چنگیز خان اور چرواہے کا سچ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کہا جاتا ہے کہ جب چنگیز خان نے نیشاپور میں خون کی ندیاں بہا دیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا، تو اُس کے بعد وہ اپنی فوج کے ساتھ ہمدان کی طرف روانہ ہوا۔
وہاں کے لوگوں پر خوف کے سائے چھا گئے۔ لوگ لرزتے دل اور سہمے چہروں کے ساتھ اس کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔
“چنگیز خان نے سارے شہر کو ایک وسیع و عریض میدان میں جمع کیا، جہاں ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اس نے بلند آواز میں اعلان کیا:
‘میں نے سنا ہے کہ ہمدان کے لوگ نہایت سمجھدار، زیرک، اور فہم و شعور میں بے مثال ہیں۔ ھمدانیوں کی معاملہ فھمی زبان زد عام ہے ، اور تمہارے بارے میں مشہور ہے ھمه دانی و ھیچ ندانی اتنے زیرک ھو سب کچھ جانتے ہو ے بھی کچھ نہیں جانتے ،
چنگیز خان کی نظریں میدان میں کھڑے لوگوں پر جم گئیں اور اس نے کہا:
‘میں تم سے ایک سوال کروں گا، جس کا جواب اگر صحیح اور معقول ہو، تو تمہیں امان ملے گی، تمہیں تحفظ ملے گا، لیکن اگر تم میرے سوال کا جواب غلط دیا، تو یہی میدان تمہارا آخری ٹھکانا بنے گا۔ تمہاری تقدیر یہاں فیصلے کی محتاج ہے، اور اگر تم غلط جواب دو، تو اس میدان میں تم سب کو تہہ تیغ کر دوں گا۔’
اس کی آواز میں وہ دلی دھاڑ تھی جو ہر شخص کے دل میں خوف کی لہر دوڑاتی۔”
اس میں چنگیز خان کے ارادے اور اس کے حاکمانہ انداز کو واضح کیا گیا ہے، اور یہ اس کے سوال کی سنگینی کو بھی ظاہر کرتا ہے
پھر وہ رُکا، لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:
“کیا میں خدا کی طرف سے آیا ہوں، یا اپنی مرضی سے آیا ہوں ؟”
مجمع ساکت تھا۔ کوئی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ جانیں لبوں پر تھیں،
“لہذا ہمدان کے دانشور، علما، بزرگان، پڑھے لکھے لوگ اور اہلِ حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ وہ چنگیز خان کے سوال کا مناسب جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سب کے چہرے پر خوف اور اضطراب تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سوال محض ایک امتحان نہیں، بلکہ پورے شہر کے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا تھا
“شہر کے بڑے اور اہلِ دانش سوچ و بچار میں غرق تھے، ایک طرف شہر کی تقدیر کا سوال تھا اور دوسری طرف خوف کی ایک گہری لہر۔ اس دوران اچانک ایک چرواہا جواب دینے کے لئے کھڑا ہوا جس کی آنکھوں میں خوف کے بجائے بصیرت تھی، ہجوم سے آگے بڑھا۔
شہر کے لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی تھیں، ہر کسی کے دل میں یہی سوال تھا کہ یہ چرواہا چنگیز خان کے سوال کا کیا جواب دے گا؟
چنگیز خان نے اسے غور سے دیکھا، پھر اپنی گرجدار آواز میں کہا: ‘اگر میں جواب سنوں گا، تو اسی سے سنوں گا!
چرواہے نے نہایت دلیری سے چنگیز خان کی طرف دیکھا اور کہا:
“نہ تو تم خدا کی طرف سے آئے ہو، اور نہ ہی اپنی مرضی سے آے ہو ۔
تمہیں ہمارے اعمال یہاں لائے ہیں!
جب ہم نے اہلِ عقل و دانش کو نظرانداز کیا،
اور بےوقوفوں، جاہلوں، اور چاپلوسوں کو عزت، اختیار اور قیادت دی،
تو پھر یہی دن دیکھنا تھا۔
تم ہماری نادانی، ہماری بےبصیرتی اور ناانصافی کا نتیجہ ہو!”
چنگیز خاموش ہو گیا۔ شاید اُسے بھی اس سچائی کی گہرائی نے ایک لمحے کو ہلا دیا تھا۔ اور چنگیز خان نے سب کو جانے دیا
پیغام:
قوموں پر چنگیز جیسے طوفان آسمان سے نازل نہیں ہوتے،
یہ اُن کے اپنے ہاتھوں کے بوئے ہوئے بیجوں کا پھل اور مکافات عمل ہوتے ہیں۔
از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جوزجو
ترجمہ:
مکافات عمل سے کبھی غافل نہ ہونا گندم بؤو گے تو گندم کاٹو گے جو بوؤ گے تو جو کاٹو گے
جیسا کروگے ویسا بھرو گے
اگر آج بھی ہم نے عقل و علم کو مقام نہ دیا، انصاف اور صداقت کا پرچم نہ تھاما، تو چنگیز کے سائے پھر سے لوٹ آئیں گے۔ چاہے نام کچھ بھی ہو، شکل کچھ بھی ہو۔ قومیں بندوق سے نہیں، بصیرت سے باقی رہتی ہیں۔