Daily Roshni News

ہسٹری کی مسٹری۔۔۔گم شدہ تہذیبیں۔۔۔قسط نمبر1

ہسٹری کی مسٹری

گم شدہ تہذیبیں

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہسٹری کی مسٹری)ہماری یہ زمین انگنت رازوں کی امین ہے۔ سائنس دانوں نے کائنات کے کئی حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں۔ مورخین ماضی کی کئی تہذیبوں کے متعلق پردہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ امیر قدیمہ کے ماہرین زمین کی تہوں سے قدیم چیزیں دریافت کرتے رہتے ہیں، ان پر تحقیق ہوتی ہے لیکن اب بھی بہت سے پر اسرار معمے اور راز ایسے ہیں جو مسٹری کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ان میں سے کئی راز صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور ان کی وضاحت تاحال نہیں کر سکی ہے 

عام طور پر مؤرخین یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی تہذیب و تمدن کا آغاز میسو پٹیمیا (عراق) سے ہوا۔ اس کے بعد مصر، هند، چین، یونان، افریقہ آسٹر یلیا اور امریکہ کی اقوام تمدن کا گہوارہ بنیں پوری دنیا کی تاریخ انہی خطوں میں محدود ہے۔ بعض ریسرچرز کا خیال ہے کہ دنیا میں لکھی جانے والی تمام تواریخ، انسانی تہذیب کا فقط ایک مختصر . ما حقہ ہے۔ تہذیب و تمدن کے کئی گوشے اور بہت سی نامعلوم تہذیبیں انسانی آنکھ سے اب بھی اوجھل ہیں۔

صدیوں پہلے جب کہ گلوبلائزیشن کا نام ونشان تک نہ تھا، دنیا کی اکثر قو میں محض زمینی سرحدوں میں ہی نہیں بلکہ رسم ورواج اور ثقافتی سرحدوں تک ہی محدود تھیں۔ تقریبا ہر قوم خود کو بہتر اور دوسروں کو معتوب خیال کرتی، اپنی روایات کو درست قرار دیقی، اپنی زبان کو فصیح اور دوسروں کو گونگا سمجھتی تھی، وہیں ہر قوم کا یہ بھی خیال تھا کہ ان کی تہذیب ہی کر کارض کی اولین تہذیب ہے اور وہی اس کے اصل وارث ہیں۔ اہل یہود کے مطابق ارض فلسطین ہی انسانی تہذیب کا اولین گہوارہ تھا، اسی لیے انہوں نے جب بھی کہیں اولین انسانی مسکن کا تذکرہ کیا تو وادی کو جلہ و فرات کا ہی محل و قوع بتایا۔ اہل ہند کی تاریخ میں ہندوستان کے محلے کے علاوہ کسی دوسری تہذیب کا نام ہی نہیں ملتا، ان کے نزدیک انسانی تہذیب کا اولین مسکن صرف ہند ہے۔ اہل چین بھی پہلے انسان کو چین کا باشندہ سمجھتے ہیں۔ یونانی بھی یونان کو نوع انسانی کا پہلا محطہ بتاتے ہیں۔ یہی حال مشرق وسطی اور یورپ کی دیگر قدیم تہذیبوں کا بھی ہے، یعنی جتنی قو میں اتنے نظریات۔ انہی نظریات کے تحت ہر قوم نے اپنی تاریخ بالکل الگ تحریر کی۔ ایک عرصہ تک تو مورخین انسانی تہذیب کو پانچ ہزار برس سے زیادہ قدیم تصور ہی نہیں کرتے تھے۔ بعض مورخین یہودی علماء کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے زمین کی تخلیق کا سال 4004 قبل مسیح قرار دیتے۔ جب آثار قدیمہ کی دریافتوں کا دور شروع ہوا تو یہ تمام محدود خیالات باطل قرار پائے۔

انیسویں صدی کے اوائل میں ماہرین آثار قدیمہ نے مصر کی تہذیب کا کھوج نکالاتب عام لوگوں پر بھی شواہد واضح ہو کر سامنے آگئے کہ یہ تہذیب تو چھ ہزار سے بھی قدیم ہے ۔ اس کے بعد وادی سندھ میں موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیب اور عراق میں سمیری تہذیب کے آثار سے مورخین کو قبول کرنا پڑا کہ آج سے سات آٹھ ہزار برس قبل بھی انسانی تہذیب موجود تھی۔ اس کے بعد جو کتا ہیں لکھی گئیں، ان میں بعض مورخین نے وادی نیل کو انسانی تہذیب کا اولین گہوارہ کہا، بعض مورخین نے دجلہ و فرات کی وادیوں میں سمیری تہذیب کو سب سے قدیم قرار دیا ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک موہنجو داڑو، ہڑپہ کی تہذیبوں کے مقامات پہلے آباد انسانی خطے تھے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ مورخین اولین انسانی تہذیب جن اقوام کو قرار دیتے ہیں، وہ علوم و فنون میں بہت ترقی یافتہ تھیں۔ ایک طرف اہرام مصر، اسٹون پینج اور سمیریوں کی عظیم الشان تعمیرات جدید ترقی یافتہ دنیا کے انسانوں کی عقلوں کو دنگ کیسے دیتی ہیں تو دوسری طرف اعلیٰ شہری تمدنی نظام رکھنے والی موہنجو داڑو کی تہذیب بھی کم حیرت کا باعث نہیں ہے۔ ہندوستان اور مصر میں رائج ریاضی کے رموز اور فلکی علوم، وادی دجلہ و فرات میں آباد تہذیبوں میں حکمرانوں کے آئین و قوانین، چین وسندھ میں کپاس و ریشم کی صنعتیں ایک منظم، متمدن اور ترقی یافتہ معاشرہ کا منظر پیش کرتی ہیں۔

