Daily Roshni News

کیفیات مراقبہ

کیفیات مراقبہ

دوران  ِمراقبہ مختلف کیفیات کا احوال

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیفیات مراقبہ)ان صفحات پر ہم مراقبے کے ذریعے حاصل ہونے والے مفید اثرات مثلا ذ ہنی سکون، پر سکون نیند ، بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ وغیرہ کے ساتھ روحانی تربیت کے حوالے سے مراقبے کے فوائد بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ نے مراقبے کے ذریعے اپنی شخصیت اور ذہنی کیفیت میں مثبت تبدیلی محسوس کی ہے تو صفحات کے ایک طرف تحریر کر کے روحانی ڈائجسٹ کے ایڈریس پر اپنے نام اور مکمل پتے کے ساتھ ارسال کر دیجیے ۔ آپ کی ارسال کر دہ کیفیات اس کالم میں شائع ہو سکتی ہیں۔

کیفیات مراقبہ

دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار بہتر طریقے سے کرنے کی خواہش اکثر لوگوں میں ہوتی ہے۔ لوگ اپنی زندگی کے گول کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری خواہش بھی کچھ اس ہی قسم کی تھی مگر ذہنی خلفشار کی وجہ سے میرا خود اپنی صلاحیتوں پر سے ہی اعتماد اٹھ گیا تھا۔ مجھ پر یہ خیال غالب رہنے لگا کہ میں زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ کم ہمتی قدم قدم پر میرے لیے مشکلات کا سبب بن رہی تھی ۔ مجھ میں خود اعتمادی بالکل نہیں تھی۔ مجھے لوگوں سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ مجھ پر گھبراہٹ، بے چینی اور مایوسی طاری رہتی تھی۔ اپنے ان محسوسات کے اثرات سے میری صحت بھی خراب ہوتی جارہی تھی۔ پڑھائی میں دل نہیں لگتا، گہری نیند نہیں آتی تھی، مجھ میں آگے بڑھنے کی اُمنگ نہیں رہی تھی۔

البتہ میں خیالی پلاؤ بہت پکاتا تھا۔ خیالوں خیالوں میں خود کو بھی کہیں کا شہزادہ سمجھنے لگتا، کبھی خود کو دنیا کی امیر ترین شخصیت سمجھتا، کبھی فلم اسٹار کی طرح سپر اسٹار بن کر خود کو حسینوں کی فہرست میں دیکھتا۔ جب خیالوں کی دنیا سے باہر آتا تو وہی اُداس اور کم ہمت شخص ہوتا۔

میں تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، بڑے دونوں بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ان کے سامنے بہتر مستقبل تھا مگر والد میری وجہ سے سخت پریشان رہا کرتے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں بھی مستقبل کا کوئی واضح پلان بناؤں اور اسے حاصل کرنے کے لیے جد وجہد کروں، مگر کوشش کے باوجود ناکام رہتا۔ ایک روز والد صاحب میرے لیے ایک کتاب لائے جس کا عنوان تھا ”خود پر اعتماد کیجیے،

خود سے محبت کیجیے ….. عنوان دلچسپ تھا، لہذا کتاب سرسری طور پر پڑھنے کا ارادہ کیا۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں خود سے محبت کے حوالے سے تحریر تھا کیا کوئی شخص خود آپ سے زیادہ آپ کا دوست ہو سکتا ہے …. ؟

 جی نہیں !

آگے تحریر تھا کہ اگر آپ خود اپنے دوست نہیں ہیں تو پھر کوئی بھی آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔ آپ کی اپنی خوشی اور مسرتوں کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود اپنے آپ سے محبت کریں۔ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کریں۔ اگر آپ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا چھوڑ دیں۔ صرف اس لیے کہ آپ کو خود اپنی شکل اچھی نہیں لگتی تو کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے آپ کو خوش شکل سمجھیں گے….؟

نہیں ….! چند روز بعد والد صاحب نے پوچھا کتاب کیسی لگی ….؟

ابو کتاب بہت اچھی ہے۔ اس کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوشش کے ذریعے اعلیٰ مقاصد حاصل کیسے جا سکتے ہیں۔ تو بیٹا تم بھی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی میں بہتری لاونا۔ لیکن اس کے لیے یکسوئی، ارتکاز اور مستقل مزاجی کا ہونا ضروری ہے۔

ابو یہ تمام چیزیں کیسے حاصل کی باسکتی ہیں ….؟

بیٹا میرے ایک دوست نوجوانوں کی کاؤنسلنگ کرتے ہیں۔ کل میں تمہیں ان سے ملواؤں گا۔“دوسرے روز ہم ابو کے دوست سے ملے۔

