Daily Roshni News

ہم کہ مصلوبِ وفا ۔۔۔ مصنفہ۔۔۔سمیرا سرفراز

ہم کہ مصلوبِ وفا

مصنفہ۔۔۔سمیرا سرفراز

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہم کہ مصلوبِ وفا ۔۔۔ مصنفہ۔۔۔سمیرا سرفراز )اُمید ہے سب خیریت سے ہوں گے۔ ایک نئے ناول کے ساتھ حاضر ہوں۔ کئی مہینوں سے وعدہ کر رکھا تھا آپ سے مگر مصروفیات نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ صحت کا بھی ستیاناس ہورہا ہے۔ کچھ بات اس کہانی کے بارے میں کرلیتے ہیں۔ یہ کہانی جس موضوع پر ہے،میں نے کبھی اس طرح کا کونٹینٹ نہیں لکھا۔ یوں سمجھ لیجئے یہ میرا کمفرٹ زون نہیں ہے مگر یہ کردار مختلف جگہوں سے میرے مشاہدے سے گزرا ہے تو طبیعت اسے لکھنے پر مائل ہونے لگی۔ یہ کہانی مخلتف کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں محبت تو ہے ہی مگر کہانی کی بنیاد میں کسی کا حسد انتقام اور بد نفسی شامل ہے۔ منفی کرداروں کو لکھنا سب سے مشکل کام ہے اور یہ مجھے ٹھیک ٹھاک پتا لگ رہا ہے۔ کردار کی مانگ تھی اسلئے کچھ چیزیں اپنی فطرت اور اندازِ تحریر سے ہٹ کر لکھنی پڑیں۔ اسے ضرور پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہیئے۔ پھر ملاقات ہوگی۔ شکریہ۔

طالب دعا

سمیرا سرفراز۔

********

ناول: ہم کہ مصلوبِ وفا

مصنفہ: سمیرا سرفراز

قسط نمبر:۱

وہ لب بھینچے موبائل کی سکرین کو گھورے جارہا تھا۔ پانچ سال گزر چکے تھے مگر ڈیڈ پتا نہیں کیوں بھولتے نہیں تھے۔ ہر سال آج کی تاریخ اسے یاد دلانا انہوں نے خود پر فرض کر رکھا تھا۔ تاریخ پر ہی موقوف کب تھا؟ وہ تو اسے ہر بار نئے سرے سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر بار اسکے زخموں کو چھیڑ دیتے تھے۔ اٰصال نے ان سے دوری بھی اختیار کرلی تھی۔ وہ انہیں بلا ضرورت فون بھی نہیں کرتا تھا مگر وہ اسکے باپ تھے اور وہ یہ کبھی نہیں بھولتے تھے۔ می می جب تک زندہ رہیں اسکے حق میں ڈیڈ کو دلائل دیتی رہیں۔ انہیں احساس تھا کہ وہ ناحق دھر لیا گیا تھا۔ اسے تکلیف پہنچائی گئی تھی۔ اسکا غصہ بے حسی سب جائز تھا۔ میشا بھی جب تک اس گھر میں تھی می می کی ہم نوا تھی مگر می می کی وفات اور میشا کی شادی کے بعد ڈیڈ بہت اکیلے ہوگئے تھے۔ اب تو وہ یہیں تھا انکے ساتھ مگر وہ یہ بات پچھلے پانچ سالوں میں بھی نہیں بھولے تھے۔ اس معاملے میں انکی مستقل مزاجی کو سلام تھا۔ اٰصال کے لئے یہ معاملہ ہمیشہ ہی حساس اور جڑیں اکھاڑ دینے کے مترادف ہوتا۔ آج کی تاریخ سوگ کی تاریخ تھی اور آج وہ ڈیڈ سے دانستہ ناراضگی کا اظہار کرتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے مقابلے پر آج بھی کسی اور کو مظلوم سمجھتے تھے۔ انہیں آج بھی لگتا تھا کہ وہ اکیلا وکٹم نہیں تھا۔ خسارہ کسی اور کے حصے میں بھی آیا تھا جبکہ اٰصال تہامی کو اچھی طرح یاد تھیں وہ بے اعتبار نگاہیں جن میں اسکے لئے شک تھا۔ بیزاری تھی۔ یہ بات وہ ڈیڈ کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا مگر وہ نہیں مانتے تھے۔ وہ خود اس رشتے سے مكدر تھا۔ وہ یقین کے راستے سے بھٹک چکا تھا۔ اسے اب کسی پر اعتبار نہیں آتا تھا۔ اس واقعے نے اسکی فطرت اور سوچ کو مکمل طور پر بدل دیا تھا۔ ڈیڈ اسے ایک طرف کر دینا چاہتے تھے اور وہ کسی بھی طرف ہونے کو تیار نہیں تھا سو یہ معاملہ یوں ہی سالہا سال سے بے نتیجہ انکے درمیان پڑا سڑ رہا تھا۔

