پاکستانی سیاست کے عجیب رنگ
تحریر۔۔۔سید علی جیلانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پاکستانی سیاست کے عجیب رنگ۔۔۔ تحریر۔۔۔سید علی جیلانی)چودہ اگست 1947ء کو جو تاریخ کی ایک روشن اور تابناک صبح تھی جب ہم انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر قائد اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں آزادی کی نعمت سے بہرہ ورہو ئے تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا پاکستان ماہ رمضان کی عظیم ساعتوں میں معرض وجود میں آیا۔ ظہور پاکستان محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق کائنات کی عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کی داغ بیل پڑی۔ تحریک پاکستان ایک نظریاتی اور ملی تحریک تھی جس کا مقصد ہندی، فرنگی تمدنی تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا مگرآج اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھتے ہوئے شرم آتی ہے اور جمہوریت ایک لطیفہ سا لگتا ہے ایک مخصوص طبقہ جو اس ریاست کے وجود میں آنے سے آج تک صاحب اقتدار ہے عوام میں اشرافیہ کہلانے والا یہ طبقہ اسلامی علوم سے اتنا ہی دور ہے جتنی عیش و عشرت کی زندگی غریب کی پہنچ سے دور اور جمہوریت ان کے نزدیک بلا شرکت غیر انہیں کا اقتدار میں رہنا ہی ہے چند مخصوص خاندان جن میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی اور اب وہ اسے اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہیں کُرسی اور اقتدار کا نشہ بھی بڑا عجیب ہے، اس نشے سے زیادہ طاقتور شاید ہی کوئی نشہ ہو۔ اس نشے میں بھائی نے بھائی کو قتل کیا،بیٹے نے باپ سے بغاوت کی، میر جعفر نے غداری کی،اس دوڑ میں دکن کا صادق کیسے پیچھے رہتا، غرض تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات اور حادثات سے۔اس نشے کی خاطر بھٹو جیسا لیڈر اپنے نشے میں جنرل ضیا کے نشہ کی بھینٹ چڑھ گیا بینظیر بھٹو پتہ نہیں کس کے نشہ کا شکار ہوئی؟ آج تک معلوم نہ ہوا، کوئی اپنا تھا یا غیر تھا؟ نواز شریف نے اقتدار کے نشہ میں پرویز مشرف کو شکار کرنے کی کوشش کی اور خود اپنے نشے کا شکار ہو گیا اور آخرمیں عمران خان بھی شکار ہوگیا اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کہ اقتدار پہ یا کُرسی پر رہتے ہوئے لوگوں کی شکل پر عجیب سا نکھار ہوتا ہے، گالوں کی سُرخیاں اور چال ڈھال بتا رہی ہوتی ہے کہ صاحب آج کل اقتدار میں ہیں یا بہت اچھی پوسٹنگ ہے ان کے پاس۔ان کے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں، کئی کئی گن مین جیسے سب سے زیادہ خطرہ ان کی ذات کو ہے۔اور جب یہی لوگ اقتدار میں نہیں ہوتے تو ان کی شکل پر عجیب سی اداسی چھائی ہوئی ہوتی ہے، یتیمی برس رہی ہوتی ہے اکثر سیاستدانوں کو یہ بھی کہتے سُنا کہ عوام کی خدمت کا جذبہ لے کہ سیاست میں آئے ہیں مگر وہ جذبہ اور خدمت کیا ہوتی ہے، سب کو معلوم ہے۔وزارت سے لیکر اہم عہدوں کا لالچ اور اقتدار کی ہوس کی دوڑ چل رہی ہوتی ہے اور جب اپنی مرضی کی کرُسی اور اقتدار مل جائے تو پھر جو اطمینان،اکڑ اور چہرہ پہ لالی نظر آتی ہے تو اس کی خاطر تو جان بھی دی جا سکتی ہے پاکستان میں سیاست نہ تو خدمت ہے نہ عبادت صرف ہوسِ اقتدار ہے جس میں اختیارات اور دولت تو ہے مگر عزت نام کی کوئی چیز نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پچھتر سال میں کہیں بھی استحکام نظر نہیں آتا کبھی صدارتی نظام کبھی نامزد وزیر اعظم یا منتخب وزیر اعظم اور کبھی جمہوریت کبھی ریفرنڈم کے زریعے اقتدار کی رسہ کشی جاری و ساری ہے سیاستداں کا فطری مزاج جعلی سازی، دھوکہ بازی، خود غرضی رہا ہے انہیں سب سے زیادہ مقدم اپنی ذات لگتی ہے یہ اپنی ذات کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں دولت کی طلب کیلئے انھوں نے ہر منفی راستہ اپنایا،کبھی بھی انصاف کیساتھ نہ ٹیکس ادا کیا، نہ سیاست کی، نہ عوامی خدمات سر انجام دیں بلکہ اپنے ہی جیسے لوگوں کو ملا کر لوٹ مار میں حصہ داری کرکے ملکی خذانے کو خالی کردیا سرکاری و غیر سرکاری تمام اراضی پر قبضہ کرنا، فیکٹریوں اور انڈسٹریوں پر بدماشی دھونس دھمکی سے اونے پونے خدیدنا، تقرریوں تبادلوں میں کھوبوں روپے کمانا ان کی آن و شان کا حصہ رہی ہے آج تک زمیندار کو ٹیکس سے مبرا کیوں رکھا گیا، کیوں زمیندار کو عیش و عشرت اور ریاست میں اپنے ریاست قائم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا، کیوں نجی جیلیں قائم ہیں، ان پر قانون کی شقیں کیوں نہیں عائد ہوتیں