ہمزاد ،روح اور جن
تحریر۔۔۔خواجہ حسن نظامی
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہمزاد ،روح اور جن۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ حسن نظامی)بیوی کا نام لے کر چیخنا شروع کیا کہ حبيب بانو! ارے بی، مجھے دیکھو میرا کیا حال
ہو گیا۔ مجھے قبر والی روح نے دبا لیا۔ میں تو بہ کرتا ہوں، پھر کبھی کسی بزرگ کی بے ادبی نہیں کروں گا۔ مگر میری بیوی نے میری طرف توجہ نہ کی اور اپنی اماں سے باتیں کرتی رہی۔
میں نے اسی حال میں خیال کیا کہ شاید میرا دل دب گیا ہے اور اس کی وجہ سے یہ تکلیف ہے ، اس لیے آہستہ سے دائیں رخ کروٹ لی، مگر پھر بھی تکلیف میں کمی نہ ہوئی۔ تب میں نے تو یہ کرناشروع کی اور عہد کیا کہ کبھی روحوں کی بے ادبی نہیں کروں گا۔ یہ کہتے ہی وہ تکلیف جو سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی تھی پیروں کی طرف جاتی معلوم ہوئی یہاں تک کہ تھوڑی دیر میں بالکل جاتی رہی اور میں نے پھر اپنی بیوی کو پکارا توانہوں نے فوراً جواب دیا۔
میں نے ان سے کہا۔ ابھی پانچ منٹ تک میں ایسی سخت تکلیف میں مبتلا رہا اور تم کو آواز دیں، مگر تم نہ بولیں۔ بیوی نے کہا تم سو گئے تھے اور اخبار تمہارے ہاتھ سے گر پڑا تھا۔ میں نے کہا۔ کیا تم دونوں فلاں فلاں باتیں نہ کر رہی تھیں ….؟
انہوں نے کہا۔ ہاں ، یہ باتیں میں نے کی تھیں۔ میں نے کہا۔ اگر میں سو گیا تھا تو میں نے تمہاری یہ باتیں کیونکر سنیں….؟
اس سوال کا جواب میری بیوی نہ دے سکیں۔ شاید سائنس دان اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔
جوانی کے شروع میں جب مجھے جنات، ہمزاد اور ستاروں کو تابع کرنے کا شوق تھا اور میں دو برس تک اس شوق میں مبتلا رہا، اس زمانے کا ذکر ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ پیلی بھیت میں بزرگ رہتے ہیں جن کا نام میاں محمد شیر صاحب ہے اور وہ ایسا عمل جانتے ہیں جس سے جنات ، پریاں، بھوت اور ہمزاد وغیرہ آدمی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ یہ سن کر میں پیلی بھیت گیا اور حضرت میاں صاحب سے ملا، مگر ان کی بزرگانہ اور فقیرانہ ہیبت کے سبب میری اتنی جرات نہ ہوئی کہ اپنا مقصد ان سے کہتا، چپ چاپ ان کی محفل میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔ یکا یک وہ خود میری طرف مخاطب ہوئے اوریہ کہنا شروع کیا۔
رے میاں دلی والے ! سنو جب ہم تمہاری عمر میں تھے تو ہمیں جنات تابع کرنے کا شوق ہوا اور ہم کو ایک آدمی نے جنات مسخر کرنے کا عمل بتایا۔ ہم مسجد کی لمبی جاء نماز پر بیٹھ گئے جو نبی ہم نے عمل پڑھنا شروع کیا، وہ جاء نماز خود بخود بغیر کسی لپیٹنے والے کے پٹنی شروع ہوئی اور ہم بھی اس جاہ نماز کے اندر لیٹ گئے۔ پھر کسی نے ہم کو جاہ نماز سمیت مسجد کے کونے میں کھڑا کر دیا۔
