پارس
تحریر۔۔۔آفرین ارجمند
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ پارس۔۔۔ تحریر۔۔۔آفرین ارجمند)ہیں اور وہ پتا نہیں یہ بات سمجھے کہ نہیں“۔ سکینہ اس کا مطلب سمجھ گئی تھی۔
توہی تو کہتی ہر کام رب کی جانب سے ہوتا ہے۔ شاید رب نے اسے تیرے لئے منتخب کیا ہے ۔ ہو سکتا ہے وہ تیرا شوہر ہونے کے ساتھ ایک اچھا دوست بھی ثابت ہو …. جیسے ؟”
جیسے تیرے بابا۔ میرے اچھے دوست بھی ہیں“۔ سکینہ مان سے بولی پارس مسکرادی
پھر میں چاول بنادیتی ہوں “۔ وہ خاموشی سے اٹھ گئی۔
تو خوش ہے ناں“۔ سکینہ نے ایک بار پھرتصدیق چاہی
میں آپ کی خوشی میں خوش ہوں اماں ۔ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو ایسا ہی صحیح“۔
سکینہ کو بس اور کیا سننا تھا۔ وہ اب سکون سے روٹیاں بنانے میں جت گئی تھی کہ خاطر داری میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
”ہائے اللہ پارس تودو….. کتنے دنوں بعد مجھے دیکھا۔ یوں اچانک پارس کو سامنے دیکھ کر سدرہ بڑے جوش سے اپنے ہاتھ دونوں گالوں پر رکھ کر چینی تھی۔
اسلام علیکم ، پارس نے دھیرے سے کہا۔ جب دوست سے ملو تو پہلے اس پر سلامتی بھیجنا، رب کو بہت پسند ہے ” ۔ پارس نرمی سے کہتے ، مسکراتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی۔
کیسی ہے تو “ ۔ سدرہ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔
” شکر اللہ کا۔ اور تو کیسی ہے ؟“
” میں بہت اچھی ہوں بہت خوش“۔ سدرہ لیک کر بولی۔ اس کے چہرے پر اپنی آنے والی زندگی کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔ وہ بات بات پر چپک رہی تھی۔ ذراذراسی بات پر خوب قہقہہ لگا رہی تھی۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے ایک دھما چوکڑی مچارکھی تھی گھر میں۔
سدرہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر ایک کمرے میں لے گئی۔ جو صاعقہ سدرہ اور اس کی دو چھوٹی بہنوں کا مشتر کہ کمرہ تھا۔
”پتا ہے تایا کا اپنا گھر ، اپنی زمین ہے ۔ اور بارہ بھینسیں ہیں ۔ وہ انگلیوں پر گن کر بتانے لگی۔ اچھا شہر تجھے ایک اور چیز دکھاتی ہوں“۔ وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے کے کونے میں رکھے صندوق پر ڈھکے کپڑے کو ہٹانے لگی۔ اور اس میں ایک تھیلا باہر نکالا۔
یہ دیکھا۔ اس نے یہ کہتے ہوئے گوٹے چیپے سے بھر الال دوپٹہ ہوا میں لہرا دیا۔ اس طرح کہ پارس کا چہرہ اس میں چھپ گیا۔
کیا کر رہی ہے“۔ اس نے دوپٹے میں سے چہرہ
” کیسا ہے۔ وہ جھک کر بولی ” بہت خوبصورت ہے “۔
نکاح کا جوڑا ہے۔ میں نے خود بنایا ہے۔ اور یہ دیکھ “۔ اس نے کلائی آگے کر دی
“تائی نے پہنایا ہے “۔ یہ کہتے اس کا چہرہ لال ہو گیا۔ پارس نے نظر بھر دیکھا وہ سونے کا کڑا زیادہ بھاری نہ تھا۔ مگر جس رب نے ان کی سفید پوشی کا بھرم اب تک رکھا تھا۔ اس کی عطا کسی خزانے سے کم نہیں تھی۔ یہ بیچ تھا کہ انھوں نے بڑے سخت دن دیکھے تھے اور اب اچانک سے یوں رب کی مہربانیاں وہ پھولے نہیں سمارہی تھی۔
بہت خوبصورت ہے “۔ پارس اس کی ہر چیز کی تعریف کرتی رہی اور سدرہ اسے ایک ایک چیز کھول کھول کر دکھاتی رہی۔
