کیفیات مراقبہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ان صفحات پر ہم مراقبے کے ذریعے حاصل ہونے والے مفید اثرات مثلاً ذہنی سکون، پر سکون نیند ، بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ وغیرہ کے ساتھ روحانی تربیت کے حوالے سے مراقبے کے فوائد بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
ہمارا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ بچپن بہت اچھا گزرا مگر والد صاحب نے مجھے سخت اور سپر وائزر میں رکھا۔ اس نے میری زندگی اذیت ناک بنادی تھی ۔ جب میں بڑا ہوا تو مجھے اپنی زندگی سوائے مشکلات کے کچھ نہیں لگی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ والد نے مجھے گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ باہر کا ماحول اور حالات خراب ہیں۔ تم گھر میں ہی رہ کر کھیل اور پڑھو۔ ان بے جا پابندیوں کی وجہ سے مجھ میں اعتماد کی کمی ہوتی گئی تھی
میں کسی تقریب میں شریک نہیں ہوتا۔ اگر کبھی لوگوں کے درمیان بیٹھ بھی جاؤں تو منہ سے الفاظ نہیں نکلتے تھے ، زبر دستی بولنے کی کوشش کرتا تو ہکلانے لگتا، باقی لوگ خوب ہنس ہنس کر باتیں کیا کرتے تھے ، لیکن میں ایسا نہ کر پاتا۔ کسی جگہ تین چار آدمی کھڑے ہوں اور کوئی بات کرنی پڑ جائے تو میری زبان لڑکھڑا جاتی اور مجھے رونا آجاتا تھا۔ فقرے صحیح طور سے ادا نہیں کر سکتا تھا۔ باہر نہ نکلنے کی وجہ سے میری صحت بھی متاثر ہوئی تھی۔ میرا قد بھی چھوٹا ہے۔ اس چھوٹے قد کی وجہ سے بھی مجھے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا کہ دوست بناؤں لیکن کوئی بھی مجھے دوست بنانے کو تیار نہیں تھا۔ ان باتوں سے پڑھائی بھی متاثر ہو رہی تھی۔ میری خواہش تھی کہ پڑھ لکھ کر بڑی بڑی بلڈنگوں اور پلوں کے نقشے بناؤں مگر میٹرک کے بعد پڑھائی میں میری دلچسپی کم ہوتی چلی گئی تھی۔ انٹر سکینڈ ایئر کے ایک پیر میں فیل ہو گیا۔ یہ میرا اتنا بڑا جرم بن گیا کہ سب گھر والوں نے مجھے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ والد صاحب بھی مجھے سے خضار بنے لگے۔
پہلے ہی میں احساس کمتری اور اعتماد کی کمی میں مبتلا تھا ، انٹر کے امتحانات میں اس ناکامی سے میرے اندر حسد کا مرض بھی سرایت کر گیا۔ اب کسی پڑھے لکھے ذہین طالب علم یازندگی کی دوڑ میں کامیاب شخص کا میرے سامنے ذکر کیا جاتا تو میرا دل کرتا کہ اس کی کامیابی اس سے چھین لوں۔ زبان سے تو کچھ نہ کہتا مگر اندر ہی اندر جلتا اور کڑہتا رہتا۔ میں تنہائی پسند بھی ہوتا جارہا تھا۔
میری دن بدن بگڑتی ہوئی حالت پر والد صاحب بہت پریشان رہا کرتے۔ انہوں نے کئی ڈاکٹروں سے میر اچیک اپ کروایا۔ حسد مجھ میں اس قدر سرایت کر گیا تھا کہ رفتہ رفتہ دوسروں کے لیے اوتھے جذبات اور قربانی کا جذبہ بے معنی ہو گیا تھا۔ حسد کی وجہ سے دوستوں کی دوستیاں اور رشتوں کی راحتوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ ابا جان میری اس حالت پر سخت متفکر رہا کرتے اور جہاں بھی میری بہتری کے لیے کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی۔ والد صاحب کوشش کر کے مجھے وہاں ضرور لے جاتے۔
ایک روز والد صاحب کے بچپن کے ایک دوست ہمارے گھر تشریف لائے ، یہ صاحب مائنڈ سائنس سے کچھ شغف رکھتے تھے۔ باتوں باتوں میں بابا جان نے میری پریشان کن حالت سے انہیں بھی آگاہ کیا اور بولے۔
” میں اپنے بیٹے کی گرتی صحت ، خاموشی اور تنہائی پسندی سے سخت پریشان ہوں۔ تم میرے بچپن کے دوست ہو ، اب تم ہی کوئی مشورہ دو میں کیا کروں۔“
والد صاحب کے یہ دوست آلٹر نیو تھراپیز اور نفسیات سے بھی خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا اچھا خاصہ مطالعہ تھا۔
میرے والد صاحب الٹرائیڈ تھراپی وغیرہ پر زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے مگر میری حالت کے پیش نظر وہ اس علاج کو آزمانے پر بھی رضا مند تھے۔
والد صاحب کے دوست کچھ دیر خاموش کچھ سوچتے رہے۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور شفقت و محبت سے چند سوالات کیے۔
میرے جوابات کی روشنی میں انہوں نے والد صاحب کو بتایا کہ : آپ کے بیٹے کا اصل مسئلہ منتشر خیالی، ذہنی دباؤ مایوسی، خود پر اعتماد کا نہ ہونا اور ہر چیز کے منفی پہلوؤں پر نظر رکھنا ہے۔
میرے خیال سے ذہنی تناؤ میں کمی لاکر ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ ذہنی تناؤ میں کمی کس طرح لائی جا سکتی ہے…..؟
تو وہ مسکرائے…. بیٹا! میں نے ذہنی تناؤ کے کئی مشقیں آزمائیں مگر مراقبہ سے بہت فوائد سامنے آئے۔ میرے خیال میں ان مسائل کا حل مراقبہ“ سے ممکن ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ
