Daily Roshni News

پاکستان میں ایسے کئی حادثات ہوتے ہیں جہاں اگر گاڑی والا بندہ مضروب کو ہسپتال لے جانے کی کوشش کرے تو کئی افراد کی جان بچائی جاسکتی ہے

پاکستان میں ایسے کئی حادثات ہوتے ہیں جہاں اگر گاڑی والا بندہ مضروب کو ہسپتال لے جانے کی کوشش کرے تو کئی افراد کی جان بچائی جاسکتی ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سردیاں ،برف باری ،بارش ، دُھند اور تیز ہوا مُجھے جُنون کی حد تک پسند ہے ، کئی سالوں سے انگلینڈ میں یہ سب دیکھنے کے باوُجود بھی کبھی اِن کی طلب میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ ایسے ہی سردیوں کے دِن تھے جب میں پاکستان میں تھا ، موسلادھار بارشوں کا سلسلہ ایسا شروع ہُوا جو رُکنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ بس پھر ایک دِن سوچا کہ “ ساون بھادوں “ جیسا موسم ہورہا ہے اور دل بھی کچھ بے اختیار سا ہے کیوں نہ موسم سے لطف اندوز ہوا جائے ، سوچا کہ کزنز کے پاس گُوجرانوالہ جاتا ہُوں ، پروگرام تو یہ تھا کہ اکیلا ہی نِکلوں گا یوں کہ رات کا وقت ہو ، بارش ہو رہی ہو ، تیز ہوا بھی ہو ، اچھا سا ہلکا پھلکا سا میوزک ہو اور بس میں ہُوں  اور میری تنہائی کا ساتھ ہو۔ لیکن دل کے اِن سب ارمانوں کا خُون اِس وقت ہوا جب بیگم صاحبہ نے بھی ہمارے ساتھ سفر پر چلنے کا اظہار کیا،مظلوم شوہر ہونے کے ناطے مرتا پر کیا نہ کرتا، بیگم کو بھی ساتھ لے ہی لیا۔ رات کو دس بجے ہم لوگ اپنے گھر سے نکلے، ہلکی ہلکی پھُوار  ہورہی تھی جبکہ ہوا کافی تیز چل رہی تھی، پنڈی سے براستہ جی ٹی روڈ باہر نکلتے نکلتے بارش اپنا زور پکڑ چکی تھی ، سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے مترادف تھی اِس لئے ایک سو بیس تیس کی سپیڈ سے گاڑی چلائی جارہا تھا ۔ کھاریاں سے ذرا پہلے سڑک کے اطراف میں چند چھوٹی بستیاں آتی ہیں اُن کے قریب سے گُزرتے ہُوئے اچانک نجانے کہاں سے گہرے رنگ کا لِباس پہنے ایک شخص ہماری گاڑی کے سامنے آگیا، گاڑی پُوری سپیڈ سے جو اُس وقت ایک سو بیس کے آس پاس تھی اُس شخص سے جا ٹکرائی اور وُہ شخص اُڑتا ہُوا سڑک سے کئی گز آگے بائیں جانب جا گِرا ۔

میرے تو ہاتھوں سے طوطے اُڑ گئے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے؟ بیگم دفعتاً چِلا اٹھیں گاڑی روکو اور اِس کو قریبی کِسی ہسپتال لیکر چلو جبکہ میں سمجھی نہ سمجھی کی حالت میں خود  سے پوچھے جارہا تھا کہ بندے میں اب بچا کیا ہوگا؟

خیر گاڑی جلدی جلدی سائیڈ پر لگائی اور اُس بندے کی جانب لپکا ، اُس کے سر اور جِسم پر کافی چوٹیں آئی تھیں اور بہت خُون بہہ رہا تھا ، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وُہ بالکل ہوش میں تھا اور پریشانی کا کوئی تاثر اسکے چہرے پر رونما نہیں ہو رہا تھا ، میں نے معذرت خواہانہ و پشیمانہ انداز میں اُس کو سہارا دیکر گاڑی کی طرف لے جانے کی کوشش کی تو مزید حیرت کا جھٹکا لگا جب وُہ بندہ بغیر سہارے کے اُٹھ کھڑا ہُوا اور میرے ساتھ چلنے لگا ، میں نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور اُس کو اندر لیٹ جانے کو کہا ، وُہ گاڑی کی پِچھلی سیٹ پر لیٹ گیا اور مُجھے کہنا لگا کہ ہسپتال بالکل سڑک کے پاس ہی ہے کُوئی آدھے کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر آپ مُجھے وہاں لے چلیں ، میں نے اُس کی نشاندہی پر گاڑی آگے بڑھائی ، جلد ہی ہم ہسپتال پُہنچ گئے ، میں نے گاڑی سے باہر نکلنے سے پہلے اُس کی خیریت دریافت کی تو وُہ عجیب سے انداز سے مُسکرا کر اپنے ساتھ ساتھ ہماری بھی خیریت بخیر بتائی میں اسکے عجیب سے جواب پر کچھ الجھ سا گیا کہ ہماری خیریت کو کیا ہُوا ہے بھلا ؟ اور بیگم کو گاڑی سے باہر نکلنے کا اشارہ کرتا ہوا ہسپتال کی طرف بڑھ گیا ، اِتنے میں ایک نوجوان جو غالباً ہسپتال کے سٹاف سے تھا مجھے اور بیگم کو پریشان دیکھ کر ہمارے پاس آیا اور مدعا دریافت کیا میں نے مختصراً تمام قصہ اسکے گوش گزار فرما دیا وُہ نوجوان بھاگ کر اندر سے سٹریچر لایا اور جلدی جلدی میرے ساتھ گاڑی کے قریب پُہنچا وہاں ایک اور حیرت میرا انتظار کررہی تھی ، گاڑی میں نہ تو کوئی زخمی تھا نہ ہی سیٹ اور گاڑی کے فرش پر کُوئی خُون کا نشان ،میں نے بھاگ کر گاڑی کا فرنٹ بمپر دیکھا تو وہاں بھی کُوئی نشان نہیں تھا۔ مُجھے اپنی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا ، ایسی ہی الجھی ہوئی حالت بیگم  کی بھی تھی ۔

