Daily Roshni News

کیا ہمارا دل سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ راہول

کیا ہمارا دل سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

تحریر۔۔۔ راہول

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ کیا ہمارا دل سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ راہول)جسم میں ہونے والی ساری کارکردگی کا کنٹرول سینٹر دماغ ہے۔ یہاں تک کہ دیکھ پانا، سن پانا، لمس کو محسوس کر پانا وغیرہ بھی دماغ کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ہمارے sense organs (حواس) کا کام صرف ماحول سے ڈیٹا جمع کرنا ہے، مثلاً دیکھنے کیلئے آنکھیں لائٹ کی formمیں ڈیٹا کلیکٹ کرتی ہیں، سننے کیلئے کان ہوا کے مالیکیولز کی vibration (یعنی آواز) کے data کو collect کرتے ہیں، وغیرہ۔بالآخریہ سارا ڈیٹا دماغ تک پہنچتا ہے اور پھر وہاں اس کی پراسیسنگ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ہم دیکھ، سن، وغیرہ پاتے ہیں۔

اور دماغ کے مختلف حصے ان مختلف حواس کے ڈیٹا کی پراسیسنگ کیلئے مختص ہوتے ہیں، اس لئے اگر، مثال کے طور پر، دماغ میں visual system والے حصے تباہ ہو جائیں، تو آنکھیں ہونے کے باوجود دیکھا نہیں جا سکے گا۔

پرانے زمانوں میں جب بیالوجی سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی تھی، یعنی جب دماغ کی اہمیت اور اس کے فنکشنز سے واقفیت نہیں ہوئی تھی، تو یہ غلط نتیجہ نکال لیا گیا کہ ایموشنز کا تعلق دل سے ہے (اور اس کے بعد لٹریچرز یعنی ادب، خاص طور پر شاعری میں کیا ہوا، اس کا علم سبھی کو ہے) جب کہ آج ہم جانتے ہیں کہ دل کا کام صرف و صرف جسم کے سارے cells (خلیوں) تک bloodکی pumping کے ذریعے Oxygenپہنچانا ہے۔ اس غلط نتیجہ نکالنے کی وجہ یہ تھی کہ مختلف قسم کے ایموشنزہمارے ہارٹ ریٹ (یعنی ایک سیکنڈمیں کتنی بار دل دھڑکتا ہے) کو اثر انداز کرتے ہیں۔(جب کہ دماغ کے ٹشوز میں pain receptors تک نہیں ہوتے یعنی دماغ درد کو محسوس نہیں کر سکتا)

اصل میں ہوتا یوں ہے کہ دماغ کے ایک مخصوص قسم کے سیلزجن کو نیورانز کہا جاتا ہے، وہ ایک دوسرے کو سگنلزبھیجنے کیلئے مختلف کیمیکلز کے مالیکیولزبھیجتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر signaling ہوتی ہے نیوروٹرانسمیٹر کے ذریعے، جو کہ کئی مختلف طرح کے مالیکیولزہوتے ہیں۔لیکن نیوروٹرانسمیٹر کے علاوہ ایک اور خاص قسم کے مالیکیولز، جن کو Neuromodulators کہتے ہیں، وہ بھی نیورانزکے درمیان ٹرانسفرہوتے ہیں۔ان Neuromodulators میں ایک Dopamineہے۔جب ڈوپامن خارج ہوتا ہے، تو ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے؛ اسی طرح دوسرے مختلف Neuromodulatorsمختلف کارکردگی اور ایموشنزکے احساس کے لئے اہم ہوتے ہیں۔ یہی Neuromodulators (جب ہم کوئی مخصوص ایموشنز کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں تو) indirectly ہمارے ہارٹ ریٹ کومتاثر کرتے ہیں۔

دل میں بھی نیورانز موجود ہوتے ہیں لیکن ان نیورانز کی تعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ “سوچنے” کے پیچیدہ عمل کو سرانجام دے سکیں۔ دماغ میں کھربوں نیورانز ہوتے ہیں۔ لیکن ہر نیورانز کے پاس “سوچنے” کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