******

“کافی ٹو نائٹ؟”

لالہ رخ نے ایک طوفانِ برہمی اپنے اندر اتارا تھا تاکہ خود کو کچھ بھی غلط اور جذباتی کرنے سے روک سکے مگر اس شوخ رنگ کی دعوتی چٹ کو دریا برد کرنا نہیں بھولی تھی۔ اسے فرانس آئے آٹھواں مہینہ تھا، وہ فل برائٹ اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی کرنے کیلئے یہاں آئی تھی اور پچھلے دو ماہ سے اسکے سپروائزر کی نظر کرم اس پر ہوگئی تھی۔ فلرٹ تو وہ اس سے پہلے دن سے کرنا چاہ رہا تھا مگر لالہ رخ کے منہ پر بڑا سا نو لفٹ کا بورڈ لگا دیکھ کر جامے میں آگیا تھا۔ وہ آدھی عمر کا فرنچ آدمی جسکی دو ماہ پہلے اپنی خوف ناک بهدی سی بیوی سے علیحدگی ہوگئی تھی اور تبھی سے اسے مكهن ملائی جیسی لالہ رخ دوبارہ ٹائم پاس لگنے لگی تھی۔ آئے دن اسے کبھی زبانی کبھی تحریری طور پر چائے کافی لنچ ڈنر کی پیش کش کرکے وہ سیدھے سیدھے اسکے ضبط کو آزما رہا تھا۔ وہ جیسی زندگی اب جی رہی تھی ایسے میں وہ کوئی ایسا رسک نہیں لے سکتی تھی جس سے اسے یہاں سے بے دخل کیا جاتا سو چپ کی بكل مارے اس وقت کے گزرنے کا انتظار کررہی تھی۔ اسے مردوں سے خوش اخلاقی برتنے کا کوئی شوق نہیں تھا نہ ہی کہیں دل چسپی تھی۔ یہاں وہ ہوسٹل میں رہتی تھی اور اسی علاقے میں اسکے چچا زاد حدیف کا بھی گھر تھا جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہاں سیٹل تھا۔ وہ ہر ویکینڈ وہاں ضرور جاتی اور کچھ اچھا وقت گزار کر واپس آجاتی۔ آج بھی یونیورسٹی سے چھٹی کے بعد وہ ہوسٹل سے ضروری سامان لے کر نکل آئی تھی جب اسکی نوٹ بک سے اسکے سپروائزر ڈاکٹر ایلن کا یہ دعوت نامہ پھسل کر گرا۔

“اس پاگل کے بچے کو کوئی بتائے کہ رات کو کافی کیلئے کون پوچھتا ہے۔۔ خبیث!”

حدیف کے اندر کا پاکستانی کبھی کبھی یوں ہی باہر آجاتا تھا۔ لالہ رخ روہانسی ہوگئی۔

“با خدا یہ پاکستان میں مجھے چھیڑ کر دکھاتا۔ وہ تواضع کرتی کہ یاد کرتا بے غیرت!”

لالہ رخ بھری بیٹھی تھی۔ اریبہ قہقہہ مار کر ہنسی۔

“واقعی تم پاکستانی بڑے لڑاکا ہوتے ہو۔ بیچارہ ایلن۔۔”

اریبہ پیدائشی فرانسیسی تھی۔ باپ دادا کسی زمانے میں یورپ آکر آباد ہوگئے تھے۔ اس نے خود تو پاکستان کا منہ بھی نہ دیکھا تھا نہ ہی دیکھنا چاہتی تھی۔ حدیف کے ابا نے اسے پڑھنے بھیجا تھا۔ کپڑے کا بہت پھیلا ہوا کاروبار تھا۔ اس نے فیشن ڈیزائننگ میں ڈگری لی اور یہیں ایک بوتیک کھول لیا۔ اچھا جما جمايا کام تھا اسکا۔ اریبہ ساتھ پڑھتی تھی۔ شادی بھی آسانی سے ہوگئی۔ دو تین سال میں ایک چکر پاکستان کا لگا لیتا یا وہاں سے کوئی آجاتا۔ اریبہ اور بچے البتہ کبھی نہ گئے تھے۔

“لڑاکا نہیں غیرت مند ہیں ہم۔۔ وہ الگ بات ہے کہ اس بے غیرتی کے ماحول میں ہمیں تھوڑا قابو رکھنا پڑتا ہے مگر کیا پیٹھ پیچھے بھی غصہ نہ نکالیں؟”

