Daily Roshni News

*ہمارا معاشرتی المیہ۔۔

*ہمارا معاشرتی المیہ۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سسر ابو نے کسی کے گھر جانے اور معاملہ سلجھانے کا کہا تھا.معاملہ کچھ یوں تھا کہ لڑکا شادی کے بعد بیوی کو اس کے حقوق نہیں دے رہا تھا.گھر جا کر بات چیت کرنے سے بات کھلی کہ لڑکا جہاں شادی کا کہہ رہا تھا والدین نے وہاں حامی نہیں بھری جبکہ علم سب کو تھا کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے نکاح چاہتے ہیں والدین نے لڑکے پر اپنی پسند مسلط کرکے اسکا رشتہ کردیا. لڑکے نے احتجاج کیا،گھر سے چلا گیا تو باپ نے اسے دھمکی دی اگر میری پسند سے شادی نہ کی تو تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا. ماں کی طلاق کا سن کر لڑکا چپ کرگیا اور شادی کرلی. لیکن پہلے دن سے ہی اس نے لڑکی کو بیوی ماننے سے انکار کیا. دو سال ہونے کو آۓ ہیں لڑکی کبھی سسرال کبھی میکے…سسرال ہوتی ہے تو خاوند گھر نہیں آتا نتیجتا بیوی سسرال نہیں رہتی کہ کس وجہ سے یہاں رہوں…

دوسرا ظلم اس لڑکے کیساتھ یہ کیا کہ جس لڑکی سے وہ نکاح چاہ رہا تھا اس لڑکی کی کہیں اور شادی ہونے کے بعد اسکی چھوٹی بہن سے رشتہ جوڑنا چاہا مگر والدین نے وہاں بھی انکار کردیا (وجہ صرف یہ کہ ہم اپنی پسند سے بچوں کے رشتے کرینگے) اور جس چھوٹی بہن سے لڑکا چاہ رہا تھا اسے لڑکے کے چھوٹے بھائی سے بیاہ لاۓ.

لڑکا رویا پیٹا وہ طوفان مچایا کہ حد نہیں کہ اسے بھابھی کی شکل میں نہیں دیکھ سکتا مگر والدین اس کی حالت سمجھنے سے قاصر تھے یا اپنے والدین ہونے کے غرور میں مبتلا…

سو اب لڑکے کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر رہتا ہے نہ گھر جانا چاہتا…کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتا ہے…

بیوی کو بساتا نہیں کیونکہ اس سے نفرت ہے طلاق نہیں دے سکتا کہ والدین طوفان مچادینگے…

پتا نہیں ایسی کہانیاں کتنے گھروں کی ہیں جہاں والدین اولاد پر ہر معاملہ میں اپنی مرضی مسلط کرتے ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں.ہمارے برصغیری معاشرے میں شادی لڑکا لڑکی کی کرنے بجاۓ والدین اپنی سوچ سے کرتے ہیں.

شروع سے ہی دماغوں میں بھرا ہوتا ہے لڑکی آۓ گی تو گھر سنبھالے گی،کام کاج کرے گی،خدمتیں کرے گی.

لوگون سےپوچھ لیں بہو کی تعریف کے کیا معیار رکھے ہوۓ ہیں.

جی کام بہت کرتی ہے،تھکتی نہیں ہے،مہمانوں کو اچھے سے دیکھتی ہے،صفائی اچھی کرتی ہے،صبح سویرے اٹھ کر سارا گھر سنبھال لیتی ہے.

جب بھی ایسے لوگوں کو سنتی ہوں دل کرتا ہے کہہ دوں بہو لا کر فضول کا خرچہ کیا اس سے اچھی تو ملازمہ لے آتے.

کبھی یہ سنا کہ خاوند کی اطاعت کرتی ہے؟

خاوند کا دھیان اچھے سے رکھتی ہے؟

بچوں کی تربیت اچھی کرتی ہے؟

خاوند کی گھر واپسی پر اس کا استقبال کرتی ہے؟

کبھی یہ کہا خاوند بہت خوش اس سے؟

منہ سے نکلے گا تو یہ “ہم گھر والے خوش ہیں”

شروع سے ہی لاشعوری طور پر سوچ رکھتے ہیں بیٹے کی بیوی نہیں لانی گھر سنبھالنے کو نوکرانی لانی ہے پھر گھر میں جھگڑے نہ ہوں تو کیا ہو؟

گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنے اور خود کشیوں کا تیزی سے پاتا رواج جہاں میدیا کی مرہون منت ہے وہیں والدین کا بھی بڑا ہاتھ ہے.جب اولاد کو اختیار نہیں دینگے تو عزتوں کے جنازے نکلیں گے چاہے گھر سے بھاگنے کی صورت نکلیں،چاہے موت کی صورت یا چاہے طلاقوں اور جھگڑوں کی صورت میں.