(سوچنا ہم کسے کہتے ہیں اس کو سمجھنے کے لئے Philosophy of Mindکے مطالعے کی ضرورت پڑے گی) “سوچنا” biological سطح پر ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے جو نیورانز کے انتہائی پیچیدہ نیٹ ورکس اور (اس سے بھی اہم) ان نیورانزکے نیٹ ورکس کی وجہ سے وجود میں آنے والے کئی سارے اعصابی نظاموں کے مجموعوں اور ان کے باہمی تعاملات کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔

دل کے نیورانز کی تعداد دماغ کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے (دل میں کچھ دس ہزار نیورانز ہوتے ہیں)۔اس لئے دل کے نیورانز صرف اس طرح کے سادہ عمل سرانجام دے سکتے ہیں جو کسی آٹومیٹک مشین کی digital circuitryکے اندر موجود مائیکرو کنٹرولر سرانجام دیتا ہے۔ دل کے نیورانز کا کام بنیادی طور پر دل کے مالیکیولز کی حرکت کو کنٹرول اور ریگولیٹ کرنا ہے، جس کا سوچنے یا محسوس کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک دلیل جو لوگ پیش کرتے ہیں اس بارے میں کہ دل بھی سوچتا ہے، وہ یہ ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ سائنس ابھی تک شاید اس بات کو دریافت نہیں کرسکی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں سائنس یہ دریافت کرلے کہ دل بھی سوچنے کے عمل میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتا ہے۔تو عرض یہ ہے کہ اگر تو ہمیں دل کی anatomyاور physiology کا علم نہیں ہوتا (جیسا کہ پچھلے زمانے میں نہیں تھا)، تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ ممکن ہے دل بھی Cognitive Processing کے عمل میں کوئی کردار ادا کرتا ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے؛ ہمیں ان باتوں کے بارے میں اب معلوم ہے۔ اس لئے مستقبل میں سائنس کس چیز کو غلط ثابت کردے گی یا کیا نیا دریافت کرلیگی، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو ایک مضبوط دلیل بنا کر یہ کہا جا سکے کہ “ہوسکتا ہے سائنس کل کو یہ دریافت کر لے، یا سائنس اس بات کو غلط ثابت کردے، یا اس بات کو صحیح ثابت کردے”۔

سائنس کی دریافت کردہ ہر چیز کے بارے میں یہ دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کی وجہ یہ کہ، اکثر سائنسی موضوعات میں، مستقبل میں سائنس کیا معلوم کریگی، اس بات کا بہت حد تک اس بات پر انحصار ہوتا ہے کہ اب تک سائنس نے ان مخصوص موضوعات کے بارے میں کیا حقائق معلوم کر لئے ہیں۔

مثلاً، Sean Carroll (جو کہ ایک مشہور Physicist ہیں) نے ایک بار ایک لیکچرمیں یہ بات کہی کہ حالانکہ ہمیں کائنات کے بارے میں بہت کچھ جاننا باقی ہے، لیکن چند چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم اب وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سائنس کی دریافت کردہ مسلمہ حقیقتیں ہیں۔Carroll نے پھر ایٹم کی بناوٹ کی بات کی کہ حالانکہ اب نئے ذرات ہم شاید دریافت کرتے رہیں گے، لیکن یہ بات اب ثابت شدہ ہے کہ ایٹم کے بنیادی ذرات Electrons ، Protons اور Neutrons ہی ہیں۔کل کو جو بھی نئی تھیورنز آئیں گی، وہ ایٹم کی بناوٹ کے بارے میں ان ہی ثابت شدہ حقیقتوں کو اپنے اندر شامل کرتے ہوئے مزید وضاحت پیش کریں گی یعنی اب آگے آنے والی دریافتیں ایسی نہیں ہونگی جو یہ کہہ دیں کہ الیکٹرانز ،پروٹانز اور نیورانز کا وجود سرے سے ہے ہی نہیں ہے، (یا الیکٹرک کرنٹ میں الیکٹرانز نہیں بلکہ کوئی اور ہی ذرات ہوتے ہیں یا current ایک طرح کا liquidہے وغیرہ)۔ یا ایٹم ان تین ذرات پر مبنی نہیں ہے۔کوئی نئی دریافت یا تھیوری یہ ضرور کر سکتی ہے کہ وہ الیکٹرانزکی ایک ایسی وضاحت پیش کرے جو آج سے پہلے ہمیں معلوم نہیں تھی، اور اس کی چند مثالیں ہمیں سائنسی تاریخ میں نظر بھی آتی ہیں کہ آئن اسٹائن اور خاص طور پر DeBroglie کی تھیوریز سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ الیکٹرانز ذرات ہیں، لیکن DeBroglie کے بعد اب ہمیں معلوم ہے کہ الیکٹرانز نہ صرف ذرات بلکہ لہروں والی فطرت بھی رکھتے ہیں؛ یعنی پچھلی ثابت شدہ بات (یعنی الیکٹرانز کے وجود ہونے) کو بنیاد بنا کر ہی مزید توجیہہ ہوئی (الیکٹرانز کے بارے میں) ۔

