Daily Roshni News

پہلا ایٹم بم کا دھماکہ

پہلا ایٹم بم کا دھماکہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب پہلی بار انسان نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو ایسا لگا جیسے زمین نے اپنے ہی وجود کے خلاف بغاوت کر دی ہو۔ مگر انسان کی جستجو وہیں نہیں رکی۔ جلد ہی انسان نے ایٹمی طاقت کا ایک ایسا روپ دریافت کر لیا جو عام ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ ہولناک تھا — ہائیڈروجن بم۔ اسے بعض اوقات تھرمونیوکلئیر بم بھی کہا جاتا ہے، اور اگر سادہ الفاظ میں بیان کریں تو یہ وہ ہتھیار ہے جو سورج اور ستاروں کی توانائی کو زمین پر اتارنے کی کوشش ہے۔

ہائیڈروجن بم کا اصول بالکل مختلف ہے۔ عام ایٹم بم میں بھاری ایٹم، جیسے یورینیم یا پلوٹونیم کو توڑ کر توانائی حاصل کی جاتی ہے، مگر ہائیڈروجن بم میں ہلکے عناصر کو آپس میں جوڑ کر ناقابلِ تصور توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ عمل نیوکلیئر فیوژن کہلاتا ہے، وہی عمل جو سورج میں کروڑوں سالوں سے جاری ہے اور جس کی بدولت زمین پر روشنی اور زندگی قائم ہے۔ ہائیڈروجن بم میں چھوٹے ایٹم — جیسے ڈیوٹیریم اور ٹرائٹیریم — ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک نیا عنصر پیدا کرتے ہیں، اور اس عمل میں جو توانائی خارج ہوتی ہے وہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ٹن روایتی دھماکہ خیز مواد کے برابر ہو سکتی ہے۔

مگر اس بم کو بنانے کا عمل کوئی آسان کام نہیں تھا۔ فیزیکل طور پر، ہائیڈروجن بم دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے ایک عام ایٹمی بم کا دھماکہ کیا جاتا ہے تاکہ اتنی زیادہ گرمی اور دباؤ پیدا ہو جو فیوژن عمل شروع کر سکے۔ پھر یہ شدید حالات ہلکے ایٹموں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ آپس میں جڑ کر ایک تباہ کن دھماکہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہائیڈروجن بم، عام ایٹمی بم کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر عام ایٹم بم کسی شہر کو تباہ کر سکتا ہے تو ہائیڈروجن بم پورے ملک کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دنیا میں ہائیڈروجن بم بنانے کی دوڑ دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد شروع ہوئی۔ امریکہ نے 1952 میں پہلا کامیاب ہائیڈروجن بم تجربہ کیا، جسے “آئیوی مائیک” کہا جاتا ہے۔ یہ تجربہ مارشل آئی لینڈز کے ایک دور دراز جزیرے پر کیا گیا تھا اور اس کا دھماکہ اتنا شدید تھا کہ پورا جزیرہ ہی نقشے سے مٹ گیا۔ سوویت یونین نے 1953 میں اپنا جواب دیا، اور 1961 میں انہوں نے “Tsar Bomba” کا دھماکہ کیا — ایک ایسا دھماکہ جس کی شدت آج تک انسانیت کی تاریخ کا سب سے بڑا نیوکلیئر دھماکہ ہے۔ اس دھماکے کا بادل ساٹھ کلومیٹر کی بلندی تک اٹھا اور اس کی روشنی ہزاروں کلومیٹر دور سے دیکھی گئی۔

برطانیہ، فرانس، اور چین نے بھی جلد ہی ہائیڈروجن بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی۔ بعد میں بھارت نے 1998 میں اپنے پوکھران ٹیسٹ میں ایک تھرمونیوکلئیر ڈیوائس کا تجربہ کیا، حالانکہ اس پر دنیا بھر میں کچھ شبہات کا اظہار بھی کیا گیا۔ پاکستان نے اسی سال اپنے کامیاب ایٹمی تجربات کیے، مگر اب تک کوئی سرکاری طور پر یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پاکستان کے پاس مکمل ہائیڈروجن بم ہے۔ شمالی کوریا نے 2016 میں اعلان کیا کہ اس نے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا ہے، مگر بہت سے ماہرین اب بھی اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہیں۔

ہائیڈروجن بم صرف ایک ہتھیار نہیں، یہ ایک فلسفہ ہے: طاقت کی انتہا، تباہی کی معراج۔ یہ اتنا مہلک ہے کہ اس کے استعمال کے بعد زمین پر کئی برسوں تک “نیوکلیئر ونٹر” آ سکتا ہے — ایک ایسا دور جب آسمان دھوئیں سے ڈھک جائے گا، سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچے گی، درجہ حرارت گر جائے گا اور زندگی کا بیشتر حصہ فنا ہو جائے گا۔ اس بم کی تباہی کا عالم یہ ہے کہ اگر چند درجن ہائیڈروجن بم پھٹ جائیں تو انسانی تہذیب کا وجود ہی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

شاید اسی خوف نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے معاہدے کریں۔ مگر ہائیڈروجن بم کی موجودگی اب بھی اس دنیا پر ایک ایسا سیاہ سایہ ہے جو کبھی بھی حرکت میں آ سکتا ہے، اگر انسان نے ہوش سے کام نہ لیا۔ آج جب ہم ستاروں کی کھوج میں ہیں، مریخ پر بستیاں بسانے کے خواب دیکھتے ہیں، تو یہ ہتھیار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے اپنے ہی سیارے کو تباہ کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

شاید یہی ہائیڈروجن بم کی سب سے بڑی کہانی ہے — طاقت کی معراج، اور فنا کا دہانہ۔۔۔#کاپی

Loading