تو مجھ سے ناراض تو نہیں ہے ناں پارس”۔
سدرہ اچانک سے اس سے لپٹ گئی۔
“ارے تجھے کیا ہوا اچانک “۔ پارس انجان بنتے ہوئے بولی:
یہی کہ اماں کی سختی کے باعث میں نے تجھ سے ملنا جلنا بالکل چھوڑ دیا تھا اور اب اتنے برسوں بعد بھی اپنی زندگی کی اتنی اہم خوشی تجھے نہیں بتائی تھی۔ ” ارے نہیں لگی۔ اپنوں سے کوئی ناراض ہوتا ہے بھلا۔ ہاں مجھے دکھ ضرور تھا۔ پر…. پارس تھوڑی سی اداس ہو گئی خیر چھوڑ جیسے تو خوش ویسے میں ۔اب یہ لکھ میں تیرے لئے کیا لائی ہوں“۔ پارس نے اس کے لئے تیار کردہ جوڑا اس کےسامنے کر دیا۔سرخ رنگ دو پٹا ننھے ننھے ستاروں کی جھلمل سےچمک رہا تھا۔ہائے …. یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے ۔ یہ تو اس سے بھی زیادہ ….” سدرہ نے اپنے بنائے جوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تجھے اچھا لگا؟….”” اچھا…. “سید رہنے منہ پھاڑامیں نے تو سوچ لیا۔ نکاح میں یہی پہنوں گی۔ پکا … اس نے جیسے فیصلہ کر لیا۔لیکن تو نے بھی جوڑا بنایا ہے“۔ پارس نے کہا ”ہاں تو کیا ہوا۔ یہ تو نے بتایا ہے ۔ ایک ہی بات ہے ۔ سدرہ دوپٹہ سر پر اوڑھ کر اسے دکھانے لگی ۔ وہ پھر سے اس کے ساتھ باتوں میں مگن ہو گئی۔
باتوں کے دوران اسے ایک عجیب کی بے چینی محسوس ہو رہی تھی ۔ اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ پارس کی نظر غیر ارادی طور پر کھٹر کی کی جانب اٹھ گئی۔ جہاں کوئی بڑی پر شوق نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ ”ہائے، بھائی جی “۔ یکا یک سدرہ کی نظر بھی اس پر پڑ گئی۔ رجب علی کو تو جیسے موقع مل گیا۔ وہ اندر ہی چلا آیا۔سدرہ نے جلدی سے اپنا لال جوڑا بکھرے کپڑوں کے اندر کر لیا۔ بھائی کے سامنے اسے شرم محسوس ہو رہی تھی۔ سلام کرتے ہیں سدرہ ۔ پارس نے پھر ٹوکا۔ السلام علیکم “۔ پارس نے سلام کیا۔سدرہ تجھے کچھ چاہیئے تو نہیں “۔ رجب علی سیدھا سدرہ سے مخاطب تھا جیسے پارس کو دیکھا ہی نہیں۔ وہ خاموشی سے ہاتھ میں لئے دوپٹے کی بیل پرہاتھ پھیرتی رہی۔نہیں بھائی جی۔ ابھی تو کچھ نہیں چاہیئے“۔ ابکے سدرہ کے چہرے میں شرارت تھی شاید اسے بھی کچھ کچھ سمجھ آرہا تھا۔ٹھیک ہے میں باہر ہوں کچھ چاہیے ہو تو بتانا“۔ لے ، اب اس کچھ کا بھی کوئی نام تو ہو گا ۔ اسنے دل میں سوچا مگر کہہ نہ پائی۔ بڑا بھائی تھا آخر۔ سعادت مندی سے بس جی کہہ کر سر ہلا دیا۔۔۔سدرہ ۔۔۔سدرہ۔۔۔!
صاعقہ اور سکینہ کو کمرے کی جانب آتے دیکھ کر رجب علی تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔پارس نے محسوس کیا کہ رجب علی جاتے ہوئے بھی اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اور سدرہ دبی دبیمسکراہٹ کے ساتھ پھر سے اپنا جوڑا نکال کر بیٹھگئی تھی۔܀܀܀جب سے پارس سدرہ سے مل کر آئی تھی اسے کچھ گھبراہٹ سی ہو رہی تھی ۔ رجب علی کی تانک جھانک ، سدرہ کی دبی دبی مسکراہٹ ، اسے رجب علی کے بارے میں سوچنا بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ نگر اماں کو تو ہاں کہہ ہی دی تھی تو پھر اتنی الجھن کیوں تھی۔ اسے خود پر غصہ آنے لگا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجست جنوری 2016