قرآن تو کہتا ہے”تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں”(نساء)

اسی طرح لڑکیوں کو بھی حق دیتا ہے

سیدہ خنساء بنت خذام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نکاح کا بتایا کہ زبردستی کردیا ہے تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا.(بخاری، 2 : 772)

جبکہ ہمارے ہاں اپنی پسند بتادینا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ﮈالنا ہے.دیکھا اور رویہ ایسا رکھا جاتا جیسے اچھوت ہو.

کزن ہمساۓ,کلاس فیلوز ہونے کی صورت بے پردگی کیساتھ ملنا ملانا ہو اور پسند بھی نہ ہو کیسی عجیب بات ہے.

اور پردہ ہوتے ہوۓ بھی کسی کی عادات و خصائل پسند آجاۓ اور والدین کے سامنے اظہار کردو تو فورا بے غیرتی کا ٹپھہ لگ جاتا ہے.

اسلام اگر ولی کے بغیر شادی کی اجازت نہیں دیتا تو زبردستی کی بھی گنجائش اسلام میں نہیں ہے.

شیخ صالح منجد پسند کی شادی متعلق فتوی دیتے ہوۓ کہتے ہیں “اگرطرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔

جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے”

سنن ابن ماجہ( 1847 )

یہ درست ہے کہ والدین اولاد کا برا نہیں چاہتے لیکن اگر اولاد کی پسند میں کوئی عیب نہیں ہے تو کیوں انہیں ان کے شرعی حق سے محروم کرتے ہیں؟

صحابی کا رشتہ والدین رد کرتے ہیں تو لڑکی بول اٹھتی ہے جسے نبی علیہ السلام نے میرے لیے پسند کیا میں وہیں رشتہ کرونگی سو والدین چپ کرجاتے ہیں.

ہم اپنی بچیوں کو اتنا حق دیتے ہیں کہ وہ کھل کر اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرسکیں اور کیا اتنی ہمت پاتے ہیں کہ بچی کے بتاۓ رشتے میں عیب نہ ہو اور ہم اپنی پسند نظر انداز کرکے بچی کی پسند کو ترجیح دیں؟

ہم تو زندہ دفن نا کردیں.

اگر بچے کہیں رشتہ جوڑنا چاہ رہے ہیں تو برادری،سٹیٹس اور “ہم نے تو کچھ اور سوچا تھا” کے لیبلز ساتھ بچوں کا اہم حق کیوں مارتے ہیں؟

زندگی لڑکی لڑکے نے گزارنی ہے تو پھر اپنی سوچ اور پسند ان پر کیوں مسلط کرتے ہیں؟

ایک یہ بات اٹھائی جاتی ہے شتر بے مہار ازادی کے سبب بچے بچیاں خود ہی رشتے پسند کرتے پھرتے ہیں.

یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن سو فیصد درست نہیں ہے ضروری نہیں کہ پسندیدگی کی وجہ بے پردگی اور اختلاط ہی ہو.جو والدین رشتے کے چناؤ کو آزادی سے ملاتے ہیں ایسے والدین سے بصد احترام گزارش ہے کہ یا تو پھر اپنے بچوں کو اتنی آزادی نہ دیں کہ وہ مرضی کے رشتے تلاش کرتے پھریں یا پھر انہیں انکے شرعی حق سے محروم مت کریں.

اور دوسری گزارش ان والدین کی قسم سے ہے جنہیں شکوہ ہے “اتنا دھیان رکھا،اتنی اچھی تربیت کی،زمانے کی گرد سے بچا کر رکھا لیکن رشتے کی پسندیدگی اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں”

محترم والدین پسند ناپسند انسانی اختیار کے بس میں ہوتا تو پسندیدہ عورتوں سے نکاح کی اجازت نہ ہوتی نہ ہی یہ فرمان ہوتا”دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے”

بری بات یہ ہے کہ بچے غلط سمت مڑجائیں یا آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں وہ تو اپنا شرعی حق آپ کو یاد دلاتے ہیں اور آپ کے توجہ نہ کرنے سے یا تو باغی ہوکر نقصان اٹھاتے ہیں یا پھر آپکی مان کر اپنا گھر خراب کرتے ہیں.اولاد کی خوشیوں کے قاتل بننے کی بجاۓ اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں اور شیخ صالح کی نصیحت یاد کرلیں.

” اگر گھروالوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اورصحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن بچے اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوگا ، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتا تو وہ چيز غالبا دیرپا ثابت نہیں گی.”

Loading