کلیاتِ نثر شہزاد احمد (غیر مدون نثری تحریریں)
تحقیق و ترتیب۔۔۔۔ ڈاکٹر اسد عباس عابد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کلیاتِ نثر شہزاد احمد (غیر مدون نثری تحریریں)۔۔۔ تحقیق و ترتیب ڈاکٹر اسد عباس عابد ) ڈاکٹر اسد عباس عابد یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ اردو میں بہ طور لیکچرار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اردو ادب کے میدان میں اپنی تحقیق و تنقید کے حوالے سے ایک ابھرتا نام ہیں۔ ان کی خاص توجہ اردو ادب کے ممتاز شاعر اور نقاد شہزاد احمد کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مرکوز رہی ہے۔ شہزاد شناسی کے ضمن میں ڈاکٹر اسد عباس عابد نے تین اہم کتابیں تصنیف کی ہیں، جو شہزاد احمد کی شعری و نثری تخلیقات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔
ان کی پہلی کتاب “شہزاد احمد کے شعری افکار” کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں شہزاد احمد کے فکر و فلسفے اور ان کی شاعری کی تفہیم و تجزیہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد، دوسری کتاب “غزل گو شہزاد احمد” کے نام سے منظر عام پر آئی۔ جو ان کی غزل نگاری کے فن اور موضوعات پر روشنی ڈالتی ہے۔حال ہی میں ڈاکٹر اسد عباس کی تیسری کتاب “کلیات نثر شہزاد احمد” (غیر مدون نثری تحریریں) شائع ہوئی ہے۔یہ کتاب شہزاد احمد کی غیر مدون نثری تحریروں کا ایک جامع مجموعہ ہے۔ یہ کتاب فیصل آباد کے معروف اشاعتی ادارے مثال پبلشرز سے شائع ہوئی ہے۔
“کلیات نثر شہزاد احمد” میں ڈاکٹر اسد عباس عابد نے شہزاد احمد کی ان نثری تخلیقات کو یکجا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جو مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے کسی کتاب میں شائع نہ ہو سکیں۔ اس میں شامل مواد کو بارہ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے اور ہر گوشے کو ایک منفرد عنوان کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب نہ صرف شہزاد احمد کی نثری جہات کو واضح کرتی ہے بلکہ ان کے ادبی سفر کے ان گوشوں کو بھی روشناس کرواتی ہے، جو اب تک پوشیدہ رہے تھے۔
کتاب “کلیات نثر شہزاد احمد” کا پہلا حصہ”اصنافِ ادب” کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے.اس گوشے میں شہزاد احمد کے مختلف اصنافِ ادب پر لکھے گئے پانچ اہم مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں خاص طور پر غزل کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، جو شہزاد احمد کی ادبی فکر اور تنقیدی بصیرت کو واضح کرتی ہے۔
شہزاد احمد جدید اردو غزل کے بنیاد گزاروں میں ایک نمایاں اور معتبر مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزل اپنی فکری گہرائی، جذباتی شدت، اور فنی پختگی کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ وہ زندگی کے آخری دنوں تک غزل کے میدان میں فعال رہے اور ان کی شاعری اپنی علمی و ادبی زرخیزی کے اعتبار سے لوحِ ادب پر ایک مثال کے طور پر قائم ہے۔ شہزاد احمد کی غزل ایک وسیع المطالعہ جدید فکر کے حامل شاعر کی تخلیق ہے۔ جو عصر حاضر کے علوم و فنون سے گہرے تعلق کا مظہر ہے۔
شہزاد احمد کی تخلیقی صلاحیتوں کا عکس نہ صرف ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے بلکہ ان کی نثری تحریروں میں بھی وہ علمی و فکری گہرائی اور تنقیدی بصیرت دکھائی دیتی ہے۔ شہزاد احمد نے جہاں غزل کی تخلیق میں مہارت حاصل کی، وہیں ان کا شمار غزل کے ناقدین میں بھی ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ان کے اس پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
غزل پر ان کے تنقیدی خیالات نہایت اہم ہیں،جن میں وہ غزل کو صرف ردیف و قافیہ کی ہم آہنگی تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ غزل کے لیے ایک مقصد اور فکری موضوع کا ہونا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے نزدیک غزل اور نظم کے درمیان ایک موضوعاتی تعلق موجود ہے،جو دونوں اصناف کو ایک دوسرے سے قریب کرتا ہے۔ اس موضوع پر ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ:
