Daily Roshni News

ٹل دور افتادہ ضلع ہنگو کا ایک قصبہ

ٹل دور افتادہ ضلع ہنگو کا ایک قصبہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وہ کپڑے کا کاروبار کرتا تھا اس نے ٹھل ریلوے اسٹیشن سے کولمبو سری لنکا کا ٹکٹ لیا اور صاف ستھرے چھوٹے سے اسٹیشن کے ایک بینچ پر دراز ہو گیا (یاد رہے کہ ٹل دور افتادہ ضلع ہنگو کا ایک قصبہ ہے۔یہ لنڈی کوتل کے ساتھ ٹھل کی بات ہے) خیر دوپہر ذرا ڈھلکی تو تنگ پٹڑی پر بھاپ اڑاتا ریلوے انجن ننھی منی بوگیاں لیئے آن لگا وہ بھی چمڑے کا بھاری بھر کم تھیلا لیئے کھڑکی کے ساتھ نشست پر براجمان ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ریل کی گداز سیٹی بجی اور چھک چھک کی آواز کے ساتھ ریل چل پڑی۔

سنگلاخ چٹانیں کی اوٹ سے کہیں ایک دم سے منظر بدلتا تو سرسبز وادیاں نظر آتیں دو ایک سرنگیں چیرتی اور کئی ندیوں دریاؤں کو پھلانگتی ریل گاڑی چھک چھک اور کوک کی آواز کے ساتھ راستے سے مسافر اتارتی چڑھاتی بھاگتی رہی۔ یہاں تک کہ شام کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن منظر ایسا تھا کہ وہ اس منظر کا حصہ بنے اس میں کھو سا گیا تھا۔

ابھی مغرب کی آذان نہ ہوئی تھی کہ چھوٹی پٹری پر بھاگتی ریل کا آخری اسٹیشن راولپنڈی آ گیا اس نے بھی اپنا سامان سمیٹا اور لوہے کے ڈاھانچے میں لکڑی سے بنی اپنی بوگی سے باہر آ گیا باہر آ کر اس نے نل سے منہ ہاتھ دھویا اور تھیلا کاندھے پر لٹکائے اسٹیشن سے باہر نکل آیا بھوک اپنے جوبن پر تھی سو سامنے فوجیوں کی بیرکوں کے کنارے کنٹنین سے کڑک چائے اور روٹی سالن کھا کر واپس اسٹیشن آ رہا۔ پنڈی شہر اس کے سامنے آہنی جنگلے کے پیچھے تھا جسے وہ رات کے سائے گہرے ہونے سے کے باوجود سارا ایک ہی نگاہ میں دیکھ سکتا تھا وہ کئی سالوں سے پنڈی کاروبار کر رہا تھا سو اس کو معلوم تھا کہ شہر کے وسط میں بہتی حسین لئی ندی کے کنارے بازار جب شام ڈھلے بند ہو جاتے ہیں تو بلند حویلیوں کی فصیل سے ندی کے پانی میں چاند کا عکس کتنا حسین لگتا ہے۔ وہ ان سوچوں میں ہی گم تھا کہ اس کی مطلوبہ ٹرین شور مچاتی اسٹیشن پر آن کھڑی ہوئی بھاگ کر اس بڑی بوگیوں اور دیوہیکل انجن والی ریل گاڑی پر سوار ہو گیا اب اس کا سفر طویل تھا سو ایک نشست پر تھیلا سر کے نیچے دبائے کچھ ہی دیر بعد وہ سو گیا ریل گاڑی شور مچاتی بھاپ اڑاتی لاہور پہنچی اور انجن کا شور بند ہوا تو مسجدوں کے میناروں پر کھڑے موذن فجر کی اذانیں دے رہے تھے۔

ریل کا انجن بدلا مسافر بدلے لیکن وہ دبکا بیٹھا رہا وہ پہاڑوں کا بیٹا اور سنگلاخ چٹانوں میں پلا تھا تو حیرت اور تجسس سے حد نگاہ تک پھیلے سبز فصلوں کے قالین کو دیکھنے لگا وہ سوتا جاگتا اٹھتا بیٹھتا اور کبھی اسٹیشنوں پر ااترتا امرتسر انبالہ سہارنپور بریلی سے ہوتا بنارس جا پہنچا یہ اس کا دوسرا سفر تھا بنارس سے اسے ریل بدلنا تھی اس کے پاس نقدی اور قیمتی سامان تھا اور رات سامنے لیکن وہاں ایک بابو کو ٹرین ٹکٹ دکھا کر سرکاری آرام گاہ میں اسے بستر مل گیا جہاں حفاظت تو تھی لیکن انجانی جگہ اور رات کو اکا دکا مال گاڑیوں کی آمدورفت سے اس کی انکھ ضرور کھلی۔ صبح وہ جاگا تو نہادھو وہ انتہائی تازہ دم تھا ریل آئی اور وہ بنگال کی جانب عازم سفر تھا ایک اور جنکشن سے ایک اور ریل بدلنے کے بعد اس کا سفر سمندر کے ساتھ ساتھ تھا اور کبھی تو چند کلومیٹر دور اسے سمندر کی لہریں نظر بھی آ جاتیں تو تجسس کا عالم یہ ہوتا کہ وہ باقائدہ کھڑا ہو کر اس کو دیکھنے لگتا۔

یہاں تک کہ وہ سمندر کنارے آخری اسٹیشن نیگاپتم پہنچ گیا۔ یہاں سے اسی ٹکٹ جو اس نے ٹھل ریلوے اسٹیشن سے خریدا تھا میں اسٹیمر میں سوار کرا دیا گیا یہ سفر طویل اور ڈرؤنا تھا لیکن بحرحال اسنے کولمبو کاروبار کرنے کا فیصلہ خود کیا تھا اور وہ اس ایڈوینچر کا مزا لے رہا تھا۔ اسٹیمر پالائی جا لگا جہاں سے پھر وہی ریل وہی ڈبے لیکن منظر یکسر مختلف لنکا میں اسٹیشن بہت کم تھے اور جنگلوں کی بہتات سات آٹھ گھنٹوں بعد وہ کولمبو پہنچ چُکا تھا۔

شاید سننے میں آپکو یہ داستان ناممکن عجیب اور مضحکہ خیز لگے لیکن آج دو ہزار پندرہ کے پاکستان میں ناممکن لگنے والی یہ داستان میں نے عظیم منظر نگار اور ادیب اے حمید کے منہ سے سنی جو ان کے دوست داؤد بنگش کے انیس سو دس یعنی آج سے ایک سو پانچ سال پرانے سفر کی داستان ہے اس کا یہ کل سفر اساڑھے پانچ دن پر محیط تھا اگرچہ طوالت کے خوف سے اس سفر کو ممکن حد تک اختصار سے سنایا لیکن ایک سوال بحرحآل موجود ہے کیا ایک سو پانچ سال قبل ہمارے ملک میں موجود ریلوے نظام کا مقابلہ ہم سو سال بعد بھی کر سکیں گے؟

آج ٹھل کا ریل راستہ بند ہو چکا وہ دیومالائی ایک کمرے کا اسٹیشن پانی بھرنے کی جگہ سب تاریخ میں بھی مرنے والے ہیں یہاں تک کہ کسی اور دنیا کی سواری لگنے والی نیرو گیج بوگیاں اور انجن بھی کباڑ خانوں اور ان کی لکڑی چولہوں میں جل چکی ہے

منقول۔۔

🙂

Loading