Daily Roshni News

کائنات بگ بینگ کے دھماکے کے بعد سے مسلسل پھیل رہی  ہے۔۔۔تحریر ۔۔۔ ندا سکینہ صدیقی

کائنات بگ بینگ کے دھماکے کے بعد سے مسلسل پھیل رہی  ہے۔

تحریر ۔۔۔ ندا سکینہ صدیقی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ندا سکینہ صدیقی )کائنات بگ بینگ کے دھماکے کے بعد سے مسلسل پھیل رہی لیکن یہ کتنی رفتار سے پھیل رہی ہے ۔ماہرین ابھی تک یہ انداز ہ نہیں لگاسکے ہیں ۔لیکن اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ کائنا ت کتنی وسیع ہے ۔ماہرین کے مطابق کائنات کے سب سے دور نظر آنے والے علاقوں کا فاصلہ لگ بھگ 46 ارب نوری سال کے فاصلے جتنا ہے ۔اس کا قطر 540 سیکسٹیلین ( 54 کے بعد 22 زیرو) میل ہے۔لیکن یہ صرف اندازہ ہے ۔چوں کہ کائنات لگ بھگ 13.8 ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی ،تب سےیہ ظاہرا ً پھیل رہی ہے ۔

ماہرین فلکیات نے اس مقصد کے لیے ایک خاص قدر کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ ایک ایسی تعداد ہے جسے ’’ہبل کا نسٹنٹ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر فلکیات راشیل بیٹن کا کہنا ہے کہ درست اعداد ووشمار کے حصول کے لیے پیمائش کی مزید جانچ پڑتال ضروری ہے ۔ہبل کانسٹنٹ کی پہلی پیمائش 1929 ءمیں ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے کی تھی۔ یہ 500 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پرسیکنڈ رکھی گئی تھی۔دو متضاد قوتیں جو ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں ۔

ایک کششِ ثقل کی قوت اور دوسری مرکز گریز قوت جو مدار سے باہر نکالنا چاہتی ہے ۔ان دونوں نے کائنات کے ابتدائی دنوں کی کشمکش کے وقت سے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔کائناتی توسیع کی رفتار کی شرح کے بارے میں ہبل کے پہلے اندازے کے بعد ایک صدی کے دوران، اس تعداد میں بار بار نظرِ ثانی کر کے اس کی شرح کو کم گیا ہے۔ حالیہ اندازوں نے اسے 67 سے 74 کلو میٹر فی سیکنڈ کے درمیان کسی مقدار کا تعین کیا ہے ۔

ہبل کانسٹنٹ مختلف ہو سکتا ہے ،کیوں کہ اس کا انحصا ر اس بات پر ہے کہ آپ اس کی پیمائش کیسے کرتے ہیں ۔اس کی پیمائش کے دوطر یقے ہیں ۔ایک یہ دیکھنا کہ قریبی کہکشائیں ہم سے کتنی تیزی سے دور ہو رہی ہیں ،جب کہ دوسرا کائناتی مائیکرو ویو کے پس منظر (سی ایم بی) کا استعمال کرتی ہے ۔

یہ بگ بینگ کے واقعے کے وقت خارج ہونے والی پہلی روشنی تھی ،ماہرین آج بھی یہ روشنی دیکھ سکتے ہیں ۔لیکن کائنات کے دور دراز حصوں کی وجہ سے جو روشنی ہم سے دور ہوتی ہے۔ وہ ریڈیو کی لہروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریڈیو سگنل 1960ء میں پہلی بار دریافت ہوئے، ہمیں کائنات کی حقیقت سمجھنے کے لیے بہترین بصیرت کی ضرورت ہے۔دو مسابقتی اور متضاد قوتیں جو اب بھی کائناتی مائکرو ویو کے پس منظر میں درجہ ٔحرارت میں چھوٹے فرق کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ان رکاوٹوں کو استعمال کرتے ہوئے، پھر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ‘بِگ بینگ کے فوراً بعد کائنات کس قدر تیزی سے پھیلی ہے ۔

اب اس کی توسیع کی شرح کایہ اندازہ لگانے کے لیے کاسمولوجی کے معیاری ماڈل پر بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے ۔لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب ماہرینِ فلکیات یہ دیکھ کر ہبل کانسٹنٹ کی پیمائش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آس پاس کی کہکشائیں کس طرح ہم سے دور ہورہی ہیں تو وہ ایک مختلف بات دریافت کرتے ہیں۔

جب یورپین اسپیس ایجنسی(ای ایس اے) کے ‘پلانک سیٹلائٹ نے سی ایم بی میں تضادات کو ناپا تو،پہلے مرتبہ 2014ء میں اور دوسری مرتبہ 2018ء میں ہبل کانسٹنٹ کے لیے آنے والی قدر 67.4 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ لیکن یہ قریب کی کہکشائوں کی پیمائش سے تقریباً9 فی صد کم ہے۔2020 ء میں اٹا کاسمولوجی ٹیلی اسکوپ کااستعمال کرتے ہوئے ماہرین نے سی ایم بی کی مزید پیمائش پلانک کے اعدا وشمار سے حاصل کیے ہیں ۔

فریڈمین اور اس کے ساتھیوں کی استعمال کردہ تکنیک ایک خاص قسم کے ستارے کا فائدہ اُٹھاتی ہے ،جسے’’ متغیر ‘‘کہا جاتا ہے۔ماہر فلکیات نے یہ ستارہ تقریباً100 سال پہلے دریافت کیا تھا ،یہ ستارہ ہفتوں میں اپنی چمک کو تبدیل کرتے ہوئے زیادہ روشن ہوتا ہے ۔ماہر نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ اس ستارے کو روشن ہونے میں لمبا وقت لگتا ہے ،پھر آہستہ آہستہ یہ مدھم ہو جاتا ہے اور دوبارہ روشن ہوتا ہے ۔ اب ماہر فلکیات چمکتی حالت میں ان کا مطالعہ کر کے قطعی طور پر بتاسکتے ہیں کہ ایک ستارہ واقعی کتنا روشن ہے۔

