گلوکوز ہمارے لیے ضروری ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ابھی روزے چل رہے ہیں، جن کا دورانیہ 12 گھنٹے سے زیادہ ہے۔ تو جب آپ صبح سحری کر لیتے ہیں تو آپکے جسم کو گلوکوز مل جاتا ہے۔ روزے کے دوران آپکا جسم یہ گلوکوز استعمال کر لیتا ہے، جب یہ گلوکوز ختم ہوجاتا ہے تو جگر میں پہلے سے سٹور شدہ گلوکوز (glycogen) کو خون میں خارج کر دیتا ہے تاکہ جسم اسے استعمال کرسکے۔ پھر یہ سٹور شدہ گلوکوز بھی ختم ہوجاتا ہے۔
مگر گلوکوز ہمارے لیے ضروری ہے۔ ہمارے دماغ کو تقریباً ہر وقت گلوکوز کی لگاتار سپلائی چاہیے ہوتی ہے، اس کے علاؤہ ہمارے سرخ خلیوں کو بھی گلوکوز کی ضرورت رہتی ہے۔ تو جب خوراک سے آنے والا گلوکوز بھی ختم ہوگیا، اور جگر کا سٹور شدہ گلوکوز بھی استعمال ہوگیا۔ پھر جگر ایک اور طریقہ اپناتا ہے۔
جگر خود سے گلوکوز بنانے لگتا ہے۔ یعنی جگر کچھ اور چیزوں (فیٹس، پروٹیز اور دوسرے کچھ کیمکلز) کو گلوکوز میں بدل دیتا ہے (اسے gluconeogenesis کہتے ہیں)۔ تاکہ خون میں گلوکوز کا ایک مناسب لیول برقرار رہے۔ امید ہے روزوں میں آپکے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہوگا۔
روزوں کے علاؤہ بھی، جب آپ کے کھانے کے اوقات میں پانچ، چھ گھنٹے کا فرق ہو تو یہ عمل کچھ حد تک ہو رہا ہوتا ہے۔
لیکن شوگر کے مرض میں تو پہلے ہی خون میں گلوکوز کا لیول ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کہ جسم میں انسولین نہیں بن رہی ہوتی یا جسم اس انسولین کو ٹھیک طریقے سے رسپانس نہیں کر رہا ہوتا۔
اس کے علاؤہ جسم میں ایک اور ہارمون بھی ہوتا ہے جسے “گلوکاگون” (Glucagon) کہتے ہیں، یہ بھی لبلبے سے خارج ہوتا ہے اور اس کا کام انسولین کے الٹ ہوتا ہے۔ یعنی انسولین خون میں گلوکوز کی مقدار کم کرتی ہے، لیکن یہ گلوکاگون گلوکوز اس مقدار کو بڑھاتا ہے۔ گلوکوز کی مقدار بڑھانے کے لیے گلوکاگون جگر میں گلوکوز بنانے کا یہ عمل (gluconeogenesis) بھی بڑھا دیتا ہے۔
جب انسولین صحیح کام کر رہی ہوتی ہے تو انسولین اس گلوکاگون ہارمون کے لیول کو بھی کم رکھتی ہے، لیکن شوگر کے مرض میں انسولین کام نہیں کر رہی ہوتی یا موجود نہیں ہوتی، اس لیے یہ گلوکاگون بھی بے قابو ہوتا ہے اور جگر میں گلوکوز بنانے کا عمل تیز کروا دیتا ہے۔
نتیجتاً، خون میں گلوکوز کا لیول بڑھ جاتا ہے اور خون میں ضرورت سے زیادہ گلوکوز بہت ساری پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔
تو ہماری یہ دوائی کیا کرتی ہے ؟ ہماری یہ دوائی جگر میں جاتی ہے، اور جگر میں ایک خاص انزائم (AMP- kinase) کو ایکٹیو کر دیتی ہے۔ یہ انزائم کیا کرتا ہے ؟ یہ انزائم ایک طرح سے “بدمعاشی” کرتا ہے اور کچھ دیگر انزائمز کو کام کرنے سے روک دیتا ہے۔ یہ کن انزائمز کو روکتا ہے ؟ یہ ان کو روکتا ہے جو جگر میں گلوکوز بنانے والے اس عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ (اس عمل کی مزید تفصیل کمنٹ میں دیتا ہوں)
یعنی قصہ مختصر یہ دوائی جگر میں گلوکوز کے بننے (gluconeogenesis) کو کم کرتا ہے، جس سے جگر خون میں گلوکوز کا اضافہ نہ کرتا۔
یہ اس دوائی کا سب سے بڑا اثر ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ یہ دوائی خون سے پٹھوں میں گلوکوز کا داخلہ بھی بڑھاتی ہے، اور نظام انہضام سے خون میں شامل ہونے والے گلوکوز کو بھی کم کرتی ہے۔ اس کے علاؤہ کچھ دیگر اثرات بھی دیکھاتی ہے۔
یہ دوائی ہے “میٹفارمن” (metformin) جو شوگر میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے، بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ادویات کے ٹاپ پر موجود ہے۔
اور جس طرح آلو تقریباً ہر سبزی کے ساتھ پکایا جاتا ہے، اس طرح یہ metformin بھی شوگر کی تقریباً باقی سب ادویات کے ساتھ کمبینشن کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے۔
مجھے بھی حیرت ہے کہ یہ کتنی زیادہ استعمال ہوتی ہے، پھر بھی اب تک اس پر تحریر نہیں لکھی۔ خیر یہ دوائی یا کوئی بھی دوائی ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ ہی استعمال کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ شوگر کے مریض کو کوئی بھی دوائی دیں جب تک وہ اپنی خوراک، وزن اور ورزش درست نہیں کرے گا اسے دیر پا فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔
#وارث_علی