“پچھلے چالیس برس میں اردو میں جو نظمیں لکھی گئی ہیں ان کا اثر بھی جدید غزل پر خاصا گہرا ہے ۔عام طور پر اب غزلیں ایک ہی موضوع کی حامل ہوتی ہیں مطلع سے لے کر آخری شعر تک ایک ہی خیال کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔”
اسی پہلے حصے میں ایک نہایت دلچسپ مضمون “کیا نثر لکھنا شاعری سے زیادہ مشکل کام ہے؟” شامل ہے۔اس میں شہزاد احمد نے نثر اور شاعری کی تخلیقی عمل کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
“کیا نثر لکھنا شاعری سے زیادہ مشکل کام ہے؟ جی ہاں ! نثر لکھنا شاعری سے بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ شاعری میں تو آپ کی مدد کے لیے بحر ہوتی ہے، ردیف قافیہ ہوتے ہیں اور ایک ایسی روایت موجود ہوتی ہے جس پر برسوں سے کام ہو رہا ہے۔لیکن تخلیقی نثر اس لیے بھی بہت مشکل ہے کہ اس کی ویسی مضبوط روایت موجود نہیں ہے جو شاعری کی ہے شاعری میں بہت سی بیساکھیاں استعمال کی جاسکتی ہیں، لیکن اگر آپ کسی نئے موضوع پر کوئی مضمون لکھ رہے ہوں تو اس کا کبھی کچھ خود تخلیق کرنا پڑتا ہے، شاعری میں اگر آپ ایک مصرعہ لکھ نیں تو دوسرا مصرعہ اکثر اوقات خود بخود حاضر ہو جاتا ہے، خصوصاً غزل میں تراکیب اور مضامین کا تنوع ایک حد تک ہوتا ہے، لیکن اگر علمی نشر لکھی جائے تو یہ پھر سے آغاز کرنے کے مترادف ہے اکثر اوقات لکھا ہوا جملہ دوسرے جملے کے لیے قدرتی طور پر مددگار نہیں ہوتا۔ آپ کو ایک نامیاتی کل (Orcanic whole) بنانا ہوتا ہے، جو شاعری میں تو ہر کل میں موجود ہو سکتا ہے، نثر میں نہیں ۔ نشر ایک ایسی زمین کا سفر ہے جہاں نقش پا موجود نہیں ہیں ۔ آپ کو بہتے پانی کی طرح اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے۔”
کتاب کے دوسرے حصے میں محض دو ہی مضامین شامل ہیں، جن میں اردو زبان کی فکری بنیادوں، اس کی ترویج و ترقی اور اشاعت سے متعلق مسائل پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔ ان مضامین میں اردو زبان کے مستقبل کے حوالے سے ایک گہری تشویش کا اظہار نمایاں ہے۔ مصنف اپنی تحریروں میں اردو زبان کی حفاظت اور اسے جدید سائنسی علوم سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ اردو زبان کے نفاذ کے سلسلے میں حکومتی اداروں کی سست روی اور بے حسی پر شدید نالاں ہیں، جس کا ذکر ان کی تحریروں میں واضح طور پر ملتا ہے۔
تیسرے اور چوتھے حصے میں بالترتیب بائیس اور تیس مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان دونوں حصوں میں مختلف شعرا کے کلام پر تنقیدی اور تجزیاتی تحریریں شامل ہیں، جن میں مصنف نے شعری محاسن اور موضوعاتی تنوع کو اجاگر کیا ہے۔ علاوہ ازیں، ان میں کچھ مقالات مختلف کتب کے ابتدائیوں کے طور پر بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ ان دونوں گوشوں میں ایسی نثری تحریریں بھی موجود ہیں جو مصنف کے ذاتی تاثرات اور احساسات کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ تحریریں عموماً ان کے ہم عصر شعرا اور ادیبوں پر مرکوز ہیں، جن میں امجد اسلام امجد، قتیل شفائی، منیر نیازی، کشور ناہید، احمد فراز، پیرزادہ قاسم، صفیہ بھابھی (جو کہ منٹو کی اہلیہ تھیں)، مجید امجد، خالد احمد، اظہار شاہین، اکبر حمیدی، شکیب جلالی، ظفر اقبال، اور سلیم آغا قزلباش جیسی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات پر لکھی گئی تحریریں نہ صرف ان کے ادبی مقام کا اعتراف ہیں بلکہ مصنف کے ذاتی اور فکری روابط کو بھی بیان کرتی ہیں۔
کتاب کا پانچواں حصہ “صدارتی خطبات” کے عنوان سے موسوم ہے، جس میں دو تحریریں شامل ہیں۔ یہ حصہ اگرچہ مختصر ہے لیکن علمی اعتبار سے خاصا اہم ہے۔ تاہم، کتاب کا چھٹا حصہ تخلیقی پہلو کے اعتبار سے نمایاں اور قابلِ توجہ کیونکہ اس میں شہزاد احمد کے گیارہ انشائیے شامل ہیں۔
