پراسرار بندے!
ایڈگر کیسی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ایڈگر کیسی)مغرب میں جس وقت مادی نظریات کی تشکیل ہو رہی تھی اسی دور میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود تھے جن میں کئی باطنی صلاحیتیں متحرک تھیں۔ یہاں ہم بیسویں صدی کے ابتدائی دور کی ایک امریکی شخصیت ایڈ کر کیسی کا تذکرہ پیش کر رہے ہیں۔ لوگ اس کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے ایڈ گر خواب میں جاکر ان مسائل کا حل معلوم کر لیتا تھا۔ جس مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر ناکام رہ جاتے …. وہ نہ صرف یہ کہ خواب کے ذریعے ان مریضوں کا مرض دریافت کر لیتا، بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی بتا دیتا تھا …. ایڈ کر کیسی جو بہت سی ماورائی صلاحیتوں کا حامل تھا اس نے کئی مادی نظریات پر تنقید بھی کی اور کئی غیر مادی حقائق کو پیش کیا۔ ایڈ کرنے روحانی علاج کے ساتھ ساتھ ، ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ خوابوں کے اثرات ، رنگ و روشنی سے علاج، انسان کے لطیف باطنی وجود اور اہ پر بھی سائنس دانوں کی توجہ مبتذل کرائی …. مغرب سے درآمد شدہ از و پرستی پر مبنی نظریات پر یقین رکھنے والے افراد کے لئے ایڈ کر کیسی کی شخصیت کیا انہیں کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتی ؟….
ایڈ کر کیسی کی صلاحیت ڈاکٹر کیم اور دیگر عام ڈاکٹروں کے لیے ایک معمہ تھی۔ ڈاکٹر ٹیچر نے محسوس کیا کہ ٹرانس کے دوران ایڈ کر کیسی کے اندر جو شخصیت ابھرتی ہے وہ
زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ماضی اور مستقبل میں جھانک سکتی تھی۔
جیسے کہ نیش ول کے ایک کاروباری شخص کے لیے کی گئی ریڈنگ کے دوران اس نے مریض کے لیے ایک خاص دوا بالم آف سلفر Balsm of Sulpher کو دیگر ادویات کے ساتھ تجویز کیا۔ ڈاکٹر نے اس دوا کا نام تک نہ سنا تھا اور فارما اور ادویات کی قدیم کتابوں میں تلاش کیا گیا تو پتا چلا کہ یہ سو سال قبل ایک جرمن ڈاکٹر کا بنا یا فارمولا ہے ، اور اسی مرض کے لیے ہے جس کے علاج کے لیے ایڈ کرنے تجویز کیا تھا۔ ایک مرتبہ ایک لڑکے کو لایا گیا جس کی ٹانگ میں کچھ نقص تھا، ایڈ کرنے آئل آف اسموک Oil of Smoke نامی دوا مساج کے لیے تجویز کی۔ ڈاکٹر کیمیم نے شہر کی تمام فارما اسٹور جھان مارے لیکن
اس دوا کا کچھ پتا نہ چل سکا، آخر کار ڈاکٹر کیچ نے دوبارہ ریڈنگ کی اور ایڈ گرسے پوچھا کہ یہ دوا کہاں سے مل سکتی ہے ، دوران ٹرانس ایڈ کرنے بتایا کہ لوئس ویل شہر کے فلاں اسٹور میں مل جائے گی۔ ڈاکٹر کیچیم لوئس ویل شہر کے اس فارما اسٹور کا پتا دریافت کیا اور انہیں تار بھیجا، لیکن وہاں کے کیمسٹ نے ایسے نام کی کسی دوا کے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔
اب ڈاکٹر سیم نے تیسری مرتبہ ریڈنگ کی اور ایڈ گرسے دوا کے متعلق پھر دریافت کیا، تو ایڈ کرنے بتایا کہ اس فارما اسٹور کے گودام کے مخصوص شیلف پر فلاں ادویات کے پیچھے یہ دوار کھی ہے ۔ ڈاکٹر نیم لوئس ویل شہر کے اس فارما اسٹور کو دوبارہ تار بھیجا تو وہاں سے جواب آیا کہ دو مل گئی ہے۔
