Daily Roshni News

ٹیلی پیتھی کے تجربات، نتائج اور مشقوں

ٹیلی پیتھی کے تجربات، نتائج اور مشقوں کو عوام الناس میں بہت ذیادہ پذیرائی حاصل ہے ، یہ سری علوم کی ایسی شاخ ہے جس پر خانقاہوں میں کام کیا جاتا ہے اس لئے اس کی حامل شخصیات اپنے آپ کو نمایاں کرنے یا اس کے حصول کا دعوٰی نہیں کرتیں، جدید سائنس میں انسانی دماغ پر اب تک جتنی تحقیق ہوچکی ہے وہ اس کی صلاحیتوں کا اعشاریہ صفر ایک فیصد بھی نہیں ہے، میڈیکل سائنس کے مطابق دنیا کے ذہین ترین آدمی کے دماغ کے تقریبا 350 سیلز چارج ہوتے ہیں جبکہ دماغ کے اندر بارہ کھرب سیلز ہیں یہ سیلز برقی رو (electricity ) سے چارج ہوتے ہیں یہ برقی رو کہاں سے آتی ہے اور پیدا ہوتی ہے جدید علوم اس پر قیاس آرائیوں کی حد تک واقف ہے، پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ روحانی سائنس کے مطابق اطلاعات بذات خود برقی رو ہیں اور انسان کے اندر زندگی کے تقاضوں کو متحرک کرتی ہیں، اطلاعات کا منبع یا مخزن (source ) کیا ہے جدید سائنس کی اس پر کوئی رسائی یا تحقیق سامنے نہیں آئی، انسان کے اندر اگر اطلاعات انی بند ہوجائیں تو برقی رو بھی بند ہوجائے گی اور موت واقع ہوجاتی ہے، کائنات لہروں کے جال کے اندر بند ہے جو برقی رو یا آطلاعات کو ہر ذی روح یا غیر ذی روح کے منتقل کرتی ہیں، اگر یہ منتقلی بند ہوجائے تو انسان سمیت ہر چیز فنا ہو جائے گی ، اطلاع جب انسان کے دماغ میں داخل ہوتی ہے تو پانچ حواس میں تقسیم ہو جاتی ہے اور حواس ان اطلاعات کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں جن کو تصوف کی زبان میں ” منقسم حواس ” کہتے ہیں
1۔ دیکھتا
2۔ سننا
3۔ چکھنا
4۔ سونگھنا
5۔ محسوس کرنا
یہ پانچ حواس ایک ہی برقی رو یا آطلاعات سے کام کرتے ہیں لیکن ان کا میڈیکل فنکشن الگ الگ ہونا ہے بلکل اسی طرح جس طرح بلب، ٹیوب، فریج، ائرکنڈیشنر، ٹیلیویژن کا میکینکل فنکشن الگ الگ ہونا ہے لیکن سب کے اندر بجلی، کرنٹ یا الیکٹریسٹی (electricity ) ایک ہی ہوتی ہے، انسانی جسم میں آنے والی برقی رو چونکہ جسم کے مختلف حصوں میں تقسیم ہوکر کمزور ہوجاتی ہے جس سے حواس کی رفتار محدود ہوجاتی ہے میڈیکل سائنس انسان کے اندر صفر اعشاریہ سات (0.7) ملی وولٹ( milli voltage ) بجلی کی مقدار بتاتی ہے اگر کسی طرح انسان کے اندر اسکی مقدار بڑھ جائے تو انسان کے نہ صرف حواس کی رفتار بڑھ جاتی ہے بلکہ اس کی جسمانی، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کے اندر بھی بے پناہ آضافہ ہوجاتا ہے ، برقی رو میں اضافہ سے ذہن کائناتی روشنیاں میں داخل ہو کر ان مخلوقات اور اجسام کا مشاہدہ کرتا ہے جو مادی طرزوں میں ممکن نہیں، برقی رو میں اضافے کا روحانیت کے اندر صرف ایک ہی طریقہ ہے جس کو “مراقبہ ” کا نام دیا جاتا ہے مراقبہ کرنے سے جب حواس ایک نقطے پر مرکوز ہوتے ہیں تو برقی کی جسم کے اندر تقسیم کم ہونا شروع ہو جاتی ہے جتنا ذیادہ انہماک و ارتکاز بڑھتا ہے اسی مناسبت سے برقی رو کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ حواس کے اندر برقی رو کی تقسیم کا عمل بند ہوجاتا ہے اور وہ مادی جسم سے ہٹ کر کام کرنے لگتے ہیں جن کو تصوف کی زبان میں “غیر منقسم حواس ” کہتے ہیں ، جسم کے اندر جتنا ذیادہ برقی رو کا ہجوم ہوتا ہے اسکے ٹکراو ( sparking ) سے جسم کے گرد رنگوں کا ہالہ( Aura) بھی وسیع ہونے لگتا ہے
