کوئی غریب کسی مال دار سے نفرت کیوں کرتا ہے
تحریر۔۔۔ حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ تحریر۔۔۔ حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ )سوال:-کوئی غریب کسی مال دار سے نفرت کیوں کرتا ہے جب کہ مال دار کو سب لوگ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مال کی وجہ سے معاشرے میں اس کی عزت ہوتی ہے
جواب:-غریب کو مال دار ہونے تک چار زندگیاں چاہئیں ۔ پھر بھی وہ نہیں ہو سکتا ۔ نہ اُس کے پاس وہ وسائل ہیں اور نہ اس کے پاس وہ راستہ ہے ۔ اس کے لیے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ مال دار کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے ۔ کیونکہ یہ مال دار ہیں ۔ حتٰی کہ جب راستے پر چلتی ہوئی گاڑی اگر پانی کے اوپر سے گزرے اور کوئی چھینٹ پڑ جائے تو سب مال داروں کو وہ Pedestrian گالی دے گا ۔ اور اس طرح علیٰ ہٰذا القیاس ۔ صرف ایک مال دار عزت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے جو مال کے ذریعے فیض کا مضمون کھولے ، خدمتِ خلق کا مضمون کھولے
گنگا رام کو آپ جتنا بُرا بھلا کہو وہ فیض کا ایک نظام قائم کر گیا ۔ ہمارے ہاں جو جمع کرنے والے مال دار لوگ ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ مال کس طریقہ سے آیا ہے
مال کبھی سخت دلی کے بغیر نہیں آ سکتا ۔ نرم دل انسان کے پاس مال آ نہیں سکتا یا اس کے پاس جمع نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ جہاں بھی ضرورت دیکھے گا ، درد اور تکلیف دیکھے گا تو جو اس کے پاس ہے وہ تکلیف کو رفع کرنے کے لیے خرچ کرنے کو تیار ہو جائے گا ۔ یہ ضروری ہے کہ مال جو ہے انسان کو سنگ دل بنا دیتا ہے ۔
یہ واضح ہے کہ مال کی محبت ”الھٰکم التکاثر حتٰی زرتم المقابر“ غافل کر دیا تجھ کو کثرتِ مال نے حتٰی کہ تم قبروں میں جا گرے ۔ تو مال کی محبت انسان کو کمزور کر دیتی ہے اور اپنے آپ میں وہ بزدل Feel کرتا ہے بلکہ Insecure سا Feel کرتا ہے ۔ Insecure آدمی جو ہے محسوس کرتا ہے کہ وہ عزت والا نہیں ہے
عزت کا مضمون یہ نہیں ہے ، عزت تو Security میں ہے یا Sterling Value کی کوئی چیز ہو ۔ مال کے اندر بذاتِ خود آنا جانا لکھا ہوا ، دولت ٹھہرتی نہیں ہے ، یہ دھوپ چھاٶں والا معاملہ ہے
مال دار نے اپنے سے زیادہ مال دیکھا تو وہ خود بخود غریب ہو گیا چاہے اس کے پاس نسبتاً اور مقابلتاََ اس کا اتنا مال رہ گیا ہو ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی معاشرہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جہاں کثرتِ مال باعثِ عزت ہو؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کہیں کوئی ایسا معاشرہ ہوا نہیں ہے جہاں کثرتِ مال عزت کا باعث ہو ۔ دنیا میں ، ماضی کے اندر جتنے بھی پسندیدہ اسماء آئے ، مفکرین ہوں یا کوئی اور لوگ ہوں وہ تمام کے تمام مال کے علاوه تھے
پیغمبروں کو دیکھ لیں ، مفکروں اور Social Reformers کو دیکھ لیں ، سارے کے سارے مال دار تھے ، بہت کم لوگ ایسے تھے جو مال دار بھی تھے اور مفکر بھی تھے ۔ ورنہ فکر جو ہے یہ وہاں نہیں پلتا ، یہ دِیا وہاں نہیں جلتا
یہ وہی گُل ہے کھِلتا ہے بیابانوں میں
راس آتا نہیں رہنا جسے ایوانوں میں