یہ ستاروں کے فاصلے کی پیمائش کا قطعی طریقہ فراہم کرتا ہے۔اگر کائنات ہمارے اندازوں سے زیادہ تیز رفتار شرح سے پھیل رہی ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی عمر موجودہ 13.8 ارب سال سے کم ہے۔فریڈمین اور اس کی ٹیم ہبل خلائی دوربین کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے ہبل کانسٹنٹ کی پیمائش کرنے کے لیےہمسایہ کہکشاؤں میں سیفائڈ متغیرات کو استعمال کرتی تھیں۔ 2001 ءمیں انہوں نے اس کی پیمائش 72 کلومیٹر (45 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی میں کی۔تب سے مقامی کہکشاؤں کے مطالعے سے حاصل ہونے والی قدر اسی نقطہ کے آس پاس موجود ہے۔

اسی قسم کے ستاروں کا استعمال کرتے ہوئے،ماہرین فلکیات کی ایک اور ٹیم نے 2019 میں ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے 74 کلومیٹر (46 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی کے اعداد و شمار پر پہنچنے تھے۔ پھر کچھ ہی مہینوں بعد فلکی طبیعیات دانوں کے ایک اور گروپ نے 73 کلومیٹر (45 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی کی قدر حاصل کرنے کے لئے کوسارز (دور دراز فاصلے کے اجسام فلکی جن سے ریڈیائی لہریں کثیر مِقدار میں نکلتی ہیں) سے آنے والی روشنی کو ناپنے کے لئے ایک مختلف تکنیک کا استعمال کیا۔

اگر یہ پیمائشیں درست ہیں، تو پھر یہ تجویز کرتی ہیں کہ کاسمولوجی کے معیاری ماڈل کے تحت کائنات کے پھیلاؤ کے نظریات پھیلاؤ کی شرح کی جو قدر پیش کرتے ہیں۔ کائنات اُس شرح سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہوگی۔ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک دریافت کا موقع ہے۔اگر اسٹینڈرڈ ماڈل غلط ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری کائنات کے جو ماڈل بنائے گئے ہیں۔ اس کی نسبتی مقدار میں سب اٹامک ذرّات یا ‘نارمل مادّہ، ‘تاریک توانائی اور تابکاری، یہ سب کے سب ٹھیک نہیں ہیں۔ اور اگر کائنات واقعتاً ہمارے نظریات کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے تو یہ فی الحال 13.8 ارب سال سے کہیں کم عمر کی ہے۔ان قدروں میں فرق کی ایک متبادل وضاحت کائنات کا وہ حصہ ہے ،جس میں ہم رہتے ہیں باقی کائنات کے مقابلے میں کسی نہ کسی طرح مختلف ہے اور یہ فرق پیمائش کو متاثر کرتا ہے۔

فریڈمین کے مطابق اب ہم چند سالوں میں اس مسئلے کو ایک ترتیب کے ساتھ حل کرلیں گے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اب نظر آتی ہوئی لگ رہی ہیں اور جو درستی کو بہتر بنائیں گی ،جس کی مدد سے ہم صحیح پیمائش کرسکتے ہیں اور اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔یورپین اسپیس ایجنسی (ای ایس اے ) کی خلا ئی رصد گاہ کا نام ‘گیہا ہے، جسے 2013 ءمیں لانچ کیا تھا اور ایک ارب کے قریب ستاروں کی پوزیشنوں کی پیمائش کرتا ہے اور اِس کی پیمائش کافی حد تک درست ہوتی ہے۔ سائنس داں اس کا استعمال ستاروں کے فاصلوں کو ناپنے کے لیے ایک تکنیک کے ذریعہ کر رہے ہیں، جس کو’’ ‘پیرالاکس‘‘ کہا جاتا ہے۔

اپنے مدار کے دوران سال کے مختلف اوقات میں اشیاء کا مطالعہ کرنے سے گیہا سائنس دانوں کو درست طریقے سے کام کرنے کا اہل بنائے گی کہ کس طرح تیزی سے ستارے ہمارے اپنے نظامِ شمسی سے دور ہورہے ہیں۔ایک اور چیز جو اس میں مددگا ر ثابت ہوگی کہ ہبل کانسٹنٹ کی کیا اہمیت ہے، جیمس ویب اسپیس ٹیلی ا سکوپ رواں سال کے آخرمیں لانچ ہوگی ۔اس کے ذریعے انفرا ریڈ ویولنتھس کا مطالعہ کرنے سے بہتر پیمائش کا موقعہ ملے گا اور ہمارے اور ستاروں کے درمیان جو ذرّات ہیں وہ جائزہ لینے میں رکاوٹ نہیں بننے گے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تاریک توانائی میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ ‘یہ تعاقب کرنے والے ایک ایوینیو کی طرح نظر آ رہا تھا، لیکن اب اس میں دوسری رکاوٹیں یہ ہیں کہ تاریک توانائی کتنا بدل سکتی ہے۔ اس کا ایک متبادل یہ ہے کہ کائنات کی ابتدا میں تاریک توانائی موجود تھی جو محض غائب ہو گئی، لیکن اس کی کوئی واضح وجہ ہمارے پاس نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ان حالات نے سائنسدانوں کو نئے نظریات کے خواب دیکھنے پر مجبور کیا ہے جن سے یہ وضاحت مل سکتی ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ کیسے ہو رہا ہے۔

Loading