ہسپتال سٹاف کا نوجوان اب ہمیں ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ بھائی اب اگر آپ لوگ ہسپتال آہی گئے ہو تو اپنا ذہنی مُعائنہ ہی کروالو۔

خیر میں اور بیگم دونوں حیرت سے ایک دُوسرے کو دیکھتے ہُوئے گاڑی میں بیٹھ گئے اور واپس اپنا رختِ سفر باندھا ، ہم دونوں میں کوئی بھی بات کرنے کی تمام ہمتیں دم توڑ گئیں تھیں، ایک ان دیکھا سا خوف ہمارے  دِلوں میں گھر کرگیا تھا ، اگلے دِن میں دوبارہ واپس اُسی جگہ پر آیا جہاں وُہ حادثہ ہُوا تھا ، وہاں آس پڑوس کی بستیوں سے بندے کا حُلیہ بتاکر ایسے کِسی بندے کے بارے میں پتہ کیا ۔ کافی کوشش کے بعد ایک بندے نے بتایا کہ وُہ مرنے والا بندہ اُس کا چھوٹا بھائی زاہد تھا ۔ میرے سامنے سے حیرت کے کئی سائے گُزر گئے ‘بندہ کب مرا ؟’ میں خود سے ہی بڑبڑانے لگا وہ تو زخمی ہوا تھا اور جب ہم ہسپتال پہنچے وُہ تو وہاں سے کہیں چلا گیا تھا ۔ یہ سب کیا بکواس ہے ، کُوئی ڈرامہ ہے ، مذاق ہے کیا ہے ؟ میں عجیب سے کشمکش کا شکار ہو گیا تھا

تو اتنے میں وہ شخص جو خود کو اسکا بھائی کہہ رہا تھا  کہنے لگا کہ “نہیں جناب آپ پریشان نہ ہوں, میرا بھائی چند سال پہلے ایسی ہی ایک طوفانی رات میں اپنی بیوی کو لیکر ہسپتال جا رہا تھا موسم کی خرابی کی بناء پر سڑک بند ہوگئی تھی دوسری جانب سے سڑک پار کرتے ہوئے ایک زور دار کار میرے بھائی کو ٹکر مارتی ہوئی گزر گئی کتنے ہی گھنٹے وُہ زخمی حالت میں سڑک پر خون میں لت پت پڑا رہا ۔کوئی بھی اُن کی مدد کو نہ آیا جیسے تیسے میرا رابطہ ہوا اور میں ان کو لیکر ہسپتال پہنچا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے مُجھے بتایا کہ خون بہت بہہ چکا تھا اگر وُہ گاڑی والا آپ کے بھائی کووقت پر ہسپتال لے آتا تو عین مُمکن تھا کہ اُس کی جان بچ جاتی ۔

وُہ دِن اور آج کا دِن جب بھی ایسا موسم ہوتا ہے میرا بھائی کئی لوگوں کی گاڑیوں سے ٹکراتا چلا آرہا ہے اور بعد میں ہمیں معلُوم پڑا کہ وُہ سب کِسی نہ کِسی حادثے میں اپنی جان کھو بیٹھے ۔ آپ نے گاڑی روکی اُس کو ہسپتال لیکر گئے اب شاید اُس کی رُوح کو سُکون آجائے اور وُہ مزید کِسی کی گاڑی سے نہ ٹکرائے ۔

ایک درد اور خوف کی لہر میرے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ میرے دماغ میں اُس زخمی شخص کے عجیب سے الفاظ گردش کرنے لگے اور میں اب سمجھ پایا اس نے ایسے کیوں کہا تھا کہ “ میرے ساتھ ساتھ آپ بھی خیریت سے ہیں۔”

 میں واپس آگیا ، کئی ماہ یہ سارا واقعہ میرے حواس پر طاری رہا۔ لیکن اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس کے بھائی کا خیال دُرست نِکلا اور وُہ مزید کِسی گاڑی کے سامنے نہیں آیا کیونکہ میں اس واقعے کے ایک سال بعد دوبارہ اُس کے بھائی سے مِلنے گیا تھا ۔

پاکستان میں ایسے کئی حادثات ہوتے ہیں جہاں اگر گاڑی والا بندہ مضروب کو ہسپتال لے جانے کی کوشش کرے تو کئی افراد کی جان بچائی جاسکتی ہے ، لیکن اکثر افراد مدد کرنے کی بجائے بھاگ نکلنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں جو کہ انتہائی گھٹیا حرکت اور سنگین جُرم ہے ۔

نوٹ : تحریر کا مرکزی خیال بُہت سال پہلے پڑھی گئی سسپنس ڈائجسٹ میں چھپنے والی ایک کہانی سے ماخُوذ ہے ؛ اصل مقصد قارئین تک پیغام پہنچانا ہے ۔

Loading