ہرایک کو خوش رکھنے میں اپنی توانائی ضائع مت کیجئے۔۔۔
تحریر۔۔۔صابرہ رفیق
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہرایک کو خوش رکھنے میں اپنی توانائی ضائع مت کیجئے۔۔۔ تحریر۔۔۔صابرہ رفیق)ہر عورت یہی چاہتی ہے کہ سب رشتہ دار اس سے خوش رہیں۔ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر ممکن جتن کرتی ہے لیکن پھر بھی سسرال میں سب کو خوش رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ لیکن پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہر ایک کو خوش رکھنا ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تقریباً 96 فیصد خواتین ایسا ہی محسوس کرتی ہیں اور تمام عمر تفکرات اور ایک قسم کے احساس ندامت میں مبتلا رہتی ہیں۔ آئیے ماہرین کی آراء کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ اس احساس ندامت سے کیسے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
خواتین کو صنف نازک کہا جاتا ہے۔ ان کے کر احساسات و جذبات بھی نازک ہوتے ہیں۔ کوئی معمولی سی بات بھی ان کے دل پر بے پناہ اثر کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ رنج و غم اور احساس ندامت میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔ بظاہر وہ باتیں بے حدمعمولی اور غیر اہم دکھائی دیتی ہیںجنہیں کوئی عورت دل سے لگا بیٹھتی ہے لیکن اپنیحساس فطرت کے ہاتھوں وہ مجبور ہوتی ہے۔ندامت اور پچھتاوے کا یہ سفر اس کے ہوش سنبھالتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا جب لڑکپن میں اسے اپنی ضروریات کی خاطر والدین سے پیسے لینے پڑتے ہیں یا والدین دن رات کی محنت اور جوڑ توڑ کے بعد اس کا جہیز تیار کرتے ہیں…. تووہ قصور وار نہہوتے ہوئےبھی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر شادی کے بعد عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، یہ سفر کبھی کبھی اس کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک اجنبی جگہ آکر وہاں کے ماحول میں خود کو ڈھالنا اور سسرال والوں کی توقعات پر پورا اترنا آسان نہیں۔ کہیں نہ کہیں اس سے کوئی نہ کوئی بھول چوک ہو ہی جاتی ہے۔ بلکہ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود کوئی نہ کوئی پچھتاوا اس کو گھیر لیتا ہے۔بحث یہ نہیں کہ گھر بار کی زیادہ ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے یا عورت پر، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عورت کی ذمہ داریاں گوناگوں اور مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں تو گھر چلانے کے لیے کئی خواتین کو ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ ملازمت کرنے والی خواتین کے لیے تو احساس ندامت میں مبتلا ہونے کے نہجانے کتنے جو از آئے دن بنتے رہتے ہیں۔ بچوں کو خاطر خواہ وقت نہ دے سکنے پر شرمندگی، ان کا ہوم ورک چیک نہ کرنے پر احساس خطا سب کی پسند کے مطابق کھانا نہ بنا سکنے پر افسردگی…. اس پر یہ احساس الگ کہ سسرال والوں کو اس کی غیر حاضری میں بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے…. وغیرہ۔
یہ تو چند عام سی مشکلات کی مثالیں ہیں کہ جن کا سامنا کئی عورتوں کو کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ہر ایک کے اپنے علیحد ہ مسائل زندگی ہوتے ہیں جو کم بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ بھی۔ لہذا ان سے نمٹنے کی تدبیر بھی آپ ہی کو کرنی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آپ کوئی سپر وومن نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی جانب سے پورے خلوص کے ساتھ تمام ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن اگر کہیں کمی بیشی ہو جاتی ہے تو اس کے لیے اپنے آپ کو سزا دینے اور خواہ مخواہ کا احساس شرمندگی طاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے بجائے ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ مثلا بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا ممکن نہیں تو ان کے ساتھ اچھے سے اچھا وقت گزارنے پر توجہ دیں۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے وقت کی تقسیم اور ذمہ داریوں کی ترتیب ایسی رکھیں کہ آپ کو کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق دنیا بھر میں 96 فیصد سے زیادہ خواتین ہر روز کم سے کم ایک مرتبہ کسی نہ کسی معاملے میں احساس ندامت میں مبتلا ضرور ہوتی ہیں۔ جبکہ ان میں سے بہت سی ایسی بھی ہیں جو دن میں کئی کئی مرتبہ اس پچھتاوے میں مبتلا ہوتی ہیں کہ یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے !”