دراصل یہ ایک قدیم دوا کا فارمولہ تھا، جس کی کمپنی بھی برسوں پہلے بند ہو چکی تھی اور شیلف میں رکھے رکھے اس دوا کا لیبل دھول مٹی سے اتناٹ چکا تھا کہ بظاہر اس کا نام پڑھنے میں نہیں آرہا تھا۔ ڈرگ اسٹور کے کیمسٹ نے جب اس کا لیبل صاف کیا تو اس Oil of Smoke لکھا نظر آگیا۔
ایک مرتبہ ایڈ کرکیسی نے ایک مریض کے لیے آئیوڈائز کیاشیم Iodize Calcium تجویز کیا، جس کے متعلق شہر کا کوئی دوا ساز یاڈرگ اسٹور کا کوئی نمائندہ نہیں جانتا تھا، بہت تلاش و بسیار کے بعد کے ایک پرانے اسٹور پر وود واصل گئی۔
ایڈ کرنے اپنی ریڈنگ میں ماضی کی ایسی کئی ادویات کا ذکر کیا جو نایاب ہو چکی تھی اور اس سے ایسے مستقبل کے علاج بھی تجویز کیے جو اس وقت تک رائج بھی نہیں ہوئے تھے۔ جیسے بایو فیڈ بیک کی دریافت سے چالیس برس قبل ایڈ کرنے ریڈنگ میں مریض کے علاج کے لیے اس جیسے ایک برقی آلے کا ذکر کیا، جسے ایڈ کر کیسی نے ریڈیک Radiac کا نام دیا تھا۔ اسی طرح ایڈ کر کیسی کے پاس ہاپکنز ویل کے ایک امیر کاروباری شخص چارج ڈائٹن George Dalton کا کیس آیا۔ جس کے لیے ایڈ کرنے ایسا علاج تجویز کیا، جس سے ڈاکٹر اس وقت انجان تھے۔ جارج ڈائٹن ٹینیسی ریاست سے تعلق رکھتا تھا، تعلیم مکمل کرنے کے بعد 21 سال کی عمر سے ہی اس نے اپنے والد سیموئل ڈالٹن کا کار و بار، اینٹوں کی تیاری اور عمارت کا کام سیکھا اور پھر اپنے خاندان کے ساتھ ہاپکنز ویل آگیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ڈالٹن برادرز کے نام سے ایک کنسٹرکشن کمپنی کا آغاز کیا۔ ہاپکنز ویل شہر میں وہ واحد بر کس ورک کمپنی کا مالک تھا، اس نے بلڈ نگ سے لے کر ریلوے روڈ تک ہر قسم کی تعمیر اور ٹھیکیداری کا کام کیا، اپنے پلانٹ میں اپنا تعمیراتی سامان تیار کیا اور در جنوں آدمیوں کو ملازمت دی اور پھر اس کا شمار شہر کے امیر ترین شخصیت میں ہونے لگا۔ اس روز ڈالٹن ایک تعمیراتی سائٹ کی وزٹ پر تھا، معائنہ کے دوران اس نے بلڈ نگ کی پہلی منزل پر ایک چارفٹ کے فاصلے کو عبور کرنے کی کوشش کی، جہاں سیڑھیاں ابھی تک نصب نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور نیچے منزل پر جا گرا، اس کی دائیں ٹانگ، گٹھنے کے نیچے اور اوپر دونوں جگہ
سے توڑ چکی تھی۔
ہاپکنز ویل کے زیادہ تر ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں چل سکے گا اور ٹانگ کاٹنے کی ضرورت ہو گی۔ لیکن ڈاکٹر کیچپم نے ، ایڈ کر کیسی کے مشورے پر کہا کہ گٹھنے کو ٹھیک کیاجاسکتا ہے۔
ٹرانس کے دوران ، ایڈ کر کیسی نے ڈالٹن کی ٹانگ کی حالت بیان کی، اور ڈاکٹر نیم کو ہدایت دی کہ گٹھنے کو جوڑنے والی کاسہ نما بڑی Patella میں سوراخ کریں، پھر اس کو دوسری ہڈی کے ساتھ کیل سے جوڑ دیں اور پٹی کرنے کے بعد Traction کی جائے یعنی بستر پر ٹانگ کو اوپر کرتے ہوئے اسے کھینچ کر سیدھار کھیں اور کسی گدے وغیرہ کا سہارا دیں۔ ابتدا میں ڈاکٹر سیم یہ تجویز سن کر سخت حیران رہ گیا۔ اس نے بھی اس طرح کے علاج کے بارے میں نہیں سنا تھا، نہ ہی ان کے ساتھی ڈاکٹروں نے۔
