Daily Roshni News

ہمزاد ،روح اور جن۔۔تحریر۔۔۔خواجہ حسن نظامی۔۔۔قسط نمبر1

ہمزاد ،روح اور جن

تحریر۔۔۔خواجہ حسن نظامی

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہمزاد ،روح اور جن۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ حسن نظامی) ادیب، صحافی اور سلسلہ چشتیہ کی معروف بزرگ شخصیت جناب خواجہ حسن نظامی مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں میں، انہوں نے اپنی آپ بیتی میں اپنی زندگی کا حیرت انگیز واقعہ تحریر فرمایا تھا، جو کہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔1904ء کا ذکر ہے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے قریب کوئی کنواں نہیں ہے۔ اگر آپ کہیں تو درگاہ کے شرقی دروازے پر کنواں بنوادوں۔ میں نے جواب دیا ہاں صاحب! یہاں میٹھے پانی کی بہت تکلیف ہے، شاید کنوئیں کا پانی میٹھا نکل آئے۔ ان صاحب نے کہا، مگر یہاں قبریں بہت زیادہ ہیں۔ کنواں کھودا جائے گا، تو قبروں کو توڑنا پڑے گا۔ میں نے کہا قبروں کی ہڈیاں دوسری طرف احتیاط سے دفن کر دینا کیونکہ پانی کی

ضرورت بہت زیادہ ہے۔

یہ کہہ کر میں توالہ آباد چلا گیا اور ان صاحب نے کنواں کھدوانا شروع کیا۔ قبروں سے ہڈیاں نکلتی تھیں جو وہ دوسری طرف ادب و احترام سے دفن کرا دیتے تھے، یہاں تک کہ پانی کے قریب پہنچے تو وہاں کسی آدمی کا پورا ڈھانچہ نظر آیا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ اوپر کی قبروں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، کسی کی کھوپڑی تھی، کسی کے پاؤں کی ہڈیاں تھیں، مگر اتنی گہری جگہ میں یہ پورے آدمی کا ڈھانچہ کیونکر باقی رہا اور اتنی گہری قبر کس نے بنوائی ….؟

بہر حال! اس نے ان ہڈیوں کو ہاتھ لگانے سے منع کیا تو کنواں کھدوانے والے صاحب خود لاؤ کے رسے میں ٹوکرا باندھ کر کنویں کے اندر اترے اور انہوں نے کھدال ہاتھ میں لے کر ڈھانچے کے گٹنے پر ماری تاکہ ہڈیاں توڑ کر اوپر لے جائیں اور کسی جگہ دفن کردیں۔

کدال کے مارتے ہی ان کا گورا رنگ کالا ہو گیا اور یہ دیوانوں کی سی باتیں کرنے لگے جو مزدور ان کے ساتھ کنویں میں گیا تھا اس نے ان کو ٹوکرے میں باندھ دیا اور بہت مشکل سے ان کو کنویں سے باہر لایا۔ کنویں کے پاس بہت سی خلقت جمع ہو گئی، سب

حیران تھے کہ ابھی توان کار نگ گورا تھا۔ اب یہ ایسے ۔ اور انقلاب یہ ایسے کالے کیونکر ہوگئے۔ یہ شخص بار بار کہتے تھے۔ میرے بھانجے کا پاؤں توڑ ڈالا۔ میرے بھانجے کا پاؤں توڑ ڈالا۔

آخر ان کو ان کے گھر میں لے گئے اور بڑے بڑے عالم بلائے گئے، مگر ان کو کوئی اچھا نہ کر سکا۔ آخر تیسرے دن اس کنویں کو بند کر دیا گیا، سب مٹی اور ہڈیاں اس کنویں کے اندر بھر دیں گئیں اور کنواں زمین کے برابر ہو گیا، تب ان صاحب کا رنگ بھی ٹھیک ہو گیا اور دماغ کی خرابی بھی درست ہو گئی۔ میں اللہ آباد کے سفر سے واپس آیا تو میری بیوی نے سارا واقعہ مجھے سنایا۔ میں اپنے پیدائشی گھر میں پلنگ پر چت لیٹا تھا۔ لیمپ سرہانے رکھا تھا اور میں لیٹا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا، پلنگ کے نیچے دری پر میری بیوی اور ان کی والدہ بیٹھی چھالیہ کتر رہی تھیں اور مجھے قصہ سنارہی تھیں۔

میں پلنگ پر اٹھ بیٹھ گیا اور میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم سمجھیں وہ کالے کیوں ہوئے اور دیوانے کیوں ہوئے۔ بیوی نے کہا کسی بزرگ کا مزار تھا، انہوں نے بے ادبی کی مزار والوں کی روح نے ان کو قبر توڑنے کی سزادی اور وہ کالے اور دیوانے ہوگئے۔ مگر جب ان کے ور نثار نے قبر بند کرادی اور کنواں بھی بند کرادیا تو روح نے تین دن بعد ان کی خطا معاف ا کی خطا معاف کر دی اور وہ اچھے ہو گئے۔

میں نے بیوی سے کہا۔ نہیں، یہ بات نہیں، بلکہ یہ بات ہے کہ مردے کی ہڈیاں صدیوں سے مٹی کے اندر دبی ہوئی تھیں اور ہڈیوں کے اندر فاسفورس ہوتا ہے۔ فاسفورس زہریلا ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے ڈھانچے کو کدال ماری، ہڈیاں ٹوٹ گئی اور اس میں سے فاسفورس اڑا اور جو ان کی ناک میں سانس کے ساتھ کھس گیا اور جسم کے خون میں جذب ہو گیا۔

فاسفورس نے اپنے زہر سے خون کو کالا کر دیا۔ خون کا لا ہوا تو ان کا چہرہ بھی کالا ہو گیا اور وہ دیوانے بھی اسی وجہ سے ہوئے کہ ان کے دماغ پر زہریلے فاسفورس نے برا اثر کیا….! اگر روح کچھ کر سکتی تو مجھے سزا دیتی، کیونکہ میں نے ان کو کنواں کھودنے اور قبریں توڑنے کا فتویٰ دیا تھا۔ اگر روح میں کچھ طاقت ہے تو آئے مجھے اپنی طاقت دکھائے اور مجھے سزا دے۔ تم عورتیں کمزور عقیدے کی ہوتی ہو، میں روحوں کے ایسے اثرکو نہیں مانتا۔

بیوی نے جواب دیا۔ تو بہ کرو، ایسی باتیں کرتے ہو، میں نے کہا کم از کم میری عقل تمہاری طرح بودی نہیں ہے۔ بیوی نے کہا۔ جانے دو، یہ باتیں چھوڑ دو، اپنا اخبار پڑھو، میں ایسی منکرانہ باتیں سنا نہیں چاہتی۔ میں ہنسا اور اخبار پڑھنے لگا۔

ان باتوں کو پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے اور میں چت لیٹا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا کہ کسی نے میرے پاؤں کے تلووں میں بجلی کاسپار لگایا۔ بیکلی سن سن کرتی میرے تمام جسم میں پھیل گئی اور مجھے ایسی تکلیف ہوئی جس کو الفاظ میں ادا کر نا مشکل ہے۔

میری رگ رگ میں چھریاں چلتی معلوم ہوتی تھیں۔ میں بے تاب ہو کر پینے لگا۔ میں نے اپنی چینوں کی آواز خود سنی مگر بیوی اور میری ساس آپس میں باتیں کرتی اور چھالیہ کنزرتی رہیں۔

انہوں نے میرے چیخنےپر توجہ نہ کی تو میں نے۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2024

Loading