حدیف کی ننی منی غیرت آج جوش مار رہی تھی۔ لالہ رخ بھی کیا کہتی۔ کون سا سگا بھائی تھا؟ سگے بھائیوں کی غیرت اسے ایک بار تباہ کر چکی تھی اور وہاں بھی سوال انکی اپنی عزت کا تھا اسکی خوشیوں کا نہیں۔ سو اب جو جتنا اسکے لئے کردیتا وہی بہت تھا اور کسی کی غیر ضروری ہمدردی اور محبت سے اب اسے الجھن ہوتی تھی۔ حدیف اور اریبہ دوستوں کی طرح اسے خوش آمدید کہتے اسکے معمولات سے با خبر رہتے یہی بہت تھا۔

“اور لالہ رخ کیا خاک لڑے گی۔۔ ایسے ہی بول رہی ہے۔ اسکے بس کی بات ہوتی لڑنا تو آج یہاں نہ بیٹھی ہوتی۔”

حدیف بول گیا پھر لالہ رخ کی حیران شکل دیکھ کر ہاتھ اٹھا دئیے۔

“سوری لالہ بٹ دیٹس ٹرو! “

اسکے سنگدلانا بیان پر لالہ رخ نے بمشکل آنسووں کو پیچھے دھکیلا۔

“چلو کوئی نہیں اس سے بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں لائف میں۔ تم بہت مضبوط ہو لالہ۔ میں تمہیں انسپائر کرتی ہوں۔”

اریبہ سب جانتی تھی۔ اسے اچھا نہیں لگا کہ لالہ رخ یہاں آکر بھی اداس ہو۔

“کم لیٹس ہیو ڈنر اور پھر کل حدیف ہمیں باہر لے کر جائے گا لیک پر۔۔ بچوں سے پرامس کیا تھا اس نے کہ لالہ آئے گی تو ہم چلیں گے۔”

اریبہ مسلسل اسکی دل جوئی کررہی تھی۔ اسے شرمندگی ہونے لگی۔ وہ سر ہلا کر مسکرادی۔

“اوکے یار سوری ۔۔ چلو بھوک لگی ہے بہت۔”

حدیف نے اسکا سر تھپکا اور سب ڈنر کیلئے اٹھ گئے۔

*******

“ہمیشہ کی طرح لیٹ۔۔ بہت مزہ آتا ہے تمہیں لوگوں کو انتظار کرواکر۔”

میلمہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ریسٹورنٹ کی کرسی پر بیٹھی تھی۔ تنگ سی آسمانی جینز مسٹرڈ شرگ،گلے میں لٹکتا گٹھلی کے پینڈل والا سیاہ دھاگہ نما ہار اور لونگ شوز۔ براؤن گولڈن ہائی لائٹس والے خوبصورت کمر کو چھوتے بال جنہیں اٰصال کی آمد پر بڑی ادا سے سنوارا گیا تھا۔

“میں نے کسی کو ٹائم نہیں دیا نہ ہی پابند کیا ہے لہٰذا مجھ سے پوچھ گچھ کا کسی کو حق نہیں۔ ہو تم اتنی فارغ تو شوق سے بیٹھو سارا دن۔”

وہ اٰصال ہی کیا جو کسی کا دل رکھ دے اور میلمہ کا؟ کبھی نہیں! مگر وہ کبھی مایوس نہیں ہوتی تھی۔ اٰصال تہامی اسکا عشق تھا جنون تھا۔ اسکا ہر ستم گوارا تھا۔

“اب آکر بھی موڈ آف ہی کروگے؟ چلو بابر آرڈر کرو جاکر۔”

اس نے لاڈ سے اٰصال کا كندها دبایا اور سامنے بیٹھے اپنے کلاس فیلوز میں سے ایک کو حکم دیا۔

“ہم اسکے باپ کے نوکر ہیں جو جب دل چاہتا ہے حکم دے دیتی ہے۔”

بابر جاتے ہوئے بھی ساتھ چلتے عدیل سے بڑبڑا رہا تھا۔

“بس سب اٰصال کو امپریس کرنے کے بہانے ہیں جبکہ وہ اسے لفٹ بھی نہیں کراتا۔”

عدیل نے دور ٹیبل پر اپنے موبائل پر مصروف اٰصال کو دیکھا پھر اسے وفور شوق سے تکتی میلمہ کو۔

“چل بھائی ہمیں تو مفت کا کھانا مل جاتا ہے ہمیں کیا؟”

