کائنات ہم سے باتیں بھی کرتی ہے۔۔۔!!!!
تحریر۔۔۔تحسین اللہ خان
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کائنات ہم سے باتیں بھی کرتی ہے۔۔۔!۔۔۔ تحریر۔۔۔تحسین اللہ خان)بل ٹیلیسکوپ نے ہمیں پہلے ہی آگاہ کیا تھا لیکن ہم ہبل کو غلط سمجھ رہے ہیں اس کو سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں۔
اب وہی ہوا، جسکا ہمیں ڈر تھا، یہ رپورٹ میں جب پہلی بار پڑھ رہا تھا تو عجیب کیفیت طاری تھی کیونکہ میں سمجھ رہا تھا کہ اگر یہ چیز سچ ثابت ہوئی تو تباہی ہوگی ناسا کی سب سے بڑی ٹیلیسکوپ جیمز ویب نے، ناسا سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا اور ان کے لیے نیا کام ڈھونڈ لیا ہم جانتے ہیں کہ کائنات Universe بہت ہی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے،،،،،،،،، یہ پوسٹ مکمل پڑھتے وقت کائنات سورج سے ڈیپ اسپیس تک پھیل چکی ہوگی،،،،،، یعنی ایک کہکشاں دوسری کہکشاؤں سے اور ایک کلسٹر دوسرے کلسٹر سے بھاگ رہا ہے اس کا سبب یہ ہے، کہ بگ بینگ تھیوری کے مطابق یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یقیناً کسی وقت میں کائنات ایک پوائنٹ پر تھی۔۔۔۔۔۔۔یہ دعویٰ پہلی بار البرٹ آئن سٹائن نے 1915ء میں اپنے “نظریہ اضافت” میں کیا تھا کہ “کائنات” جامد نہیں ہے۔ بلکہ مسلسل پھیل رہی ہے۔
یہ دعویٰ اتنا حیران کن تھا کہ البرٹ آئنسٹائن خود اتنا گھبرا گیا تھا،، کہ انہوں نے اپنی ہی مساواتوں میں کچھ مصنوعی ردوبدل کی،،،،، جس پر بعد میں بہت پچھتائے بھی۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ “اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”۔۔ہم ابھی تک سمجھتے تھے کہ کائنات میں یہ پھیلاؤ بالکل یکساں اور برابر ہے، یعنی کائنات ہر طرف یکساں پھیل رہی ہے۔۔ لیکن پہلے ہبل ٹیلی سکوپ نے چونکا دیا تھا کہ آپ جیسا سمجھ رہے ہیں، ویسا کچھ بھی نہیں ہے اور اب جیمز ویب نے بھی عجیب پریشانی میں ڈال دیا ہے کیونکہ دونوں نے جو ڈیٹا ہمارے ساتھ شئیر کیا ہے،،، اس کے مطابق کائنات کا یہ پھیلاؤ یکساں اور برابر نہیں ہے۔
ناسا کے جیمز ویب اور ہبل ٹیلیسکوپس نے ایک حیرت انگیز دریافت کی ہے،، جس کے مطابق کائنات مختلف مقامات میں مختلف رفتار سے پھیل رہی ہے۔۔۔ یہ اس قدر حیران کر دینے والی بات ہے کہ میں بتا نہیں کرسکتا۔ ۔۔۔بگ بینگ تھیوری کا مکمل ماڈل جنہوں نے تفصیل سے پڑھا ہوگا، وہ میری فیلنگز کو محسوس کرسکتے ہیں۔۔ میں تو ناسا سائنسدانوں کے لیے پریشان ہوں، کہ وہ کس حال میں ہوں گے۔ کیونکہ یہ کائنات کے بارے میں، ہمارے علم میں ایک بڑی “خامی” کو ظاہر کرتا ہے۔
ناسا سائنسدانوں کو پہلی بار 2019 ء میں ہبل ٹیلی سکوپ نے آگاہ کیا تھا،،، لیکن ناسا کے بعض سائنس دانوں نے کہا کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے کہ ہبل سے ہمیں جو رزلٹ مل رہا ہے اسکو ہم صحیح طرح سے پروسیس نہیں کرپا رہے ہیں۔ اس طرح ناسا سائنسدانوں نے اس چیز پر کام نہیں کیا، لیکن جیمز ویب ٹیلیسکوپ نے بھی اس چیز کی تصدیق کی اور دونوں کے “مشترکہ” مشاہدات نے یہ “ثابت” کر دیا کہ یہ اختلاف “پیمائش” میں کسی غلطی کی وجہ سے نہیں بل کہ حقیقتاً موجود ہے۔ ہم پہلے اور اب جو طریقے استعمال کرکے کائنات کا پھیلاؤ معلوم کررہے ہیں۔۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ دونوں طریقے مختلف “نتائج” پیش کر رہے ہیں۔۔۔ اب یوں لگتا ہے جیسے”کائنات” نے اپنے ابتدائی دور اور موجودہ دور میں اپنے قوانین بدل لیے ہوں۔
ناسا نے دعویٰ کیا ہے کہ ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپس نے ایک ہزار سے زائد “Cepheid Stars” کا مشاہدہ کیا۔۔ جو ہم سے تقریباً 130 ملین نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں ان مشاہدات نے ثابت کیا، کہ 2019 ء میں ہبل ٹیلی سکوپ کی پیمائشیں بالکل درست تھی جب کہ غلطی ہم کررہے تھے اب ناسا کے سائنسدانوں کے لیے یہ بہت بڑی پریشانی ہے کیونکہ یہ نتائج ہمارے بنیادی نظریات کو زبردست چیلنج کرتے ہیں۔
یہ دریافت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے،،،،،،،،، کہ کائنات کے قوانین میں شاید کوئی ایسی پیچیدگی موجود ہے، جسے ہم ابھی تک سمجھنے میں ناکام ہیں۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے، کہ ناسا کے بعض سائنسدان یہاں تک کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کائنات “Universe” کے بنیادی “قوانین” وقت کے ساتھ ساتھ “تبدیل” ہوتے ہوں یا یہ بھی ممکن ہے، کہ کوئی چیز اس پھیلاؤ کو متاثر کر رہی ہو۔
مجھے یقین نہیں ہورہا ہے یہ ایک اور معمہ ہے سائنس دانوں کو مجبور کر رہا ہے، کہ وہ کائنات کے بارے میں اپنے نظریات پر نظرِثانی کریں،،،،،،، کائنات میں عجیب و غریب سرگرمیاں ہورہی ہیں،،،،،،، جو ہمیں بار بار چیلنج کرتی ہیں ہمیں بار بار اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔ یہ ساری کائنات ہم سے باتیں کرتی ہے،،،،،،،، لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ کائنات کی زبان سمجھتے ہیں۔اب کائنات نے ہمیں عجیب کیفیت میں ڈال دیا ہے،،،،،،،،، شاید کائنات اپنے بارے میں ہمیں کچھ نیا بتانے کی کوشش کررہی ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
تحریر Tehsin Ullah Khan