مال والے کے ہاں نہیں ٹھہرتا ۔ مال کی محبت جو ہے افکار کو ختم کر دیتی ہے ۔ جہاں مال کی محبت ہو وہاں اور کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی کیونکہ وہاں تو آہِ سحر گاہی ، اپنا فکر اور دوسروں کا فکر ، ہمدردی ، Sympathise ہوتے ہیں ۔ مال میں تو سختی ہو جائے گی ، مال میں فرعونیت کرے گا ، مال تکبر پیدا کرے گا اور غرور پیدا کرے گا ۔ جہاں تکبر پیدا ہو گا وہاں انسان اپنی نظروں میں عزت والا نہیں ہو گا ۔ اگر کوئی معاشرہ مال دار ہو جائے تو اس کو دوسرا معاشرہ جا کے Hit کرے گا ۔ جس طرح کہ یہودی معاشرہ ہے ، وہ شر پسند ہو گا اور دنیا کے اندر کوئی نہ کوئی فساد مچائے گا، اسلحہ سے یا جنگ سے یا کسی اور طریقے سے فساد مچائے گا ۔ شدتِ مال یا شدتِ محبتِ مال جو ہے یہ لامحالہ انسان سے محبت کی نفی ہے کیونکہ یہ اپنی ذات کی تسکین ہے بلکہ غرور کا مقام ہے ۔ اس طرح وہ انسان کی محبت سے رہ جاتا ہے ۔ مال کا ہونا ، بُری چیز نہیں لیکن مال دار بننے کی خواہش بُری ہے ۔ اس سے غرور اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے ۔ آپ دیکھیں کہ کس جگہ پہ ایسا ہوا کہ نہیں ہوا ۔ ہمیشہ ہی ہوا ہے ۔ دنیا میں ایسا معاشرہ کبھی ہوا ہی نہیں کہ مال کی وجہ سے اس میں عزت ہو ۔ وہ اپنی نگاہ میں کرتے ہیں ، باقی تو یہ ہے کہ اسی معاشرے میں مال والے سے Hate کرنے والا پورے کا پورا گروہ پیدا ہو جائے گا ۔ وہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا ، توڑنے کی کوشش کرے گا اور جب موقع ملے گا اُسے توڑ دے گا ۔ اس لیے مال بذاتِ خود ایک Insecurity ہے اور اس میں اندیشہ ہی اندیشہ ہے ۔ جہاں جتنا زیادہ مال ہو گا وہاں اتنا زیادہ اندیشہ ہو گا ۔ مال دار اپنے مال کو استعمال کرے گا اور جو کم مال دار ہے اس کی نگاہ میں اس کی عزت نہیں ہو گی ۔ وہ کہے گا کہ اس نے وسائل روکے ہوئے ہیں اور یہ فلاں سکول میں اور کالج میں بچے پڑھاتا ہے ، اس کے پاس وسائل بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ بات چلتے چلتے کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے ۔ دنیا میں عزت والی چیزیں مکمل ہو چکی ہیں ، یہ سب آ چکا ہے ، کہ عزت افکار سے ہے ، عزت جو ہے ایمان سے ہے ، عزت اعمال سے ہے ، عزت ہمدردی سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی کا نام بدلنا یا اسے نئے سرے سے Define کرنا کہ عزت والی کیا چیز ہوتی ہے ، میرا خیال ہے کہ یہ بڑی مشکل بات ہے
قابلِ عزت کون لوگ ہوتے ہیں؟ یہ تو نئے سرے سے Define نہیں کرنا ۔ عزت والا کون ہے؟ یہ تو دنیا میں Define ہو چکا ہے ۔ آج تک دنیا میں جتنے علوم آئے ہیں انہوں نے بہت زیادہ Definition دے دی ہے کہ عزت یا Respect کیا ہوتی ہے ، کن لوگوں میں ہوتی ہے اور کن لوگوں میں ہونی چاہیے ۔ اس کی تعریف ہو چکی ہے یہ کون آدمی عزت والا ہے اور کن نگاہوں میں اس کی عزت ہونی چاہیے ۔ وہ اپنی نگاہ میں عزت والا ہے؟ مالک کی نگاہ میں عزت والا کون ہے؟یا سماج میں عزت والا ہے؟ اور سماج بھی کون سا؟ سماج بذاتِ خود عزت والا ہونا چاہیے ۔ اگر عزت والے سماج میں عزت ہے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آدمی عزت والا ہے ۔ ورنہ سماج کے اندر اگر بُرائی زیادہ ہے تو بُرائی کے اندر یہ پیسہ Instrumental ہے ۔ اس لیے عزت کی تعریف کرنی پڑے گی کہ عزت کیا چیز ہے اور عزت والا کون ہوتا ہے اور عزت کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں ، کن نگاہوں میں وہ معزز ہے کیا وہ ”عین الخلائق “ میں معزز ہے؟پیسے والا ”عین الخلائق“ میں کبھی معزز نہیں ہوا ، کہ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔ مال دار تو ایک گروہ ہے جو ایک دوسرے کو Dominate کرنے والا یا ڈرانے والا یا طاقت استعمال کرنے والا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیسہ آج تک ایک قوت کے طور پر تو استعمال ہوا ہے لیکن عزت کا ذریعہ نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(گفتگو والیم 28 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ نمبر 184 ، 185 ، 186 ، 187)
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