Daily Roshni News

ہر کہانی میری کہانی۔۔۔تحریر۔۔۔طاہر جاوید مغل

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔طاہر جاوید مغل )مارگریٹ ایٹ وڈ (Margaret Atwood) کی طرح کئی دانشوروں نے خودنوشت کو ناول کی ہی ایک شکل قرار دیا ہے۔ کچھ لوگ خودنوشت کو سوانحی ناول کا نام بھی دیتے ہیں۔ اپنی یہ خودنوشت لکھتے ہوئے مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ خودنوشت واحد متکلم یعنی ’’میں‘‘ کے صیغے میں ہوتی ہے اور یہ ’’میں میں میں‘‘ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کئی دفعہ ایک طرح کی خود پسندی اور خود نمائی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ دورانِ تحریر اس احساس نے مجھے کچھ شرمندہ بھی رکھا اور خود نوشت کا بوجھ مجھے اپنے ناتواں کندھوں پر زیادہ ہی محسوس ہونے لگا۔ مگر آسانی یوں ہوئی کہ بہت گمبھیر قسم کے مسائل افسانوی ڈھنگ کی مہم جوئی اور دقیق موضوعات میری زندگی کا حصہ ہی نہیں تھے۔ روز مرہ کی چھوٹی بڑی دلچسپ حکایتیں تھیں جو میں نے لکھنا شروع کیں تو لکھتا چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ سچ بولنا مشکل ہوتا ہے اور اپنے بارے میں بولنا مشکل تر۔ شروعات ہوئی سترہ اٹھارہ سال کے ایک سیدھے سادے دروں بیں لڑکے سے جو صدیوں سے ایک چھت کی منڈیر پر کہنیاں ٹکائے کھڑا تھا اور ایک خوش رنگ منظر کی آس میں ایک خالی صحن کو دیکھتا چلا جا رہا تھا… یہ لڑکا بہت سی اَن گھڑ سوچوں اور خام خیالیوں میں گھرا ہوا تھا۔ پھر اس کی اپنی کہانی میں دو مزید ایسی رومانی کہانیاں شامل ہوئیں جنھوں نے اس کی آئندہ زندگی اور اس کی قلم کاری پر بہت گہرے نقوش چھوڑے۔

خودنوشت اور سفرنامہ دو الگ الگ اصناف ہیں (حالانکہ زندگی ایک سفر ہے اس لیے خودنوشت کو تھوڑی سی رعایت کے ساتھ سفرنامہ بھی کہا جا سکتا ہے) ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خودنوشت ایک کامل شے ہے جس کا ایک جزو سفرنامہ ہو سکتا ہے۔ اس تحریر میں قارئین کو چند سفر ناموں کی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی۔ ان اسفار نے میری کہانیوں کے لیے خاصا مواد فراہم کیا ہے اور مجھے زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے میں کچھ مدد دی ہے۔

بچپن میں کہانی سنا کرتے تھے تو کہانی سنانے والا کہتا تھا کہ ہڈ بیتی سنو گے کہ جگ بیتی؟ اس وقت پتا نہیں تھا کہ کہانی تو ایک ہی ہے اور صدیوں سےلگ بھگ ایک ہی چلی آ رہی ہے۔ ہر زمانے میں ہر شخص نے اسے اپنی کہانی سمجھا۔ اس کہانی پر وہ شرمایا بھی، پچھتایا بھی، جھلایا بھی اور اٹھلایا بھی، بہت نازاں بھی ہوا اور بےحد پشیماں بھی۔ اسے اپنی کہانی گردانتا رہا۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ اس حقیقت کو قتیل شفائی نے یوں بیان کیا …

ہر آدمی الگ سہی مگر امنگ ایک ہے

جدا جدا ہیں صورتیں لہو کا رنگ ایک ہے

میری یہ آپ بیتی اس سے پہلے کراچی کے ماہنامہ سرگزشت میں قسط وار شائع ہوئی۔ اپریل 2023ء سے مئی 2024ء تک شائع ہونے والی اس رُوداد کا عنوان سرگزشت میں ’’کاروانِ زیست‘‘ تھا جو باہمی مشورے سے ’’ہر کہانی میری کہانی‘‘ رکھا گیا۔ ماہنامہ میں بھی اسے خاطرخواہ پذیرائی ملی تھی پھر اس رُوداد پر امر شاہد صاحب کی نگاہِ انتخاب پڑی۔ الحمدللّٰہ میری سیکڑوں کہانیاں اور بہت سی کتب شائع ہو چکی ہیں مگر میں اپنی اس تحریر کو اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اسے ’’بُک کارنر‘‘ جیسا ادارہ اور گگن شاہد و امر شاہد جیسے دیدہ ور پبلشرز ملے۔ دونوں محترم بھائی اشاعت کے ہر مرحلے کو بڑی باریک بینی و جاں فشانی سے دیکھتے ہیں۔ گوسرگزشت میں بھی یہ رُوداد مکمل تھی مگر اپنے ہم عصر قلم کاروں کے تذکرے کی نسبت محسوس ہوا کہ اس میں تھوڑا اِضافہ ہو سکتا ہے۔ سو یہ اِضافتیں بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب آپ کی نظر میں ہی نہیں، آپ کے دل میں بھی جگہ بنائے گی۔

طاہر جاوید مغل

لاہور

24 اکتوبر 2024ء

Loading