پاکستانی فلموں کے سپر اسٹار لالہ سدھیر 19 جنوری 1997 کو انتقال کر گئے تھے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پاکستانی فلموں کے سپر اسٹار لالہ سدھیر 19 جنوری 1997 کو انتقال کر گئے تھے۔انکی 28 ویں برسی 19,جنوری کو منائی گئی۔ھمیں دیر سے یاد آنے کے باعث ھم یہ آرٹیکل ایک دن لیٹ تحریر کر رھے ھیں۔
سدھیر پاکستان کے پہلے خالص پاکستانی ھیرو تھے۔ورنہ پاکستان کی پہلی فلم ” ،تیری یاد” کے ھیرو ناصر خان جو دلیپ کمار کے بھائی تھے۔ان کا تعلق بھارت سے تھا،واضح ھو کی “ھچکولے” پاکستان کی تیسری فلم تھی جس کے ھیرو سدھیر تھے۔قبل ازیں پاکستان کی دوسری فلم شاھدہ” کے ھیرو بھی بھارتی اداکار ناصر خان ھی تھے۔دونوں ھی فلموں کی ناکامی کے بعد ناصر خان واپس بھارت چلے گئے تھے۔جبکہ پاکستان کے پہلے سپراسٹار سنتوش کمار نے پاکستان کی 9 ویں فلم “بیلی” سے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔قبل ازیں سنتوش کمار” آھنسا” اور سدھیر فرض نامی ھندوستانی فلموں سے ھندوستان میں کیرئیر کا آغاز کرچکے تھے۔”
ھچکولے” کے بعد سدھیر نے لگ بھگ تین سال انتظار کیا تب انہیں “دوپٹہ” جیسی کامیاب فلم میں ڈاکٹر کا مختصر کردار ملا تھا۔اس کے بعد سدھیر 1953 میں” تڑپ” میں اداکارہ شمی کے ھمراہ بطور ھیرو نمودار ھوئے،جو بعد میں سدھیر کی زوجیت میں آگئی۔1954 کی “گمنام” سے سدھیر کو بریک تھرو ملا،اور اسی سال سدھیر کی خالص لوک کہانی پر مبنی فلم”سسٌی ” نے پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کر کے سدھیر کو پاکستان کا پہلا گولڈن جوبلی ھیرو ھونے کا اعزاز بخشا۔جس میں سسی کا ٹائٹل رول فرسٹ لیڈی آف دی اسکرین صبیحہ خانم نے بہت عمدگی سے ادا کیا تھا۔لہزا ابتدا ھی سے سدھیر کی صبیحہ خانم کے ساتھ کامیاب جوڑی بنی۔اس جوڑی کی سسی، طوفان،دل
بھٹی ،چھوٹی بیگم،داتا اورحاتم وغیرہ بے حد کامیاب رھیں۔سدھیر کی پہلی پنجابی فلم “بلبل” تھی جبکہ دلا بھٹی انکی سپرھٹ پنجابی فلم تھی۔اکمل مرحوم کی وفات کے بعد سدھیر کو زیادہ تر ہنجابی فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔جس کے باعث انکی شہرت پنجابی فلموں کے حوالے سے زیادہ رھی۔۔جبکہ وہ بیشتر اردو فلموں میں بہترین کارکردگی کا مظاھرہ کر چکے تھے۔
سدھیرکی پہلی گولڈن جوبلی فلم سسی کئی اعتبار سے پاکستان کی ایک یادگار فلم تھی۔جس نے پاکستانی فلموں کے مستقبل کی راہ ھموار کر کے حالات کا رخ بدل دیا تھا۔مثلاً اس زمانے میں فلم 50 تا 60 ھزار روپے میں بن جاتی تھی۔مگر سسی پر تین لاکھ کی لاگت آئی تھی۔اس کی آؤٹ ڈور فلمبندی سوات کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں کی گئی تھی۔جہاں شام ڈھلتے ھی خونخوار ریچھوں کا قبضہ ھوجاتا تھا۔لاھور کے نزدیک ایک جگہ مصنوعی جھیل بنا کر وھاں دھوبی گھاٹ کا سیٹ لگایا گیا تھا۔اُس زمانے میں وہ علاقہ سنسان بیابان تھا۔اس علاقے میں ڈاکوؤں کا راج تھا۔جب سسی کی شوٹنگ کیلئے پولیس سے تحفظ مانگا گیا تو انکار کردیا گیا اور کہا گیا کہ آئی جی سے اجازت نامہ لینا ھو گا۔مگر ایم اے خان نے پولیس کے بجائے علاقے کے تین بدنام ڈاکوؤں سے رابطہ کرکے کہا کہ ھماری شوٹنگ آٹھ دن چلے گی آپ ھماری حفاظت کا ٹھیکہ لے لیں،یعٰنی چور کو چوکیدار بنادیا۔ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے۔اور پھر بغیر کسی معاوضے کے فرض ادا کرنے پر راضی ھو گئے۔انہوں نے کہا آپ بےفکر ھوجائیں ھمارے ھوتے کوئی فلم یونٹ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔اور پھر ڈاکوؤں نےکئی بار ضرورت کی چیزیں بھی مہیا کیں۔اور کہا کہ آپ لوگ ھمارے مہمان ھیں ،آپ لوگوں نے ھم پر بھروسہ کیا ھے۔لہزاآپ کیلئے ھماری جان بھی حاضر ھے۔
فلم باغی جو چین میں بھی ریلیز ھوئی تھی کی ریلیز کے بعد سدھیر کو جنگجو ھیرو کا خطاب ملا۔سدھیر نے اپنی ذاتی فلم بغاوت میں اکمل جیسے ھیرو کو اپنے مقابل ولن بناکر پیش کیا۔فلم ایکشن ھیرو ھونے کے باوجود سدھیر نے پنجابی فلم “لاٹری ” ایک بھولے بھالے دیہاتی کے کردار میں شاندار کارکردگی کا مظاھرہ کر کے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔سدھیر کے فنی کیرئیر کی سب سے بڑی فلم ” ان داتا” تھی جسے ایکشن فلموں جی سرتاج فلم کہا جاتا ھے اتفاق سے اسی فلم انکی سپرپرفارمینس کے باوجود انہیں ایوارڈ سے محروم رکھا گیا۔سدھیر فلموں انگریز کے خلاف حقیقی نفرت کا اظہار کیا کرتے تھے۔کیونکہ انگریز سرکار نے ان کے والد کو پھانسی چڑھا دیا تھا۔اس حوالے سے فرنگی جیسی فلموں کی مثال سامنے ھے۔