Daily Roshni News

ہسٹری  کی مسٹری۔۔۔)قسط نمبر1

ہسٹری  کی مسٹری

)قسط نمبر1

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری  2024

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہسٹری  کی مسٹری)ہماری یہ زمین انگنت رازوں کی امین ہے، یوں تو سائنس دانوں نے کائنات کے کئی حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں ، مورخین ماضی کی کئی تہذیبوں کے متعلق پردہ اٹھاتے رہتے ہیں آثار قدیمہ کے ماہرین زمین کی تہوں سے قدیم چیزیں دریافت کرتے رہتے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے پر اسرار معمے اور راز پوشیدہ ہیں جو ایک مسٹری کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ کئی راز صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور ان کی وضاحت تاحال نہیں کر سکتی ہے ….

حیرت انگیز عجوبہ ویران شہر:ہسٹری کی مسٹری کے اس سلسلہ مضامین میں اب تک ہم نے سائنس اور عقل سے بعید ذہانت کے معمے اور قدیم ٹیکنالوجی کی چند حیرت انگیز تعمیرات سے آگاہی فراہم کی ہے، ان تعمیرات میں اہرام مصر ، میکسکو، امریکا ، چین اور روس کے اہرام شامل ہیں۔

علاوہ ازیں زیگورات، اسٹون ہینج ، ایسٹر آئی لینڈ کے موائی مجسمہ اور ساکے ہوا من قلعے کی کلاں سنگی دیواروں کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے۔

ان عجوبوں نے آج تک سیاحوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ان مقامات میں ایک بات مشترک ہے کہ ماہرین کو آج تک اس کا جواب نہیں مل سکا کہ ان کو کیسے تعمیر کیا گیا تھا ؟ …. یہ ایسی تعمیرات ہیں جس میں استعمال ہونے والے پتھروں کا وزن سیکڑوں ٹن وزنی ہے۔ ان پتھروں کو پہاڑ سے کاٹنا، ان کی تراش خراش اور پھر ان کو اُٹھا کر میلوں دور لانا حیرت انگیز ہے۔ انہیں اس ترتیب سے کھڑا کیا گیا کہ ان میں ہر ایک کے درمیان انچ کے ہزارویں حصے کا بھی فرق نہیں۔ اتنی بڑی چٹانوں کو اس کاریگری سے لگانا کہ ذرا بھی عیب باقی نہ رہے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کام موجودہ دور میں زیر استعمال دیو ہیکل مشینوں اور کرینوں کے ذریعہ ہی کیا جا سکتا ہے اور ایسی ٹیکنالوجی پچاس ساٹھ برس قبل تک موجود ہی نہیں تھی …. صدیوں پہلے ایسے بھاری بھر کم پتھروں کو اس قدر سلیقے اور ہنر مندی سے استعمال کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قدیم دور کے وہ لوگ کسی ایسے علم پر دسترس رکھتے تھے جو آج انسان کی نظروں سے او جھل ہو چکا ہے۔ ان عجوبہ عمارتوں کے متعلق جدید دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین کی اپنی اپنی قیاس آرائیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مزدوروں نے مل کر پہاڑوں سے ان پتھروں کو کاٹا اور درخت کے تنوں کی مدد سے تعمیر کے مقام تک پہنچایا اور انہیں نصب کیا وغیرہ وغیرہ…. دیکھا جائے تو اہرام مصر، ساکے ہوا من قلعہ اور اسٹون پینج کی حد تک تو یہ قیاسات اور تھیوریاں مانی جاسکتی ، کیونکہ یہ تعمیرات عموماً زمین کے سیدھے Plain صحرائی اور میدانی علاقوں یا پھر سطح مرتفع پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایسٹر آئی لینڈ بھی ایک چھوٹا جزیرہ ہے وہاں کی کل آبادی ہی چند ہزار ہے، وہاں اتنے مزدور کا آنا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس جزیرے کے علاوہ بھی کئی ایسی دیو ہیکل عمارتوں بلکہ شہروں کے آثار ملتے ہیں جو ایسے مقامات پر تعمیر کیے گئے ہیں جہاں اتنے وزنی پتھر لے جانا آج کے ترقی یافتہ سائنسی دور میں بھی ممکن نہیں۔

یہ عمارتیں بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور دریاؤں اور جنگلات کے درمیان تعمیر کی گئی ہیں۔ ان تعمیرات میں پیرو کی قدیم پہاڑی بستی ماچو پیچو مغربی امریکا کا قدیم شہر ٹیا ہوانا کو ، مصر کے ابو سمبل مجسمے ، بحر الکاہل کا نان میڈول شہر اور کمبوڈیا کے جنگلات کا شہر انگ کور شامل ہیں۔

