Daily Roshni News

کوانٹم الجھاؤ کے اٌسرار۔۔۔ تحریر: محمد یاسین خوجہ

کوانٹم الجھاؤ کے اٌسرار

تحریر: محمد یاسین خوجہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کوانٹم فزکس، ایک بہُت پیچیدہ اور مشکل ترین سائنسی شعبہ ہے

یہ کائنات کے کچھ انتہائی پراسرار کوانٹم مظاہر کی تشریح کرتی ہے اور بعض اوقات تاریک مادے (Dark Matter) اور تاریک توانائی (Dark Energy) کے رویوں کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ھوتی ہے۔ یہ ذرات (Particles) اور ایٹموں (Atoms) کے طرزِ عمل اور باہمی تعامل کا مطالعہ کرتی ہے۔ یہ وہ بنیادی اجزاء ہیں جن سے ہم اور ہمارے ارد گرد کی ہر چیز بنی ہوئی ہے۔

اگر کلاسیکل فزکس (Classical Physics) ہماری روزمرہ کی زندگی کے اصول بیان کرتی ہے، تو کوانٹم دنیا ایک یا ایک سے زیادہ کائناتوں کی مانند ہے۔

کلاسیکل فزکس ایک پیش گوئی کے قابل نظام ہے، جہاں اگر آپ ایک سیب کو میز پر رکھیں تو وہ وہیں رہے گا، جب تک کہ اسے حرکت دینے والی کوئی قوت عمل میں نہ آئے۔

لیکن کوانٹم دنیا میں، نہ صرف یہ سیب مریخ پر پہنچ سکتا ہے، بلکہ نظریاتی طور پر یہ ایک ہی وقت میں میز پر اور مریخ پر بھی موجود ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ کائنات کے کسی بھی کونے میں موجود دوسرے سیب کے ساتھ الجھ بھی سکتا ہے۔

یوں کوانٹم دنیا میں حقیقت (Reality) زیادہ غیر یقینی (Uncertain) اور متنوع (Multiple Outcomes) ہوجاتی ہے۔

اور یہ ایسے عجیب و غریب  مظاہر سے بھرپور ہے اور شاید

کوانٹم الجھاؤ (Quantum Entanglement) اس کے سب سے پراسرار اور پیچیدہ مظاہر میں سے ایک ہے۔ یہ مظہر  عام سائنسی افراد کیلئے تو حیران کن ہے ہی مگر یہ ماہرینِ طبیعیات کے لیے بھی ایک دردِ سر بن جاتا ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی اسے مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام ہے تو یہ حیرت اور پریشانی کی بات نہیں۔۔۔

(اتنے مشکل موضوع پر لکھتے ہوئے اگر مجھ سے غلطیاں ہوجائیں تو میری اصلاح ضرور کیجئے گا)

 اس مظہر میں دو ذرات بظاہر وقت اور فاصلے کی قید سے آزاد ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک ذرّے کی حالت (State) میں کوئی تبدیلی آتی ہے، تو دوسرے ذرّے کی حالت بھی فوراً متاثر ہوتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔ یہ فوری اثر وقت اور فاصلے کی حدود سے بالاتر نظر آتا ہے، گویا کوانٹم دنیا میں بعض اوقات اثر، علت (Cause) سے پہلے آ سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوانٹم الجھاؤ اصل میں ہے کیا؟؟؟

کوانٹم فزکس کہتی ہے کہ ایک ہی ماخذ (origin)سے تعلق رکھنے والے

 دو یا زیادہ کوانٹم ذرات (جیسے الیکٹران یا فوٹون کے جوڑے) ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہتے ہیں (جب تک کہ کسی اور ذرے سے نہ ٹکرائیں)چاہے وہ ایک دوسرے سے جتنا دور ہوجائیں وہ ایک متحدہ نظام یا اکائی کی طرح عمل کرتے ہیں۔ اور ان میں سے کسی ایک ذرے کی حالت جاننے یا ماپنے سے دوسرے ذرے کی حالت فوراً متاثر ہو سکتی ہے…

اگر ایک ذرہ فوراً دوسرے جُڑے ہوئے ذرّے کی حالت کو متاثر کر سکتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اثرات روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ بات آئن سٹائن کے نظریات اور سادہ نیو ٹونین فزکس کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی۔ جس میں معلومات یا اثرات روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں ہو سکتے۔۔۔اور یہ بھی ایک معمہ ہے کہ یہ ذرات اتنی دوری کے باوجود کیسے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

کیونکہ کوانٹم الجھاؤ میں بظاھر لمحات میں معلومات اربوں میل دور منتقل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مثال کے ذریعے وضاحت:

فرض کریں کہ آپ کے پاس دو ایک ہی وقت اور جگہ میں بنے ہوئےسکے ہیں اس وجہ سے ان میں ایک ربط یا الجھاؤ موجود ہے اور آپ انہیں دو مختلف شہروں میں بھیج دیتے ہیں؛ ایک لاہور اور دوسرا کراچی۔  لاہور میں موجود سکہ اچھالا جاتا ہے اور یہ “Heads” آتا ہے۔

