Daily Roshni News

ڈرامہ میں نکاح۔۔۔تحریر ۔۔۔حمیراعلیم

(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)

چند سال پہلے کسی چینل پر ایک ڈرامہ آن ائیر ہوا تھا جس میں شوہر نہایت سخت مزاج ہوتے ہیں اور بیگم ان سے بے حد خوف زدہ۔دو بیٹیاں ہوتی ہیں ان پر بھی والد سکتی کرتے ہیں۔بڑی بیٹی کا نکاح طے کیا جاتا ہے۔اسی دن کسی سنگر کا کنسرٹ ہوتا ہے جس پر اس بیٹی کی دوست اسے زبردستی لے جاتی ہے۔والدہ اس شرط پر جانے کی اجازت دے دیتی ہیں کہ والد کے آفس سے آنے سے پہلے بیٹی واپس آ جائے گی۔ اچانک ہنگامہ کی وجہ سے ہڑتال ہو جاتی ہے اور لڑکی وقت پر واپس نہیں پہنچ پاتی۔والدہ والد کے ڈر سے چھوٹی بیٹی کو گھونگھٹ اڑا کر نکاح کے لیے بٹھا دیتی ہیں۔اوروہ بڑی بہن کے منگیتر سے بہن کے نام کے ساتھ ایجاب و قبول کر لیتی ہے۔بعد میں والدین بڑی بیٹی کی رخصتی کر دیتے ہیں۔لڑکی اس کی بہن اور والدہ کے سوا کسی کو علم نہیں ہوتا کہ بڑی بیٹی

 بنا نکاح کے رخصت کر دی گئی ہے۔

 لڑکی کسی طرح سے یہ مینیج کر لیتی ہے کہ شوہر اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہ کرے۔چھوٹی بہن جب دیکھتی ہے کہ بہن کی سسرال بے حد اچھی امیر اور محبت کرنے والی ہے تو وہ اسے کہتی ہے کہ یہ گھر اور شوہر تو اس کا ہے۔اور بہن سے کہتی ہے کہ وہ شوہر کو سچ بتا دے گی۔ آخرکار لڑکی شوہر کو اعتماد میں لے کر سب خود بتا دیتی ہے۔وہ اسے کہتا ہے کہ چھوٹی کو طلاق دے دے گا اور وہ دونوں کسی مسجد میں نکاح کر لیں گے۔اس کا آخر یہ ہوتا ہے کہ لڑکا چھوٹی بہن کو طلاق دے دیتا ہے۔بڑی سچائی والد کو بتا دیتی ہے اور ماں شوہر کی لعنت ملامت  پر خودکشی کر جاتی ہے۔

     اس ڈرامے کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ رائٹر نے ایسا واقعہ دیکھ کر ہی لکھا ہو گیا۔چنانچہ شیخ عاصم الحکیم کو ای میل کر کے سارا واقعہ بیان کر کے سوال کیا کہ شیخ اگر کوئی لڑکی دوسری کے نام سے ایجاب و قبول کرے تو نکاح کس کا ہو گا؟ شیخ نے جواب دیا کہ جس نے ایجاب و قبول کیے۔خواہ نام درست نہ بھی استعمال کیا گیا ہو۔اور یہ کیسی خاتون تھی جس کو شوہر کا تو ڈر تھا مگر اللہ تعالٰی کا نہیں۔

    یہ قصہ اس وقت یاد آیا جب فیس بک پر اسی بارے میں ایک چھوٹا سا کلپ دیکھا جس میں ایک عالم کہہ رہے تھے کہ ڈرامے میں نکاح اور طلاق ہو جاتی ہے۔ ایک اور عالم سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ ڈرامے میں سچا نہیں جھوٹا نکاح ہوتا ہے تو کیا تب بھی نکاح ہو جائے گا۔عالم نے کہا ہو جائے گا۔

اور اس پر بہت سے اداکاروں اور ماڈلز کے ایسے علماء پر فتاوی کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔جنہیں دیکھنا سننا میں نے اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ کوئی بھی علم خصوصا دین اس کے  علماء سے سیکھا جاتا ہے نا کہ ان سے جو دین کے خلاف کام کر رہے ہوں۔مجھے نہ صرف شیخ عاصم الحکیم کا جواب یاد آیا بلکہ یہ حدیث بھی گوگل کی۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے ، تو حقیقت ہیں اور ہنسی مزاح میں کہے ، تو بھی حقیقت ہیں ۔ نکاح ، طلاق اور ( طلاق سے ) رجوع ۔“ صحیح حدیث  ابی داود 2194

