Daily Roshni News

کلیفورنیا امریکا ہی نہیں دنیا کا ایک امیر ترین ریاست ہے

کلیفورنیا امریکا ہی نہیں دنیا کا ایک امیر ترین ریاست ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کلیفورنیا امریکا ہی نہیں دنیا کا ایک امیر ترین ریاست ہے، جس کا رقبہ 423,970 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا جی ڈی پی 2024 میں 4.080 ٹریلین ریکارڈ ہوئی، جو دنیا کی چوتھی بڑی اکانومی ہے، یہ اگر ملک ہوتی تو جرمنی اور جاپان کے ہم پلہ ہوتی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا جی ڈی پی حجم 341 بلین ڈالر ہے جو 195 ممالک کے فہرست میں 43 ویں نمبر پہ ہے۔

کیلیفورنیا امریکہ کا سب سے گنجان آباد ریاست ہے، جس کی آبادی 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق 38.9 ملین ہے، یہ اگر ایک ملک ہوتا تو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس کا نمبر 38 واں ہوتا۔ کیلیفورنیا کے خوبصورت اور حیرت انگیز شہروں میں لاس اینجلس، سان فرانسیسکو، سان ڈیاگو، سیکرامینٹو ( کیلیفورنیا کا دارالحکومت)  آکلینڈ  اور لانگ بیچ وغیرہ شامل ہیں۔

ان میں سب سے مشہور نام  لاس اینجلس (Los Angeles)

کا ہے جہاں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس سٹی کا رقبہ 1300 مربع کلومیٹر ہے، اس کے مقابلے میں لاہور کا رقبہ 1772 مربع کلومیٹر ہے۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی 3.99 ملین تھی، اس کے مقابلے میں کراچی کی آبادی 14.9 ملین، لاہور کی 11.3 ملین، فیصل آباد کی 3.2 ملین اور راولپنڈی کی  آبادی 2.1 ملین تھی۔

یہ شہر ہالی وڈ کے فلموں کے وجہ سے ذیادہ نمایاں ہے، پھر یہاں خوبصورت مقامات ، جیسے ہالی ووڈ، بیورلی ہلز، سانتا مونیکا اور وینس جیسے ساحلوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً 3,979,576 افراد پر مشتمل ہے، یہ مسلمانوں کے دوسری بڑی آبادی والا سٹیٹ ہے، جہاں مسلمانوں کے آبادی 500,000 تک ہے۔

یہاں اہم اداکاروں اور کئی امیر ترین افراد کے گھر ہیں، مثلاً ہالی ووڈ اداکارہ Taylor Swift، بین افلک، گلوکارہ لیزو (Lizzo) ،مشہور گلورہ اریانا (Rihanna)، وہی گلوکارہ جن کو امبانی نے شادی میں پرفارم کرنے پر نو دس ملین ڈالر ادا کئے تھے۔ اس کے علاوہ دنیا کے امیر ترین شخص اور امیزان کے مالک Jeff Bezos کا گھر بھی یہی ہے۔

لاس اینجلس کے علاقے میں حالیہ جنگل کی آگ میں کم از کم ایک چرچ، (کارپس کرسٹی کیتھولک چرچ) تباہ ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ الٹادینا کمیونٹی چرچ بھی متاثر ہوا ہے، ساتھ ہی قریبی مسجد التقوی اور ایک آرمینیائی عیسائی سکول بھی مکمل طور پر متاثر ہوچکا ہے۔ لاس اینجلس فائر ڈپارٹمنٹ کا اندازہ ہے کہ آگ نے تقریباً 300 عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے۔

امریکی لوگ پہلے سے یہاں کے آگ ہسٹری سے باخبر ہیں، کیونکہ کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، 1889 کی سینٹیاگو کینین فائر (Santiago Canyon Fire) سب سے قدیم ریکارڈ شدہ جنگل کی آگ ہے، جس نے جنوبی کیلیفورنیا میں تقریباً 300,000 ایکڑ اراضی کو جلائی تھی۔ اس کے بعد کئی آگ لگنے کی واقعات رونما ہوئے۔ مثلاً

▪️مٹیلیجا فائر (The Matilija Fire) 1932 میں لگی تھی، جس نے وینٹورا کاؤنٹی میں تقریباً 220,000 ایکڑ اراضی کو جلائی تھی۔

▪️دی گریفتھ پارک فائر (The Griffith Park Fire)

کا واقع 1933 میں پیش آیا، نتیجے میں 29 اموات ہوئی۔

▪️دی ٹنل اک لینڈ ہل فائیر (The Tunnel-Oakland Hills Fire) ، یہ آگ 1991 میں لگی تھی جو 25 اموات کا سبب بنی، اس میں 2,900 عمارات کو تباہ کر دیا۔

▪️دی کیمپ فائیر (The Camp Fire) یہ آگ 2018 میں بھڑک اٹھی تھی، جس کے نتیجے میں 85 اموات ہوئیں اور 18,000 سے زیادہ عمارات تباہ ہوئے۔

▪️2020 میں پھر سے آگ لگی جس میں 4.3 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبہ جل گیا۔ 

آخر کلیفورنیا میں آگ لگنے کی اسباب کیا ہیں؟

یہاں خشک موسم میں ہمیشہ آگ کا خطرہ رہتا ہے۔ یہ ایک نیچرل فینامینا ہے جیسے ہمارے ہاں بھی جو سیلاب و ذلزلہ آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، انسانی سرگرمیاں کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ کی ایک اہم وجہ ہے، اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی جنگل کی آگ کے خطرے کو بڑھا رہی ہے۔

لیکن چونکہ امریکی قوم محنتی اور ذہین ہے، پھر ان میں یکجہتی اور ہمدردی بھی موجود ہے اور ان کے پاس وافر مقدار میں وسائل بھی موجود ہیں لہذا یہ لوگ بہت کم وقت میں ہی  پرانی سے کہیں بہتر شہر تعمیر کریں گے۔ لیکن ہمارے ہاں خدانخواستہ اسی لیول کی تیز آگ بھڑک جاتی تو کتنے لوگ لقمہ جل بنتے اور بحالی کا کام کب تک لٹکتا رہتا ؟  بشکریہ ڈاکٹر سراج سواتی۔۔۔

Source Abdul Latif Shah

Loading