اکیسویں صدی کی جس technological دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس کی اہم ترین بنیادوں میں جو اصول کارفرما ہیں ان میں سے ایک الیکٹرانز کی حرکت ہے۔اگر الیکٹرانزکا وجود نہ ہو، تو اس technological دنیا کے ان تمام کرشموں کا وجود بھی ممکن نہیں ہو پائےگا۔ اس لئے الیکٹرانز کا وجود ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس کو مستقبل میں آنے والی کوئی تھیوری یا دریافت ہرگز نہیں جھٹلا سکے گی۔ (کیا سائنس کبھی یہ ثابت کردیگی کہ روشنی کا وجود ہوتا ہی نہیں ہے؟)

ان مثالوں سے یہ باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر چیز کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ سائنس تو بدلتی رہتی ہے، اس لئے ہو سکتا ہے کہ سائنس کل کو اس بات کا رد کر دے، یا فلاں چیز دریافت کرلے۔

دل کا سوچنے کے بارے میں کیا کردار ہے، یہ معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ دل کی anatomyاور physiology کو اتنے اچھے طریقے سے سمجھا جا چکا کہ ہم یہ وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ دل کا سوچنے اور محسوسات وغیرہ میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور وہ کام صرف و صرف دماغ کا ہے۔

اس لئے اگر میں اس بات پر یقین رکھوں کہ ہم دل سے بھی سوچتے ہیں، اور میں یہ امید لگالوں کہ آنے والے وقت میں سائنس میرے اس یقین کو ضرور ثابت کردے گی، پھر تو مجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ نیورانز دماغ کے علاوہ نہ صرف دل میں بلکہ آنتوں اور غدود وغیرہ میں بھی ہوتے ہیں، تو چونکہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دل سوچتا ہے، پھر تو مجھے یہ بھی امید لگا کے بیٹھ جانا چاہیے کہ کل کو سائنس ہمیں بتا دے گی کہ ہمارا دل بھی سوچتا ہے، اور ہمارے غدود بھی سوچتے ہیں، اور ہماری آنتیں بھی سوچتی ہیں، وغیرہ۔ یہ تو ایسی بات ہوگی کہ (فرض کریں) میں اس بات پر پکا یقین رکھتا ہوں کہ “لمبے کی عقل ٹخنوں میں” (تمام لمبے قد والے لوگوں سے بہت بہت معذرت) اور میں پھر یہ امید لگا کر بیٹھ جاؤں کہ کل کو کبھی نہ کبھی سائنس یہ ثابت کرکے دکھا دے گی کہ لمبے لوگوں کی عقل ٹخنوں میں ہی ہوتی ہے، صرف اس لئے کہ میرا اس بات پر مسلمہ یقین ہے، تو میری ایسی امید رکھنا پھر صرف “دل کو بہلانے” اور حقیقت سے منہ موڑنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

Loading