ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ ثاقب علی)یہ ایک بہت زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے کہ ہم بھارتی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک سکے۔
جہاں تک میں معلومات اکھٹی کرسکا ہوں اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔ایک فضائی دفاعی نظام (Air Defense System) کسی بھی فضائی خطرہ کا پتہ لگانے، ٹریک کرنے، تجزیہ کرنے اور روکنے کے اہم حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک ADS کی صلاحیت ان ذیلی نظاموں کی کارکردگی کی صورت میں ماپی جاتی ہے۔ آنے والے میزائل یا جہاز کا ریڈار کراس سیکشن (RCS) بہت اہم ہوتا ہے جس کا مطلب اس آبجیکٹ کو ریڈار میں کتنی آسانی سے ڈیٹیکٹ کیا جا سکتا ہے۔ کم RCS کا مطلب اس آبجیکٹ کو مشکل سے ریڈار میں پکڑا جا سکے گا۔ اس RCS کے علاوہ اس آبجیکٹ کی رفتار، تدبیر (Maneuverability) کرنے کی صلاحیت، ٹریجیکٹری، اور اسٹیلتھ ٹیکنالوجی آنے والے خطرے (میزائل) کے وہ عوامل ہیں جو ایک مؤثر اے ڈی ایس کا ڈیزائن کے لیے انتہائی ضروری ہیں
پاکستان میں ہر کوئی J10C, JF17 اور PL-l5 اور ان کی صلاحیتوں کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ اور اس کا موازنہ رافیل لڑاکا طیارے سے کر رہا ہے۔ بلاشبہ J10C کو رافیل پر بہت سے عوامل میں برتری حاصل ہے لیکن بھارتی فضائیہ کو اس جہاز پر مکمل ٹریننگ کے کچھ مسائل بھی درپیش ہیں لیکن رافیل طیارہ SCALP EG میزائلوں سے لیس ہے۔
یہ SCALP فرانسیسی-برطانوی پروڈکٹ ہے اور یہ کروز میزائل (Mach = 0.8) رفتار سے اپنی درستگی (precision) اور گہری ضرب (deep strike) لگانے کی صلاحیتوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس کی رینج 500 کلومیٹر (~350 کلومیٹر عملی طور پر) ہے اس لیے وہ سرحد پار سے نشانہ بنا سکتے ہیں (جیسا کہ انہوں نے 6-7 مئی کو کیا)۔
یہ SCALP آبدوزوں، ہوائی جہاز، اور زمینی لانچر سے لانچ کیا جا سکتا ہے لیکن بھارت کے پاس یہ صرف رافیل کے لیے ہے۔ ایک رافیل ان میں سے 2 لے جا سکتا ہے۔
یہ کم آر سی ایس (ریڈار کراس سیکشن ایریا) کے ساتھ انتہائی درست، زمینی سطح (terrain) کے ساتھ پرواز کرنے والا (terrain-hugging) میزائل ہے۔ اس لے لیے علاوہ اس پر سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
وار ہیڈ> 450 کلوگرام BROACH (penetrator + blast)
رہنمائی کا نظام > GPS + Inertial + Terrain Matching + IR Seeker (بہت درست)
ہمارے پاس فضائی دفاعی نظام میں کیا ہے؟
پاکستان کے پاس چینی HQ9/LY80 (پاکستان کے لیے HQ9(P)) فضائی دفاعی نظام ہے جو چینی ہے اور اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ اس کی رینج 200 کلومیٹر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ SCALP کے لانچ لوکیشن کا پتہ نہیں لگا سکتا۔ اور یہ 30 کلومیٹر کی بلندی تک کا حدف ڈیٹیکٹ کرسکتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ اس سے اوپر کے ٹارگٹ معلوم نہیں کر سکتا۔ اور 200 میٹر سے کم بلندی پر بھی اس کا ریڈار درست کام نہیں کرتا خاص طور پر عمارتوں والے علاقوں میں اس کے ریڈار کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
اس قسم کے میزائلوں کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے اگر وہ GPS maneuvering اور stealth ٹیکنالوجی سے لیس ہوں۔ چین کے پاس اس دفاعی نظام کا HQ9C ایک بہتر ورژن ہے جس میں stealth کا پتہ لگانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور اس کی رینج بھی زیادہ ہے۔
اس SCALP EG میں ان میں سے بہت سی صلاحیتیں ہیں، یہ low terrain maneuverability اور GPS کی صلاحیت رکھتا ہے اور Air to Surface لانچ اسے زیادہ رسائی فراہم کرتی ہے۔ اسی لیے ان صلاحیتوں کی بنیاد پر اس کو first-strike مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس جنگ میں نقصان تو دونوں طرف کا ہی ہوتا ہے لیکن دفاعی نظام میں کون کہاں کھڑا ہے اس کا اندازہ بھی بخوبی ہوجاتا ہے۔ اب انڈیا اپنے لیے F35 پر نظریں جمائے گا اور پاکستان کو ایک اچھا ائیر ڈیفنس نظام چاہیے ہوگا۔
یہ یاد رہے کہ اتنے لمبے بارڈر پر دفاعی نظام کا نصب کرنا انتہائی مہنگا ہوتا ہے اس لیے پاکستان کا یہ نظام زیادہ تر سٹریٹیجک جگہوں پر ہی نصب ہے۔ اس وقت دونوں طرف کا میڈیا اس جنگ کو بڑھاوا دینے کے سوا کچھ نہیں کررہا۔ یہ عوام کا دباؤ ہی تھا کہ بھارت نے بغیر تحقیق کے یہ قدم اٹھایا۔ اس لیے پاکستان کو بھی عوام کے دباؤ میں کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن اپنے دفاع کے لیے سوچ سمجھ کر ایکشن کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو پاک آرمی کو اس دباؤ میں نہ لائیں کہ وہ انڈیا جیسی غلط حرکت کرے اور اپنا نقصان کروا لے۔
(تحریر: ثاقب علی)