شہزاد احمد کے انشائیے ان کی دیگر نثری تحریروں کی طرح ان کے وسیع مطالعے خاص طور پر مغربی فلسفہ اور سائنسی نقطۂ نظر کے زیرِ اثر تخلیق کیے گئے ہیں۔ ان انشائیوں کی فضا نہایت لطیف، عمیق اور فکری ہے، جس میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور عصری مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ان تحریروں میں حسن اور فطرت کے عناصر کو ایک خاص رومانوی انداز میں پیش کیا گیا ہے، جبکہ خودکلامی، مادیت اور بے حسی جیسے موضوعات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ شہزاد احمد نے مشینی دور کی پیچیدگیوں، سائنسی ایجادات میں انسان کے گم ہو جانے، عدم تحفظ کے احساس، لاحاصل جستجو، خوف اور انسانی ارتقاء جیسے عمیق موضوعات کو نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے۔
انشائیوں کا اسلوب گہری معنویت اور بھید بھری فضا سے لبریز ہے، جو قاری کو حیرت میں مبتلا کرتے ہوئے ایک فلسفیانہ مکالمے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ شہزاد احمد اپنے انشائیوں میں اکثر لاشعوری طور پر اپنے ہم نواؤں کو مخاطب کرتے ہوئے بھی خود کی ذات کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو بظاہر اجتماعی نوعیت کے معلوم ہوتے ہیں لیکن متن میں گفتگو کرنے والا کردار درحقیقت اپنی ذات سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ انداز تحریر قاری کو گہرے غور و فکر پر مجبور کر دیتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ ان باتوں کا تعلق صرف فرد واحد سے نہیں بلکہ پورے معاشرے سے ہے۔ان کا ایک مشہور انشائیہ “ایک سوال” کے عنوان سے ہے، جس کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
” پھر کبھی مجھے یہ لگتا ہے کہ میں شاید راہ میں پڑا ہوا پتھر ہوں، جسے کوئی بھی ایک طرف پھینکنے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ میں بے شمار پیروں کو زخمی کر چکا ہوں اور اگر یہ واقعہ کئی بار ہو چکا ہے تو پھر میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں رائیگاں چلا گیا ہوں، جس نے اتنے مسافروں کے پاؤں زخمی کیسے ہوں،اس نے کوئی مقصد تو حاصل کیا ہی ہو گا ، وہ مقصد اذیت رسانی کی خوشی سے لے کر ضمیر کی چبھن تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر تم کون ہو؟ جس سے میں باتیں کرتا چلا جا رہا ہوں کیا تم رائیگاں نہیں گئے۔ تم اتنے مطمئن کیسے نظر آتے ہو، کیا تم نے اپنے شعور کو راکھ کر دینے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے، آخر تم نےاپنی روح کو بھسم کیسے کیا اور پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ تمھاری راکھ تک نہ بچی اور اگر راکھ بھی باقی نہیں ہے تو میں کس سے محوِ کلام ہوں۔”
شہزاد احمد کے انشائیوں کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سائنسی ایجادات کو انسانی بقا اور کائنات کے لیے ایک سنگین خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تیزی سے ہونے والی سائنسی ترقی اگرچہ انسانی زندگی کو سہولتوں سے ہمکنار کر رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ عدم تحفظ اور لاحاصلگی کا شدید احساس بھی پیدا کر رہی ہے۔ ان کے انشائیوں میں یہ تشویش سامنے آتی ہے کہ مشینی دور کی یہ بے قابو رفتار انسانی اقدار، فطری توازن، اور کائنات کی خوبصورتی کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کی تحریروں میں فطرت کے رنگ بھی نمایاں ہیں، جو انسان اور قدرت کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتے ہیں۔
کتاب کا ساتواں حصہ “تجزیاتی مطالعے” پر مشتمل ہے، جس میں قیوم نظر، شکیب جلالی، ڈاکٹر وزیر آغا، اور دیگر معروف مصنفین کی تخلیقات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ حصہ اردو ادب کی تنقیدی روایت کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں مختلف مصنفین کی تخلیقات کو موضوعاتی، فنی، اور فکری اعتبار سے پرکھا گیا ہے۔
آٹھویں حصے میں دو مضامین شامل ہیں جو رسالہ اوراق کے مستقل گوشہ “سوال یہ ہے” میں شائع ہونے والی بحثوں پر مبنی ہیں۔ یہ مباحث شہزاد احمد کے فکری زاویے اور سوالات اٹھانے کے منفرد انداز کی عکاسی کرتے ہیں۔