کچھ دیر تو ہم جاء نماز میں لیٹے ہوئے کھڑے رہے۔ آخر ہم نے بہت مشکل سے اس جاء نماز کو کھولا اور اس کے اندر سے نکلے ۔ جاہ نماز کو پھر اس جگہ بچھایا اور اس پر بیٹھ کر جنات کا عمل پڑھنا شروع کیا، مگر ہمارا دل ڈر رہا تھا اور حیرت بھی تھی کہ کس نے ہمیں جاء نماز میں لپیٹ دیا۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہو ا یعنی پھر کسی نے جاء نماز میں ہم کو لپیٹ کھڑا کر دیا اور ہمارا دل دھڑ کنے لگا اور ہم بہت ڈرے۔
آخر ڈرتے ڈرتے جاء نماز کو کھولا اور باہر نکلے۔ جاء نماز کو بچھایا اور عمل شروع کیا۔ تیسری مرتبہ بھی ہم کو کسی نے لپیٹ دیا اور ہم نے پھر کوشش کر کے اپنے آپ کو اس قید سے نکالا۔ باہر نکلے تو ایک آدمی ہمارے سامنے آیا۔
اس نے غصے اور خفگی کے لہجے میں کہا۔ تو یہ عمل کیوں پڑھتا ہے ، اور ہم کو کیوں پریشان کرتا ہے….؟ ہم نے کہا جنات کو تابع بنانے کے لیے وہ کہنے لگا۔ ”لے دیکھ میں جن ہوں۔ آدمی صورت میں آیا ہوں۔ تو ہم کو مسخر کرنے کی محنت نہ کر، ہم آسانی سے کسی کے قابو میں نہیں آئیں گے تو خدا کا مسخرہو جا، ہم تیرے مسخر ہو جائیں گے۔
یہ قصہ سنا کر میاں محمد شیر صاحب نےفرمایا۔ میاں….!
اس دن سے ہم نے تو جنات تابع کرنے کا شوق چھوڑ دیا اور خدا کی تابعداری کرنے لگے اور ہم نے دیکھا کہ واقعی جو آدمی خدا کا تابع ہو جاتا ہے تو دنیا اس کی تابع ہو جاتی ہے۔
میاں صاحب کی یہ بات سن کر میں نے جنات کو مسخر کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔
میرے نانا ایک مرتبہ بہادر شاہ کے بھائی مرزا جہا نگیر سے ملنے الہ آباد گئے۔ جہاں ان کو انگریز کمپنی نے نظر بند کر رکھا تھا۔ مرزا جہانگیر نے نانا کو ایک بڑے مکان میں ٹھہرایا۔ نانا حقہ پیتے تھے۔ اس واسطے تو کرنے اپلے کی آگ، حقہ اور تمبا کو پاس رکھ دیا اور فانوس میں شمع روشن کردی۔
نانا عشاء کی نماز پڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئے۔ سامنے شمع روشن تھی۔ وہ لیٹے ہوئے حقہ پی رہے تھے۔ ایک ایکی ان کا پلنگ اور کسی نے پلنگ کو اوپر اٹھالیا۔ چنگ زمین سے دو گز اونچا ہو گیا۔ نانا گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے پلنگ کے نیچے جھانک کر دیکھا، مگر کوئی چیز دکھائی نہ دی۔
جس دالان میں ان کا پلنگ تھا، اس میں تین در تھے اور پلانگ بیچ کے در میں بچھا ہوا تھا۔ کسی نے اس پلنگ کو اونچا کر کے بیچ کے در سے اٹھایا اور آخری تیسرے در میں لے جا کر بچھا دیا۔ جب پلنگ زمین پر بچھ گیا تو نانا جان پلنگ سے اترے اور انہوں نے پلنگ گھسیٹا اور پھر چ کے در میں بچھا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر چنگ اٹھا اور خود بخود تیسرے در چلا گیا۔ نانا پلنگ کو گھسیٹ کر پھر بیچ کے در میں لے آئے۔ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔
تیسری مرتبہ بھی نانا پلنگ کو گھسیٹ کر بیچ کے در میں لے گئے۔ تب ایک سایہ سا نمودار ہوا جو فانوس کے پاس گیا اور شمع خود بخود گل ہو گئی۔
نانا اٹھے اور انہوں نے گندھک لگی سلائی آگ پر رکھی اور اس کو روشن کر کے شمع دوبارہ جلادی۔ پھر وہ سایہ آیا اور اس نے شمع گل کردی غرض تین مرتبہ یہی ہوا کہ وہ سایہ شمع گل کرتا تھا اور نانا اس کوروشن کر دیتے تھے۔
جب تیسری مرتبہ نانا نے شمع روشن کی تو ایک آدمی چھت کے اوپر سے سیڑھیاں اترتا ہوا آیا اور اس نے میرے نانا کا نام لے کر کہا۔