Nan Madolنان میڈول

ہسٹری کی ایک اہم مسٹری ، ایسی ہی تعمیرات کا ایک شاہ کار ، صدیوں پرانا عجوبہ ، نان میڈول شہر ہے۔ مائیکرونیشیا، بحر الکاہل میں آسٹریلیا اور انڈو نیشیا کے درمیان، جزیرہ ہوائی سے پانچ ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ، چھوٹے چھوٹے جزائر پر پر مشتمل مشتمل ایک ملک ہے۔ اس کے ایک جزیرے پوہنپئی (پوناپے) کے جنوب میں کبھی نان میڈول شہر آباد تھا۔

نان میڈول کا مطلب ” خلائی جگہیں ہیں۔ یہ شہر انسان ساختہ جزیروں اور نہروں کا نہایت ہی حیران کن جال ہے جسے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل پوہنپی کے پایاب پتھر پیلے ساحل پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اٹھارویں صدی کے یورپی ملاح نے اسے دریافت کیا، وہ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اُنہوں نے اس شہر کو جنوبی سمندر کے دیس کا نام دیا۔ تاہم، ان ملاحوں نے بھی نان میڈول کی پوری شان و شوکت نہیں دیکھی تھی کیونکہ اُن کی آمد سے کوئی ایک صدی پہلے ہی اسے پُر اسرار طور پر ویران چھوڑ دیا گیا تھا۔ آج فن تعمیر کا شاہ کار یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے اسے ایک طرف تو بھنے درختوں اور جھاڑیوں نے ڈھانپ رکھا ہے، دوسری جانب سمندر کے پانی سے اس کے کئی حصے زیر آب آچکے ہیں۔

نان میڈول کا کل رقبہ تقریباً 200 ایکڑ ہے۔ شہر کے ارد گرد بلند فصیلیں ہیں جو بسالٹ Basalt آتش فشانی سنگ سیاہ) کے بڑے بڑے ستونوں کو چلیپائی انداز میں رکھنے سے تعمیر کی گئی ہیں۔ نہروں کے جال کے ارد گرد 92 تعمیرات میں سے ہر ایک کا خاص مقصد ہے۔ بعض رہائشی مراکز تھے جبکہ دیگر علاقے غذائی تیاری، کشتی سازی اور روایتی رقص کے لیے مخصوص تھے۔ بعض تعمیرات کا رقبہ تو فٹ بال کے میدان کے برابر ہے۔ ان تعمیرات کی بنیاد مرجانی پتھروں پر رکھی گئی ہے۔ اِسے بسالٹ کے لمبے ستونوں سے تیار کیا گیا تھا۔ ہر ستون کی شکل قدرتی طور پر منشور جیسی ہے اور ہر ایک کے پانچ سے آٹھ کنارے ہیں۔ایک سوال ہے جس نے ماہرین آثار قدیم سے لیکر ماہرین تعمیرات تک کو حیران کر رکھا ہے۔

چھوٹے سے جزیرہ پر اس شہر کی تعمیر میں ہزاروں کی تعداد میں ٹنوں وزنی مونولتھ Monolith ستون استعمال ہوئے ہیں۔ یہ ستون یہاں لائے کیسے گئے جن میں سے بعض 18 فٹ لمبے اور 5 ٹن سے زیادہ وزنی تھے۔ بنیاد کیلئے استعمال ہونے والے پتھروں کا

وزن اندازاً 50 ٹن ہے !

ایک خیال تو یہ ہے کہ بہت سارے تختوں یا کشتی پر یہ پتھر لائے گئے ہوں۔ اس خیال کی تائید میں یہ مسئلہ ہے کہ نان میڈل کے ارد گرد کم پانی اور سطح سمندر کی مرجانی پتھروں کی وجہ سے کوئی بھی بڑی کشتی اور جہاز اندر داخل نہیں ہو سکتا ….. رہی بات چھوٹی کشتی اور لکڑی کے تختوں پر تیرا کر لانے کی تو اتنے زیادہ وزن کی وجہ سے یہ تختہ کم پانی میں تیر نہیں سکتا۔ اس لیے ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اتنے بڑے بڑے پتھر نان میڈول کیسے لائے گئے اور انہیں اُٹھا کر ان کی مخصوص جگہ پر کیسے رکھا گیا ….؟

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بسالٹ کا سب سے قریبی ماخذ بھی یہاں سے میلوں دور ہے !

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری  2024

Loading