بعض اوقات انسان جب کامیابی حاصل نہیں کر سکتا تو مایوسی اس کے ذہن پر ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ پھر انسان کچھ نہیں سوچ سکتا۔ خود کو حقیر اور دوسروں کو قصور وار سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی زندگی کو کوسنے دینے لگتا ہے کہ میری قسمت میں یہ کامیابی لکھی ہی نہیں یا میں جتنی بھی کوشش کروں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایسا مایوس شخص اپنی تمام کوششیں ختم کر دیتا ہے۔ ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ یوں وہ آگے بڑھنے کی تمام راہیں اپنے لیے گویا خود بند کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم غور کریں تو مایوسی ہمیں کچھ نہیں دیتی۔ مایوسی ایسا زہر ہے جو انسان کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیتی ہے۔ حو فصلوں کے سارے ہنر ضبط کر لیتی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ” میں نے ان انسانی مسائل کے بارے میں کافی پڑھا ہے۔ ذہنی و جسمانی مسائل کے حل کے لیے ماہرین ٹیکسوئی، ارتکاز اور ٹینشن سے نجات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔
اس کے حصول کے لیے مراقبہ سے بہتر میرے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ میں خود بھی مراقبہ کرتا ہوں۔ اس سے مجھے ذہنی و جسمانی بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
میرے والد صاحب سے انہوں نے کہا کہ میرے ایک دوست مراقبہ پر دسترس رکھتے ہیں۔
وہ آلٹر نیو تھراپیز کا ایک انسٹیٹیوٹ چلا رہے ہیں۔ وہاں مراقبہ کی مشقیں بھی کرائی جاتی ہیں۔ میں آپ کے بیٹے کو وہاں لے جانا چاہتا ہوں۔“ میرے والد نے اجازت دے دی۔ میں اپنے مسائل سے بہت پریشان تھا۔ بابا جان کے کہنے پر ان کے دوست کے ساتھ چلا گیا۔
انسٹیٹیوٹ میں میرے تمام حالات زندگی کو بغور سنا گیا۔ یہاں بھی مسائل کے حل کے لیے مراقبہ کی مشقیں تجویز کی گئیں۔
مراقبہ کی پہلی مشق نیلی روشنیوں کی بتائی گئی، رات کو ایک وقت مقرر کر کے میں نے مراقبہ کا آغاز کر دیا۔ مجھے عجیب محسوس ہوا کہ میں کمرے کے ایک کونے میں آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوا ہوں۔ بہر حال نیلی روشنی کا تصور بتائے ہوئے طریقے کے مطابق مراقبہ کی مشقیں کئی روز جاری رہیں مگر یکسوئی نہ ہوئی بس ادھر ادھر کے خیالات کا غلبہ رہا۔ مراقبہ شروع کرنے سے پہلے میرا ذہن الجھا رہتا تھا۔ مراقبہ کے دوران بھی ذہن یکسو ہونے کے بجائے مختلف خیالات میں گھرارہتا۔ کئی مرتبہ جبر أمراقبہ کرنے سے سر میں درد بھی ہوا۔ یہ باتیں میں انسٹرکٹر صاحب کو بتاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں مراقبہ جاری رکھوں ۔ ایک روز مراقبہ شروع کرنے سے قبل اچھی طرح وضو کیا اور نماز عشاء ادا کی۔ نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا اور اپنی کامیابی کی دعا کرتے کرتے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
دعا ہے بعد مراقبہ کا آغاز کیا تو مراقبہ میں پہلی بار سکون ملتا ہوا محسوس ہوا۔ میں کافی دیر مراقبہ میں بیٹھارہا کوئی کیفیت تو ظاہر نہیں ہوئی مگر بیڈ پر جاتے ہی مجھے نیند آگئی۔ صبح جب بیدار ہوا تو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔
اب جب بھی مراقبہ شروع کرتا تو ذہنی سکون مانتا مگر کافی عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی کیفیت ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔
ایک روز خاندان کی تقریب میں والد صاحب نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میں بغیر انکار کیے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ تقریب میں بھی پہلے کے مقابلے میں لوگوں کے ساتھ میرا آئی کانٹیکٹ کافی بہتر رہا۔ کئی لوگوں سے میں نے گفتگو بھی کی۔ اس تقریب سے گھر واپس آنے کے بعد جب غور کیا تو مجھے اپنی شخصیت میں بہتری دکھائی دی۔ اب میں مراقبہ شوق سے کرنے لگا۔ یکسوئی بھی ہونے لگی۔
چند ماہ بعد ایک روز مراقبہ ختم کیا تو جسم انتہائی ہلکا پھلکا محسوس ہوا، مراقبہ سے اٹھ کر شکرانے کے نوافل ادا کیے اور اللہ تعالی سے اپنی کامیابی کی دعائیں کی۔
مراقبہ میرے لیے ایسی دوا ثابت ہوا ہے جس نے میرے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی مسائل کو کافی حد تک حل کر دیا ہے۔ ذہن میکسور ہنے کی وجہ سے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ گفتگو میں روانی آئی ہے۔ میں پڑھائی کی طرف مائل ہوا ہوں۔
مراقبہ اب مزید پابندی اور شوق سے کرنے لگا ہوں۔ مراقبہ مجھے پر سکون رکھتا ہے۔ مراقبہ کی وجہ سے چھوٹے قد سے پیدا ہونے والے احساس کمتری میں بھی کمی آئی ہے۔ اچھے اخلاق، بہتر گفتگو اور اعتماد کی وجہ سے اب میرے دوست بھی بننے لگے ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2022