توکراچی میں موجود سکہ اتنی دوری پر ہوتے ہوئے اور کسی ظاہری یا پوشیدہ عمل کے بغیر فوراً “Tails” بن جاتا ہے

یہی کوانٹم الجھاؤ ہے مگر یہ ‘سب ایٹمک” ذرات  فوٹونز، الیکٹرونز  یا دیگر کوانٹم ذرات کے درمیان ممکن ہے، کسی بڑے جسم میں نہیں

یہ مثال صرف اسکی وضاحت کیلئے ہے

کیونکہ بڑا جسم کروڑوں اربوں کوانٹم ذرات کا حامل ہو سکتا ہے جس میں ایسا الجھاؤ آنا ممکن نہیں۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر الیکٹران میں گھماو(spin) کی خاصیت ہوتی ہے، اُس پر برقی چارج بھی ہوتا ہے یہ خصوصیات اسے ایک ننھے مقناطیس کی طرح بناتی ہیں۔۔ الیکٹران کے گھماؤ کو برقی مقناطیسی میدان کے ذریعے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔

فرض کریں ہم دو الیکٹرونز کا ایک جوڑا لیتے ہیں جن میں ربط یا الجھاؤ موجود ہے

کوانٹم ذرات ہمیشہ ایک مخصوص “مطابقیت” (Correlation) میں ہوتے ہیں۔

اب اگر ہم ایک الیکٹران کا گھماؤ ناپتے ہیں اور وہ “اوپر” (Up) کی حالت میں ہے، تو دوسرے الیکٹران کا گھماؤ فوراً  “نیچے” (Down) کی حالت میں  ہوجائےگا، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو

اس سے پہلے یہ الجھا ہوا جوڑا کوانٹم میکینکس کے ایک اور ناقابلِ یقین مگر تجربوں سے ثابت شدہ مظہر، سپرپوزیشن (Superposition) میں تھا

پیمائش سے پہلے، ایک الیکٹران یا کوئی بھی کوانٹم ذرہ بیک وقت کئی ممکنہ حالتوں میں ہوسکتا ہے۔

یعنی کوانٹم ذرات کی سپین بیک وقت اوپر اور نیچے ہوتی ہے یہ کیفیت سپر پوزیشن کہلاتی ہے

لیکن جیسے ہی ہم پیمائش کرتے ہیں، وہ کسی ایک مخصوص(حتمی) حالت کو اختیار کر لیتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1935 میں آئن اسٹائن، بورس پوڈولسکی، اور ناتھن روزن نے “EPR پیپر” کے ذریعے کوانٹم الجھاؤ کے تصور کو چیلنج کیا۔ آئن اسٹائن نے اسے طنزیہ انداز میں “spooky action at a distance” (فاصلے سے ہونے والا پراسرار عمل) کہا…

1964 میں جان بیل (John Bell) نے ایک ریاضیاتی اصول پیش کیا، جسے “بیل تھیورم” کہا جاتا ہے۔ اس نے تجرباتی بنیادوں پر کوانٹم الجھاؤ کو ثابت کرنے کی راہ ہموار کی۔

1981 میں ایلن اسپیکٹ (Alain Aspect) نے ایک تجربہ کیا جس میں یہ ثابت ہوا کہ الجھے ہوئے کوانٹم ذرات کی حالتیں واقعی ایک دوسرے پر فوری اثر انداز ہوتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کوانٹم الجھاؤ اب تو سائنس و ٹیکنالوجی میں عملی طور پر استعمال ہونے لگا ہے جیسے

  1. روایتی کمپیوٹروں کے مقابلے میں کوانٹم کمپیوٹر کہیں زیادہ طاقتور ہو سکتے ہیں۔
  2. کوانٹم کمیونیکیشن ٹیکنالوجی انتہائی محفوظ معلومات کی ترسیل ممکن بناسکتی ہے۔
  3. کرپٹوگرافی میں کوانٹم اصولوں کے ذریعے ڈیٹا کو زیادہ محفوظ بنایا جا سکتا ہے، جسے ہیک کرنا تقریباً ناممکن ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوانٹم الجھاؤ کچھ سوالات بھی پیدا کرتا ہے

جیسے

کیا کائنات میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے؟

کیا یہ مظہر نیوٹونین فزکس کے اصولوں کی مکمل نفی کرتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی حد درجہ پیچیدگی کے باوجود

یہ تصورسائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر رہاہے، یہ ہمیں کائنات کی گہرائیوں میں جھانکنے اور بہُت سے اسرار کھولنے میں مددگار بن سکتا ہے۔  اسے مکمل طور پر سمجھنے کے لیے شاید ہمیں کائنات کے قوانین کو ایک بالکل نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔

 شاید کوانٹم فزکس کے بغیرہماری فہم و فراست کائنات کی اصل حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں بن سکتی۔۔۔۔۔

۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#محمدیاسینـخوجہ

#کوانٹمـالجھاؤ

Loading