انہوں نے میری تمام کیفیات بغور سنیں :

یاسر …! تمہیں یکسوئی اور مستقل مزاجی کی سخت ضرورت ہے۔ یکسوئی اور مستقل مزاجی کے لیے کئی مشقیں کی جاسکتی ہیں مگر میرے تجربے کے مطابق مراقبہ یکسوئی اور ارتکاز کے لیے بہترین ہے۔“ مجھے اپنی پریشانی کے ساتھ ساتھ ابو کی پریشانی کا بھی احساس تھا لہذا میں نے مراقبہ کے بارے میں آگہی حاصل کی اور مراقبہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ میں نے دوسرے روز سے ہی مراقبہ کا آغاز کر دیا۔ چند روز تک تو دوران مراقبہ بے سکونی رہی اور بعض اوقات خیال بھی آیا کہ کیا بے وقوفی کا کام کر رہا ہوں …. کسی مشق کے ذریعے زندگی میں کامیابی کیسے آسکتی ہے….؟ مگر ابو کے دوست کی حوصلہ افزائی نے مراقبہ جاری رکھنے میں مدد دی۔ ایک روز مراقبہ میں بیٹھا تو کمرہ نیلی روشنی سے منور ہو گیا۔ مجھ پر روشنی بارش کی طرح گر رہی تھی۔ روشنی سے ذہنی تناؤ میں کمی اور ذہنی سکون میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک روز مرقبہ میں خود کو برف پوش پہاڑوں

کے درمیان پُر فضا تفریح گاہ میں پایا۔ تفریح گاہ میں ایک جھیل تھی جو کہ آدھی برف سے جمی ہوئی تھی۔ اس کا پانی انتہائی ٹھنڈا تھا۔ ایک روز دوران مراقبہ سر کے درمیان سورج کی تیز روشنی محسوس ہوئی مجھے لگا کہ میر اسارا جسم سرد ہے اور اس میں اب حرارت داخل ہو رہی ہے۔ ایک روز مراقبہ میں دیکھا کہ ایک خوبصورت پارک میں ننھے منے بچے اسکول یونیفارم میں کھیل کود میں مصروف ہیں۔ پارک میں بنی پانی کی جھیل میں بطخیں تیر رہی ہیں۔ کئی بچے انہیں خوراک کھلا رہے ہیں، ان سفید بطخوں میں ایک لال رنگ کی بطخ سب بچوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے…. سخت گرمی اور حبس ہے ایسے میں بجلی بھی چلی گئی، پسینہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، آسمان پر سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ کچھ دیر بعد ہی گہرے سیاہ بادلوں نے سورج کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھوکوں کے ساتھ بارش ہونے لگی، آہستہ آہستہ بارش تیز ہوتی گئی۔ بارش نے موسم سرد کر دیا تھا۔ ایک دن مراقبہ کرتے ہوئے دیکھا کہ تقریب میں مجھے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ پہلے میں سوچتا ہوں کہ اتنے سارے لوگوں کے سامنے تقریر کیسے کروں گا۔ ایک شخص میرا بازو پکڑ کر اسٹیج تک لے آیا۔ میں نے ہمت کر کے تقریر شروع کی اور نہ معلوم تقریر میں روانی کہاں سے آئی کہ تقریر کے اختتام پر کئی لوگوں نے کھڑے ہو کر میری حوصلہ افزائی کی۔ ایک روز مراقبہ میں دیکھا کہ پوری فیملی دین کے ذریعے ساحل سمندر تفریح کی غرض جارہی ہے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہوں تمام راستے ہلا گلا رہا۔ سمندر میں خوب نہائے اور سب نے انجوائے کیا۔ اونٹ پر سواری کی، گول گپے کھائے۔ شام کے وقت غروب ہوتے ہوئے سورج کا نظارہ انتہائی دلکش لگ رہا تھا۔

چند ماہ کی مراقبہ مشقوں سے رفتہ رفتہ اعتماد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ میں نے مراقبہ جاری رکھا جس سے ذہنی یکسوئی حاصل ہوئی، ٹینشن اور احساس کمتری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خوف اور ڈر میں کمی آئی ہے۔ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کی وجہ سے زندگی میں آگے بڑھنے کی جستجو بڑھ رہی ہے۔ پہلے کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے بجائے جدوجہد کی خواہش تیز ہوتی جارہی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2017

Loading