ڈاکٹر کیچیم تو ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر اسے سرجری کے متعلق اتنا نہیں معلوم تھی لیکن جب اس سے ایک سرجن سے رابطہ کیا تو اس نے بھی ایسے طریقہ علاج سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس وقت سرجنز پلاسٹر کی پٹیوں اور سانچے نما Splints استعمال کرتے تھے، لیکن ہڈی میں دھاتی پیچ یا کیل ڈالنا، ایک ایسا عمل تھا جو پہلے کبھی امریکہ میں تو کیا، دنیا میں کہیں اورنہیں آزمایا گیا تھا۔
سرجری کی تاریخ کے متعلق کتابوں میں ملتا ہے کہ ہڈی جوڑنے کے لیے کیل کا استعمال سب سے پہلے 1913ء میں ایک جرمن سرجن جارج شون Georg Schöne نے اوپری اعضاء کے فریکچر کے علاج کے لیے کیا تھا، پھر 1921 میں ایک جرمن ڈاکٹر آسکر طر مینارک Oskar Müller Meenarch- نے دھاتی پیچ نما اندرونی سپلنٹ لگائے جو کرومائزڈ پینیل یا سٹین لیس سٹیل سے بنائے گئے تھے اور انہیں Bolzen کہا جاتا تھا۔ جبکہ ایڈ کر کیسی نے ان دونوں سے برسوں پہلے 1911ء میں یہ علاج تجویز کر دیا تھا۔
ڈاکٹر کیچم کو ایڈ کرکیسی کی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا، چنانچہ وہ فور اشہر کی فوربز بلیک سمتھ شاپ پر پہنچا اور لوہار سے مطلوبہ کیل کے بنانے کا آرڈر دیا۔ لوہار نے ایڈ کر کیسی کی وضاحتوں کے مطابق لوہے کی 1 ایسی کیل بنائیں جس کا سرا، چھٹا اور گول تھا۔ پھر ڈاکٹر سیم نے ایک سرجن ڈاکٹر اور دو نرسوں کی مدد سے، ڈالٹن کے کے گھر میں ہی اس کے ٹوٹے گٹھنے میں سوراخ کرنے اور گٹھنے کی ہڈی کو کیل سے جوڑنے میں مصروف ہو گئے۔ یہ آپریشن شہر بھر میں گفتگو کا موضوع بن گیا کیونکہ ہاپکنز ویل راکے دیگر ڈاکٹر کیم کا مذاق اڑتے اور انہیں بے وقوف کہتے م لیکن ڈاکٹر کلیم سے اس بات کی پر واہ نہیں کی ۔ جارج ڈالٹن کی ہڈیوں کو ٹھیک ہونے میں دو ماہ لگے، جارج ڈائٹن دوبارہ سے چلنے لگا۔ جب وہ ستر و سال بعد فوت ہوئے، تب بھی ان کی گٹھنے میں کیل موجودتھی۔
اس دوران ایڈگر کی ملاقات ڈیوڈ نامی ایک نوجوان سے ہوئی جو بہت عرصہ پہلے فالج کی وجہ سے ایک ٹانگ سے معذور ہو چکا تھا۔ ایڈ گر اپنے مخصوص طریقہ سے اس کی ٹانگ کو تندرست کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ڈیوڈ کے علاج کے دوران ایڈ کر کو اپنے اس پر اسرار علم کے بارے میں ایک اور بھی انکشاف ہوا کہ وہ کسی کا ذہن پڑھ کر یہ بھی بتا سکتا تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہو گا۔ ڈیوڈ کو اس نے بتایا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا کیریئر بنانے کے لیے اپنا پسندیدہ پیشہ اختیار کرے گا جس کے لئے اسے خاصی محنت بھی کرنی پڑے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ایڈ کرنے علاج معالجہ کے علاوہ عالمی حالات، سیاست، سائنس اور تاریخی حقائق کی بھی پیشگوئیاں بھی کیں جن میں سے اکثر بعد میں سچ ثابت ہوئیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2024