیات دان جان مچل نے بتایا کہ بعض ستارے بہت زیادہ کثافت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب کی قوت اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ روشنی بھی ان سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے انہیں دیکھنے والے کو وہ خلاء میں سیاہ دھبے کی طرح نظر آئے گا جنہیں ہم سیاہ شگاف کہتے ہیں۔ مزید وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ روشنی بالکل سیدھی لائن میں نہیں چلتی جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں بلکہ کسی بڑی کثافت کے حاصل ستارے کے پاس سے گزرتے وقت خم کھا جاتی ہے۔ اور پھر جب ستارے کی کثافت اپنی حدوں کودنیا میں داخل ہو گیا جب یارک ٹاؤن نیو یارک ، آئی بی ایم ٹی جے واٹسن ریسرچ سینٹر کے طبیعات داں چارلس بینٹ اور ان کے ساتھی محقیقین نے اس امر کی تصدیق کی کہ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن ممکن ہے تاہم عملی جامہ اسی صورت پہنایا جا سکتا ہے جب اصل شے جسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک آن واحد میں منتقل کیا جانا ہے تباہ کر دی جائے۔ چارلس بینٹ نے اس امر کا اعلان مارچ 1993ء میں امریکی فزیکل سوسائٹی کے سالانہ اجلاس میں کیا۔ جس کےبعد 29 مارچ 1993ء کو فزیکل ریویو سائنسدانوں نے فوٹانز پر تجربات کرنا شروع کیے اور یہ ثابت کیا کہ کو انٹم ٹیلی پورٹیشن حقیقت میں ممکن ہے۔ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین طبیعات نے 1998ء میں یورپی ماہرین کے ساتھ مل کر تجربات کیسے اور فوٹانز کو کامیابی کے ساتھ ٹیلی پورٹیشن کے عمل سے گزارا اور واضح رہے کہ فوٹان روشنی کا انتہائی چھونے لگتی ہے تو وہ روشنی کو خم دینے کی بجائے شدت اپنی طرف کھینچتے ہوئے نگل جاتا ہے۔ اور چونکہ روشنی ستارے کی عظیم تر کشش سے بچ نکلنے میں ناکام رہتی ہے چنانچہ وہ ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس لیے ہمارے مشاہدے کے لیے صرف ایک سیاہ شگاف ہی بچتا ہے جو چھوٹا یا بڑا ہو سکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق سیاہ شگاف جو کچھ اپنے مرکز کی طرف کھینچتے اور نکلتے ہیں وہ ان کے اندر فنا نہیں ہوتا بلکہ کسی ایک سمتی سرنگ سے گزرتے ہوئے ایک سفید شگاف کے ذریعے کسی دوسری کائنات میں جالگاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سیاہ شگاف کو عبور کرنے سے ہم زمان و مکان کے ذریعے کائنات کے کسی دوسرے دور دراز علاقے میں جا نکلیں گے جو ہم سے ہزاروں یا شاید کروڑوں نوری سال واقع ہے۔

ورمز ہولز :کچھ سال پہلے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا کہ کائنات میں کچھ ایسی سر تمیں موجود ہیں ہم سائنسی اصطلاح میں ایک خلا سے دوسرے خلاء تک پہنچنے کا شارٹ کٹ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سائنس انہیں ورم ہولز کا نام دیتی ہے۔ آسٹرو فزکس سینٹر ، کو پین ھیگن کے پروفیسر ایگونو نو وی کو Prof Igono Noviko کے مطابق دو سیاہ شگافوں کے ملنے سے یہ سرنگیں وجود میں آتی ہیں یہی وہ سرنگیں ہیں جنہیں فرشتے کائنات میں سفر کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ایک ورم ہولز میں گذرنے والا ایک دن زمین کے پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا۔ ان سر نگوں سے جو بھی گزرے گا وہ ان سے داخل ہونے کی تاریخ سے پہلے نکلے گا یعنی وہ زمان میں سفر کر کے ماضی میں پہنچ جائے گا اور زمین پر آجائے تو وہ دیکھے گا کہ وہ دو سال جو اس نے سفر میں گزارے وہ زمین کے زمانے کے حساب سے نصف صدی بن گئے۔ اس حیران کن دریافت سے وقت میں ماضی کا سفر خیال نہیں رہا بلکہ ایک علمی حقیقت بن گیا ہے جس کے ماننے والے اور اسے ثابت کرنے والے دونوں موجود ہیں۔

چھوٹا ذرہ ہے جس میں توانائی موجود ہوتی ہے اسے انرجی پیکٹ یا نور یہ بھی کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی اس ٹیم نے فوٹان کی ایٹمی ساخت کا کامیابی سے مطالعہ کیا اور اس ساخت کے بارے میں تمام معلومات ایک میٹر کی دوری تک تار کے ذریعے روانہ کیں۔ اس مقام پر فوٹان کی ایک نقل پیدا ہوئی۔ مگر اصل فوٹان اب باقی نہیں رہا تھا بلکہ اس کی جگہ پر اس کی ہو بہو نقل نے لے لی تھی۔

کیا انسان کو ٹیلی پورٹ کیا جا سکتا ہے…..؟

کو انٹم طبیعیات سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے قوانین و نظریات کا ئنات کی جو ہری ذرات جیسے بہت چھوٹی اور باریک ترین دنیا کے اسرار ورموز کو جاننے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ کوانٹم فزکس کے قوانین ان اسرار رموز کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ انسانوں کو کائنات کے ایک گوشے سے کسی بھی دوسرے گوشے میں روشنی کی رفتار سے منتقل کیا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  فروری 2015

Loading