نویں حصے میں مختلف موضوعات پر تحریر کردہ سات مضامین شامل ہیں، جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور میں کی جانے والی مباحث کا حصہ تھے۔ یہ مضامین فکری اور ادبی مباحث کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اردو ادب میں نیا مواد فراہم کرتے ہیں۔
دسویں حصہ مصاحبوں پر مشتمل ہے، جس میں دس انٹرویوز شامل ہیں جو مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے تھے۔ ان مصاحبوں کے ذریعے شہزاد احمد کے فکری رجحانات، علمی خیالات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔
گیارہواں حصہ اٹھارہ “بیک فلیپس” پر مشتمل ہے، جو مختلف مصنفین کی کتب کے لیے تحریر کیے گئے تھے۔ ان میں ریاض مجید، ڈاکٹر خورشید رضوی، سعود عثمانی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جواز جعفری، اور دیگر اہم مصنفین کی کتب شامل ہیں۔ یہ فلیپس ان مصنفین کی تخلیقات کے بارے میں شہزاد احمد کے تاثرات اور ان کی فنی مہارت کی گواہی دیتے ہیں۔
کتاب کا آخری اور بارہواں حصہ “تاثراتی آرا” پر مشتمل ہے، جس میں دو مختصر تحریریں شامل ہیں: “توصیف تبسم پر مختصر رائے” اور “اے جی جوش پر مختصر رائے”۔ یہ تحریریں ان شخصیات کی ادبی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری اور تخلیقی جہتوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔
شہزاد احمد کی غیر مدون نثر کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت روانی اور سادگی کے ساتھ قاری کے دل و دماغ میں اترتی ہے۔ ان کی تحریریں قابلِ فہم اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ فکری گہرائی اور معنویت سے بھرپور ہیں۔ انہوں نے مشکل اور پیچیدہ اصطلاحات کو بھی اس طرح اپنی نثر کا حصہ بنایا ہے کہ وہ قاری کو بوجھل نہیں کرتیں بلکہ اس کی فہم کو وسعت دیتی ہیں۔ شہزاد احمد شاعر ہونے کے باوجود، نثر کی تاثیر اور قوت کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔ ان کی نثر میں ایک ایسی روانی اور فکری پختگی نظر آتی ہے جو ان کے وسیع علمی مطالعے اور منفرد طرزِ تحریر کی عکاس ہے۔
شہزاد احمد کی شخصیت کا اہم پہلو ان کا فلسفہ، نفسیات، اور سائنس کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک تخلیقی اور جستجو کرنے والے ذہن کے مالک تھے، اور جب بھی وہ تھکاوٹ محسوس کرتے تو خود کو خوشگوار بنانے کے لیے سائنسی علوم کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ان کی یہ عادت ان کی نثر میں واضح طور پر جھلکتی ہے، جہاں جدید سائنسی نظریات، فلسفیانہ سوالات اور انسانی نفسیات کے موضوعات خاص طور پر سامنے آتے ہیں۔
مغربی ادب اور فلسفے کے ساتھ ان کی شناسائی نہایت گہری تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں مغربی ادیبوں، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے خیالات اور حوالہ جات کثرت سے نظر آتے ہیں۔ ان کی نثر کا عمومی انداز یہ تھا کہ وہ کسی بھی بات کو بیان کرنے سے پہلے ایک فضا تخلیق کرتے، جس میں قاری کو کسی نئی سائنسی تھیوری یا فلسفیانہ فکر کا عکس دکھائی دیتا۔ ان کی تحریروں کا یہ انداز نہ صرف ان کے وسیع مطالعے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ قاری کو علم کی نئی دنیا میں داخل ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ڈاکٹر اسد عباس عابد کی یہ کتاب” کلیات نثر شہزاد احمد”اردو ادب میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف شہزاد احمد کی نثر کو محفوظ کرنے کی ایک اہم کاوش ہے بلکہ ان کی شخصیت اور فکر کو سمجھنے کے لیے ایک مستند حوالہ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب شہزاد احمد کی شخصیت، ان کے علمی و ادبی کارناموں اور ان کی فکری گہرائی کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ مستقبل میں یہ کتاب شہزاد شناسی کے حوالے سے ایک معتبر اور ناگزیر ماخذ کے طور پر تسلیم کی جائے گی اور اردو ادب کے قارئین اور محققین کے لیے ایک قیمتی خزانہ ثابت ہوگی۔
تبصرہ نگار:منیر عباس سپرا
پی ایچ ڈی سکالر،شعبہ اردو
Asad Abbas Abid
Munir Abbas Sipra