”سنو میاں غلام حسین ! میں جن ہوں اور شمع کی روشنی سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ تم شمع گل کر دو اور جہاں تم نے پلنگ بچھایا ہے وہاں میں رات کو نماز پڑھا کرتا ہوں۔ لہذا تم اپنا چنگ بھی یہاں سے ہٹالو۔ میں جانتا ہوں کہ تم ضدی آدمی ہو۔ کیونکہ دلی میں
سلسلہ چشتیہ کے صوفی بزرگ ، اردو زبان کے ادیب اور آپ بیتی نگار۔خواجہ حسن نظامی (1878ء تا1955ء)
خواجہ حسن نظامی ادیب، دانشور، مورخ ، صحافی اور صاحب طرز انشا پرداز ہونے کے ساتھ صوفی بزرگ بھی تھے۔ آپ کے والد سید امام، دہلی میں سلسلہ چشتیہ کے صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے وابستہ تھے اور خواجہ حسن نظامی اسی درگاہ سے منسلک بستی میں 1878ء میں پیدا ہوئے۔ خواجہ حسن نظامی بچپن سے ہی نظام الدین اولیاء کے عقیدت مند رہے اور ان ہی کی نسبت سے نظامی سلسلہ سے وابستہ ہوئے۔ خواجہ حسن نظامی کی ابتدائی زندگی تنگ دستی میں گزری، بچپن سے ہی گزر اوقات کے لیے کتابیں بیچنے کا کاروبار پیتی شروع کیا۔ فرصت کے اوقات میں مضامین لکھنے لگے جو اردو کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے ۔ خواجہ حسن نظامی نے دو سو سے زائد چھوٹی بڑی کتب تحریر حضرت خواجہ حسن نظافت کیں، ان میں کچھ مشہور کتب میں کسی پارک دل، غدیر دہلی کے افسانے ، میلاد نامہ محرم نامه گاندھی ،نامه، کرشن بیتی، آپ بیتی، فلسفہ شہادت، بیگمات کے آنسو، گورنمنٹ اور خلافت، فاطمی دعوت اسلام ، مجموعہ مضامین حسن نظامی، طمانچہ بر رخسار یزید، سفر نامہ ہندوستان اور تاریخ فرعون وغیرہ شامل ہیں۔
آپ نے 77 برس کی عمر 31 جولائی 1955ء کو دہلی میں وفات پائی۔ خواجہ حسن نظامی کے جسد خاکی کی تدفین درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے احاطے میں ہوئی۔ زیر نظر قصہ خواجہ حسن نظامی کی خود نوشت سوانح آپ بیتی” میں تحریر ہے۔
تمہارے درگاہ کی زیارت کے لیے کئی مرتبہ آچکا ہوں، مگر یاد رکھو، اس مکان میں رات کے وقت جو آدمی رہتا ہے میں اس کو مار ڈالتا ہوں۔ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم پلنگ یہاں سے ہٹا لو اور شمع گل کر دو، ورنہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔“
نانا نے کہا۔
بھائی جب تم جانتے ہو کہ میں ضدی آدمی ہوں تو سمجھ لو کہ جب تک جیتا ہوں نہ شمع گل کروں گا نہ پلنگ ہٹاؤں گا۔ آج کی رات تم کسی اور جگہ نماز پڑھ لو۔
کل میں اس مکان میں نہ رہوں گا۔ یہ مرزا جہانگیر کے نوکروں نے شرارت کی کہ مجھے ایسی جگہ ٹھہرادیا جہاں تم رہتے ہو ۔ “
یہ بات سن کو وہ جن ہنسا اور اس نے کہا اچھا میاں ! آج رات میں کہیں اور چلا جاؤں گا۔ مگر کل یہاں نہ رہنا۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا اور دوسرے دن میرے نانا مرزا جہانگیر سے ملے اور ان کو بہت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے جنات کے مکان میں کیوں ٹھہرایا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2024