ہمارے ملک کے اکثر ممبران اسمبلی کو سورہ اخلاص بھی نہیں آتی، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتا، ہمارے ملک کا وزیر اعظم صادق اور امین نہیں ہے، اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں کا ورد کرنے والا گانوں پر ناچتا ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مثالیں دینے والے کے صوبے میں لڑکی کو ننگا کر کے گھمایا گیا لیکن وہ ایک لفظ بھی نہیں بولا، پارلیمنٹ میں شراب کی بوتلیں برآمد ہوئی تھیں ، ممبران اسمبلی اکثر ہیرا منڈی جاتے نظر آتے ہیں ، دیہی علاقوں میں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں، تھر میں بچے بھوک سے مرتے ہیں آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن و میرٹ پر تعیناتی نہ ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں روزانہ کی کرپشن 12 ارب روپے ہے ،کرپشن وہ ناسور ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا اور اداروں کو تباہ کردیتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج سٹیل ملز ،پی آئی اے ، پاکستان ریلوے خسارے میں چل رہے ہیں اور اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔پاکستان میں احتساب کا عمل مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے اور یہاں کسی بھی بڑی شخصیت کا احتساب ناممکن نظر آتا ہے مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع ہوتی ہے یہ ایک بہت بڑا سچ ہے ،اگر ہم کسی بھی ملک ،کسی بھی معاشرے اور کسی بھی ادارے کی تباہ حالی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جہاں کہیں بھی نااہل لوگوں کو تعینات کیا گیا وہ ملک ،وہ معاشرہ ،وہ ادارہ اور وہ تنظیم تباہ ہوجاتے ہیںکیونکہ جب ملک کا سربراہ ،ادارے کا سربراہ خود کرپٹ ہوگا تو وہ کبھی اپنے ملک اپنے ادارے میں گڈ گورننس قائم نہیں کرسکتا پاکستانی سیاست میں گذشتہ کچھ عرصے سے پروان چڑھنے والا غیر شائستہ اور غیر مہذب ”وڈیو لیکس کلچر”سیاسی و صحافتی حلقوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔انسانی تہذیب و اخلاق ہی کسی معاشرے کی پہچان ہوا کرتا ہے ۔انسان کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری تعلیم و تربیت کے عکاس ہوا کرتے ہیں اسلام نے تو دوسروں کا پردہ رکھنے کا حکم دیا ہے جبکہ ہم تو معاشرے کا ہر ننگ دنیا کو دکھا کر پاکستان اور پاکستانی عوام کے وقار کو مجروح کرنے کے درپے ہیں دراصل عرصہ سے یہ سبھی مقتدر سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ ٹھگوں، لٹیروں، کرپشن کنگز کی راجدھانیاں ہیں ۔ سیاسی میدان ان کے ملکیتی وراثتی کلب ٹھہرے جن میں داخلہ صرف چمک اور بھاری چندے کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے سبھی بڑی مقتدر پارٹیوں پر ان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ سبھی اسمبلیوں کے امیدوار اورپارٹی عہدے دار اسی طبقہ کے ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاست میں عدم برداشت کا کلچر انتہائی سطح کو چھو رہا ہے ۔ سیاسی عدم برداشت کا بڑھتا ہوا یہ رجحان انتہائی افسوس ناک ہے۔ سیاست میں اچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے لیکن پھر بھی اس میں چند اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ آج کل سیاسی اختلافات اب ذاتی اختلافات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک چلے جانے کی سیاست پہلے کبھی نہ تھی سیاسی رہنما عوام کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عام آدمی اپنے انہی رہنمائوں کی پیروی کرتا ہے اور یہی رہنما اپنے ووٹرز اور سیاسی کارکنان کی تربیت کیلئے ”درسگاہ” کا کردار ادا کرتے ہیں۔ایسے حالات میں جب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے ہوئے مغلظات سے نوازیں گے تو ان کی پیروی کرنے والے کیونکر ان سے پیچھے رہیں؟ ۔اچھے جمہوری معاشروں میں سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں جس سے ان کی پیروی کرنے والے سیاسی کارکنوں کی تربیت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔ اگر اس منفی روئیے کا فوری سدباب نہ کیا گیا اور سیاسی مخالفت میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی تو معاملہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ جائے گا جہاں اس پر قابو پانا مشکل ہو جائےگا آج کے حالات کے پیش نظر ہرسیاستدان ہر ادارہ کے سربراہ کواپنی انا اورنفرت ختم کرنا ہوگی اورپیارے وطن کےبارے میں سوچنا ہوگا