یہ جان کر آپ کو شاید کچھ تسلی ہو کہ آپ اکیلی اس مشکل میں مبتلا نہیں بلکہ دنیا کی بے شمار خواتین اسی صورتحال سے دو چار ہے۔ اہل مغرب نے تو با قاعدہ طور پر ایک انجمن بھی بنا دی ہے اور اس کا نام GATT (Guilty All The Time) رکھا ہے یعنی ہمہ وقت احساس خطا میں گھری رہنے والی ہستیاں!
سروے کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ خواتین زندگی کے بہت سے معاملات کے بارے میں شرمندگی میں مبتلا رہتی ہیں۔ مثلا اپنے رشتے ناطوں، دوستیوں، ملازمت اور یہاں تک کہ اپنی شکل و صورت اور جسامت پر بھی انہیں کمی یا شرمندگی کا احساس ستاتا رہتا ہے کہ میں ایسی کیوں ہوں یا ویسی کیوں نہیں ہوں! دوسروں کی خوشنودی کی خاطر کئی خواتین اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال بھی نہیں رکھتیں۔ بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے مسائلپر خوش اسلوبی کے ساتھ قابو پا لیتی ہیں لیکن ابتداء میں انہیں بھی یہ احساس شرمندگی سے دو چار رکھتا ہے کہ وہ لوگوں کی امیدوں پر پوری نہیں اثر تھیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے آپ کو محض چند چھوٹی چھوٹی ترکیبوں سے کاملینے کی ضرورت ہے۔
احساس ندامت کی وجہ پہچانیں: ان باتوں کی ایک فہرست بنائیں جن کی بناء پر آپ شرمندگی سے دو چار ہو جاتی ہیں اور نتیجے میں افسردگی، تھکن مایوسی اور اداسی کی کیفیت آپ کو گھیر لیتی ہے۔ وقت کا بہترین مصرف نکالیں اپنے وقت کی تقسیم اس طرح کریں کہ آپ کےتمام کام بخوبی نمٹ جائیں اور آپ نہ صرف اپنی فیملیبلکہ اپنے آپ کو بھی زیادہ میں نوم، لیکن اچھا وقت دے سکیں۔
مثبت طرز فکر اپنائیں
احساس خطا آپ کی جسمانی، جذباتی اور روحانی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس سے نجاتپانے کی ایک بہتر تدبیر یہ ہے کہ زندگی کے معاملات میں مثبت طرز فکر اپنا یا جائے۔
بھولنا اور معاف کرنا سیکھیں
اپنے اندر پلنے والے احساس شرمندگی کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی اور دوسروں کی چھوٹی موٹی خطاؤ کو بھولنے کی عادت ڈالیں۔
دوسروں سے اپنا موازنہ نہ کریں
دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے کی صورت میں آپ کو بلاوجہ کا احساس کمتری گھیر لیتا ہے اور یوں آپ کے پچھتاوؤں کی فہرست میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اپنے احساس خطا پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی کامیابیوں پر نظر رکھیں اور اپنی خوبیوں سے آگاہ رہنے کی کوشش کریں۔ اگر اپنی ملازمت کی وجہ سے گھر والوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتیں تو یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیں کہ ان کے لیے اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے بہت سی آسائشیں تو فراہم کرتی ہیں۔ یہ سوچیں کہ ملازمت پر توجہ دینے کے نتیجے میں جب آپ کی ترقی ہو گی تو گھر والے آپ پر کتنا فخر محسوس کریں گے۔
اپنے آپ کو تھوڑی سی رعایت دیں
خواتین زندگی میں بہت سے اہم کردار ادا کرتی ہیں جیسے ماں ، بیٹی، بہن اور بیوی۔ لیکن جب وہ کسیوجہ سے رول ماڈل نہیں بن سکتیں تو احساس ندامت انہیں گھیر لیتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل غصے کی ایک قسم ہوتی ہے جو آپ کو اپنے اوپر ہوتا ہے۔ لہذا اپنی چھوٹی موٹی کو تاہیوں کو نظر انداز کریں اور خوش رہنے کی کوشش کریں۔ جب آپ خود ہی خوش نہیں ہوں گی تو دوسروں کو کیسے خوش رکھ سکیں گی۔ مثال کے طور پر آپ اپنے کسی دوست یا عزیز کی سالگرہ پر سے تہنیتی پیغام بھیجنا بھول جاتی ہیں تو اس بات پر اپنے آپ کو شرمندگی کے سمندر میں فرق نہ کرلیں۔ زندگی میں اور بھی مواقع آئیں گے… غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں لہذا دوسروں کےساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی رعایت دینا سیکھیں۔ کسی بھی غلطی یا ناکامی کو اپنے اعصاب پر طاری رکنے کے بجائے آئندہ کے لیے اس سے سبق حاصل کریں اور یہ ہمیشہ یادر کھیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور آپ کسی بھی حال میں ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017