       اگر صحیح حدیث موجود ہے تو کسی بھی شخص کا قول کوئی معنی نہیں رکھتا۔چند باتیں مجھے ہمیشہ تکلیف دیتی ہیں اور اس تکلیف میں اس وقت اضافہ ہوا جب مختلف چینلز پر ان سحر و  افطار ٹرانسمیشنز میں موجود علماء سے کالرزنے مندرجہ ذیل سوالات کیے:” میری گرل فرینڈ کی شادی ہو گئی ہے اس کے بچے مجھے ماموں کہتے ہیں۔کیا میں اس کا بھائی بن گیا ہوں۔” اسٹیج پر بیٹھے عالم  نے فرمایا :” ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے۔لیکن نسبی بھائی نہیں۔” جس پر اعلی تعلیم یافتہ ہوسٹ نے لقمہ دیا:” سوال تو اس کا درست ہے بتائیے کیا یہ واقعی ہی ماموں ہے۔”

” میں کالج میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں کوئی وظیفہ بتا دیں کہ وہ مجھ سے دوستی کر لے۔” ” میری بیوی مجھے بہت مارتی ہے کوئی وظیفہ بتا دیں کہ میں اس سے علیحدگی اختیار کر سکوں۔” اس پر علماء ہنسے اور ویسے ہی جواب دئیے جیسے سوال تھے۔جنہیں سن کر جیسی روح ویسے فرشتے محاورے کی عملی تفسیر دکھائی دی۔

      میں نے کبھی سحر و افطار ٹرانسمیشنز نہیں دیکھیں یہ سب کلپس فیس بک پر دیکھے  ہیں۔اور سوچا کاش ان میں سے ایک بھی عالم اتنی جرات رکھتا کہ کہہ سکے :” شوبز حرام ہے۔کیونکہ یہ جھوٹ، مخلوط محافل، برہنگی، بے پردگی اور بہت ساری حرام چیزوں کا مجموعہ ہے۔اس لیے اسے بند کیا جائے تاکہ ایسے ایشوز پیدا ہی نہ ہوں۔”

لیکن جو علماء مخلوط محافل سحر و افطار میں موجود ہیں ۔اسرائیلی مصنوعات سے سحروافطار میں لطف اندوز ہو رہے ہیں ان میں اتنی جرات ایمانی کہاں سے آئے گی۔اور جو ہوسٹس ایسی آڈینس اور کالرز کے ساتھ پروگرام کر رہے ہوتے ہیں ان کا لیول آف ایمان بھی سب کے سامنے ہی ہے۔میں نہ تو کسی کو جج کر رہی ہوں نہ ہی اس پر فتوی لگا رہی ہوں۔ ایک حدیث اور ایک جید عالم کی رائے اسی لیے شیئر کی کہ نص سے اس عالم کی تائید کر سکوں۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عوام نے تو دین چھوڑا ہی ہے ورنہ ایسے فضول سوال نہ پوچھتے علماء نے بھی دین کو مذاق بنا لیا ہے بجائے ایسے فضول سوال کرنے پر انہیں تنبیہ کرنے کے ان کے کانوں کے کیڑے جھاڑنے کے وہ بھی لطف اندوزہو رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ریٹنگز کے چکر میں یہ فضول گوئی جان بوجھ کر کی جا رہی ہے۔

     شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن میں ذکر ہے:

 اُولٰٓـئِکَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ فَـلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَo البقرۃ، 2/ 86

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیا کی زندگی خرید لی ہے، پس نہ ان پر سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی ان کو مدد دی جائے گی۔”

اُولٰٓـئِکَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰـلَةَ بِالْهُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ج فَمَآ اَصْبَرَهُمْ عَلَی النَّارِo البقرۃ، 2/ 175

“یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب، کس چیز نے انہیں (دوزخ کی) آگ پر صبر کرنے والا بنا دیا ہے۔”

خدارا دین کو کھیل تماشہ نہ بنائیں۔اور بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہیں ہم گستاخی قرآن و حدیث کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔

اللہ تعالی سب کو قرآن حدیث پڑھنے سمجھنے اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Loading