جب تک مصر، سمیر کے آثار اور تحریروں کو سمجھا نہیں گیا تھا اکثر ماہرین ہی مخیال کرتے تھے کہ ان خطوں سے ہی انسانی تہذیب کا آغاز ہوا۔ تقریباً ایک صدی قبل جب ان تحریروں کو سمجھ لیا گیا تو پتا چلا کہ تقریباً تمام قدیم تہذ یہیں اپنی تحریروں میں خود سے بھی قدیم تہذیبوں کا تذکرہ کرتی ہیں۔ ایسی سر زمین ! جہاں سے ان کے آباؤ اجداد نقل مکانی کر کے آئے تھے۔ جو زلزلہ ، سیلاب یا کسی اور عظیم تباہی کا شکار ہو کر سمندر میں غرق ہو گئی تھی۔ وادی سندھ، مصر اور سمیر کی ترقی بھی دراصل اسی معدوم یا غرقاب سرز مین سے پائی جانے والے ذہین افراد کی مرہون منت تھی۔

انیسویں صدی کے اواخر میں ہیزخ سلیمان نے ہومر کی داستانوں میں بیان کردہ شہر ”ٹرائے“ کی باقیات کھنڈرات کی صورت میں دریافت کیں تو دیو مالائی داستانوں میں بیان ہونے والی ترقی یافتہ تہذیبوں کے حقیقی وجود پر بحث میں شدت آگئی اب ان گمشدہ تہذیبوں کی تلاش شروع ہوئی جن میں اولین حیثیت اٹلانٹس کو دی گئی۔

Atlantisاٹلانٹس:اٹلانٹس کا تذکرہ دنیا کی کئی تہذیبوں کی قدیم تحریروں میں مختلف انداز میں ملتا ہے۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مختلف تہذیبوں کی قدیم دستاویزات میں اسے جو نام دیے گئے ہیں ان کا مخرج ایک ہی ہے۔ سمیر میں اسے گو عدین، بابل میں دلمون، مصر میں ایٹنی، قدیم امریکہ کی مایا از تک تہذیب کی روایات میں اسے از ثلان اور اطلان اور یونانیوں میں اسے اٹلانا اور اٹلانٹس کا نام دیا۔ یہی نام موجودہ دنیا نے اپنا یا۔ یوں تو اٹلانٹس کا ذکر دنیا کی کئی اقوام نے کیا مگر اس کا مفصل ترین احوال مشہور یونانی فلسفی افلاطون کے دو مکالموں کر بٹیاس Critias اور میں Timacus میں ملتا ہے۔ جس کے مطابق سقراط کے شاگرد کر بٹیاس کا دادا اور یونانی قانون دان سولون Solon جب مصر گیا تو وہاں کے مصری پروہتوں نے اسے اپنے قدیم مندروں پر منقش داستان سنائی۔ اسے مصری پر وہت نے بتایا کہ ریخ کے معاملہ میں یونانیوں کا علم بالکل بچکانہ ہے ، ان کو تو صرف ایک طوفان کا علم ہے (جو کریٹ

کے جزیرے پر آیا تھا) حالانکہ دنیا بہت سے بڑے بڑے طوفانوں اور سیلابوں سے گزر چکی ہے، ان میں سب سے بڑا وہ تھا جس نے اٹلانٹس کے براعظم کو غرق کر دیا تھا۔ جو آج سے 9 ہزار سال (یعنی موجودہ دور سے گیارہ ہزار برس پہلے موجود تھا۔“ فلسفی افلاطون اپنی کتاب نیمیکس Timaes میں لکھتا ہے کہ صدیوں پہلے یہاں (یونان) سے کوسوں دور ایک جزیرہ تھا جس کی وسعت مخشکی کے کسی عظیم قلعے جتنی تھی۔ اس جزیرے پر اپنے وقت کی سب سے عظیم الشان تہذیب اٹلانٹس قائم تھی۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2024

Loading