پچھلی پوسٹ میں مراقبے کے تین درجے بیان کیے گئے تھے
1۔ غنود
2۔ ورود
3۔ شہود
جب کوئی انسان مراقبہ کرتا ہے تو تمام حواس ایک ہی رخ پر سفر کرنے لگتے ہیں ظاہر سے منقطع ہونے کے بعد باطن میں داخل ہوجاتے ہیں چونکہ اطلاعات یا برقی رو سب سے پہلے باطن میں ہی داخل ہوکر مظاہراتی دنیا کے خدوخال اپناتی ہے لیکن جیسے ہی توجہ یا حواس مظاہراتی دنیا سے قطع تعلق ہوجاتے ہیں تو دماغ کے حصوں سیری بلم (cerebellum )،
تھالامس(thalamous), فرنٹل لیوبز( fontal lubes) اور برین سٹم (brain stem ) میں صحت افزاء تحریکات شروع ہوجاتی ہیں اور دماغ کے اندر ایسے کیمیکل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کے متعلقہ سیلز کو چارج کرنا شروع کردیتے ہیں خصوصی طور پر ڈوپامائن(dopamine ), سیروٹونین(serotonin ), اوکسیٹو سین(oxytocin ) اور اینڈریو فنائن (endorphininns ) وغیرہ دماغ کی کارکردگی میں اضافہ کرنے لگتے ہیں، دوران مراقبہ غنود اور ورود کی حالت میں نان ریپڈ آئی مومنٹ none rapid eye moments (NREM) اپنے انتہائی درجے میں داخل ہو کر شہود کے مقام میں داخل ہو جاتی ہے اس حالت کو میڈیکل سائنس میں rapid eye moments کہتے ہیں میڈیکل سائنس کے مطابق یہ انتہائی گہری نیند کا وہ درجہ جہاں خواب نظر آتے ہیں اور انسان اپنے مادی جسم سے بلکل آزاد ہوتا ہے لیکن مراقبہ کی مشق میں مہارت کے ساتھ شہود کے درجے میں جاکر نہ صرف مادی جسم کا احساس رہتا بلکہ خواب کی دنیا یا ماورائی اور غیبی دنیا کا مشاہدہ بھی ہوتا رہتا ہے، جب دماغ اس درجے پر پہنچنا ہے تو برقی رو کی رفتار اور طاقت اتنی تیز ہو جاتی جہاں سے کائنات کا نزول ہورہا ہوتا ہے، اس مقام پر برقی رو “نور” کے درجے پر داخل ہوجاتی ہے اور اس سے متحرک ہونے والے “حواس نورانی” حواس کہلاتے ہیں ان حواس سے نہ صرف انسانوں سے بغیر مادی وسائل سے گفتگو ہوتی ہے بلکہ جنات اور فرشتوں سے بھی ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے یہ ٹیلی پیتھی کا سب سے بلند ترین درجہ سمجھا جاتا ہے، نورانی حواس کے اندر مزید گہرائی اور ارتکاز توجہ سے یہ حواس” تجلّی کے حواس ” میں تبدیل ہو جاتے ہیں ان حواس سے کشف و الہام اور قوت القاء کی صلاحیتیں متحرک ہو کر صفات خداوندی سے متعارف کراتی ہیں، مراقبے کے ذریعے ٹیلی پیتھی کی صلاحیت اگلے درجے میں جاکر غیب وشہود کی دنیا میں داخل ہو جاتی ہے جبکہ اس کے علاوہ شمع بینی، دائرہ بینی، شمس بینی، آئینہ بینی اور دیگر مشقیں یا طریقے محدود نتائج پیدا کرتے جس سے ذہنی جسمانی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا علاج تکلیف دہ عمل ہے، روحانیت علوم کی تاریخ گواہ ہے کہ مراقبے کے ذریعے کسی بھی انسان یا سالک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ذہنی جسمانی اور روحانی صلاحیتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے، مراقبہ انبیاء کرام کی سنت ہے اور علوم روحانیت میں اس کے علاوہ کوئی بہتر طریقہ نہیں جو سالک کو اللہ کے قریب کرتا ہو ، نماز، روزہ اور قرآن میں تفکر مراقبہ کی بلند ترین اقسام ہیں

Loading