بابر خود ہی بول کر ہنس دیا تھا۔ یہ سچ تھا کہ میلمہ یونیورسٹی کے چار سالوں میں اٰصال کے پیچھے اتنا خوار ہوئی تھی جتنا کبھی زندگی میں نہیں ہوئی تھی۔ مگر اٰصال بہت روڈ تھا۔ شکل صورت پیسا خاندان سب تھا اسکے پاس مگر وہ اپنی ہم پلا میلمہ کو کبھی ایک دوست سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اسکی بہت سی لڑکیوں سے بات چیت تھی جو اسکی کلاس میں یا فیملی میں تھیں مگر وہ فلرٹ نہیں تھا۔ اس نے کوایجوکیشن میں پڑھا تھا۔ لڑکیاں اسکے لئے ہوّا نہیں تھیں۔ میلمہ کی اس سے ملاقات یونیورسٹی کے دوسرے دن ہی ہوگئی تھی۔ اسکا میلمہ کو عام سے انداز میں ٹریٹ کرنا ہی میلمہ کو چیلنجنگ لگا تھا اور کچھ وہ اسے اچھا بھی بہت لگ گیا تھا۔

“تو تم نے اپنے ڈیڈ کا بزنس جوائن کرلیا؟ پارٹی کب دے رہے ہو اپنی پہلی سیلری سے؟”

وہ بلا وجہ شوخ ہوجاتی تھی۔ ساتھ ساتھ اٰصال کو کبھی ہاتھ مارتی کبھی كندها۔ مخاطب کرنے کیلئے بھی بلا جھجک اسے  چھو لیتی۔ اسے یہ سب عام سا ہی لگتا۔ اٰصال نے بھی کبھی ٹوکا نہیں تھا مگر وہ کچھ خاص پسند بھی نہ کرتا تھا۔

“ٹریٹ تو سب ہی مانگ رہے ہیں تو یونیورسٹی میں ہی کسی دن سب کو ٹریٹ دے دوں گا۔”

اس نے موبائل سے نظریں ہٹا کر اسے مطلع کیا۔ میلمہ کی طبیعت مكدر ہوگئی۔

“میری ٹریٹ الگ سے ہوگی۔ باقی سب کا مجھ سے کیا مقابلہ؟”

اسکی پیشانی پر شکن ہوگئی۔ اٰصال نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا اور مسکرا دیا۔

“”اچھا بھئی تم الگ سے لے لینا حالانکہ ہو تو تم بھی میری دوست ہی۔”

وہ جتانا نہیں بھولا تھا۔ جب جب وہ دوستی کا راگ الاپتا میلمہ کو جامے میں آنا پڑتا۔ پھر اگلے کئی دن وہ اچھی دوست ہونے کا ثبوت دیتی اور اٰصال نارمل ہوجاتا۔ وہ بے خبر تو نہیں تھا میلمہ کے جذبات سے مگر وہ اسکی چوائس نہیں تھی۔ دوستی محبت شادی سب الگ چیزیں تھیں۔ وہ انہیں ایک نہیں کرسکتا تھا۔ ہر معاملے کی مانگ الگ تھی۔ دوستی ہم پلا لوگوں سے کی جاتی ہے۔ محبت کسی سے بھی ہوسکتی ہے مگر شادی ہر ایک سے نہیں ہوسکتی۔ یہ اسکا اپنا نظریہ تھا اور میلمہ صرف دوست ہوسکتی تھی۔ نہ محبت نہ شادی کیلئے چنا جانے والا ہمسفر۔ اس حوالے سے وہ بالکل کلیر تھا۔ وہ اور بات کہ یہ وہ میلمہ سے نہیں کہہ سکتا تھا۔

********

“اجلال بھائی جلدی کریں میرا یونیورسٹی کا پہلا دن ہے اور آپ ہیں کہ آرام سے پراٹھا کھا رہے ہیں۔”

لالہ رخ آندھی طوفان کی طرح سارے گھر میں چکراتی پھر رہی تھی۔ اسکی چیزیں حسب عادت گھر کے ہر حصے میں موجود تھیں اور وہ جگہ جگہ سے اپنا سامان برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ اجلال کو بھی ہانک لگا رہی تھی۔ اجلال نے بڑا سا نوالہ منہ میں رکھ کر دو گھونٹ کی چائے ایک گھونٹ میں اندر لی اور کھڑا ہوگیا۔

“بنجارن! نہ خود اب تک پوری تیار ہو نہ تمہارا سامان اور مجھے بلا وجہ اٹھا دیا۔”

اس نے لالہ رخ کا کان کھینچا۔

“ارے بس تیار ہوں میں گاڑی نکالیں آپ۔”

اس نے ہاتھ میں پکڑا دوپٹہ گلے میں گھمایا کیچر دوپٹے کے اوپر اٹکایا اور بیگ کا ہک بند کرتی اجلال کے پیچھے بھاگ نکلی۔

“کسی دن توڑ دینا تم یہ دروازہ ! جنگلی لڑکی !”

اجلال سے اسکی اکثر لڑائی زور سے دروازے بند کرنے پر ہوتی تھی خاص کر کار کا دروازہ۔

“اچھا نا آج بھی ڈانٹ رہے ہیں آپ مجھے۔ یہ نہیں کہ اکلوتی بہن کا پہلا دن ہے یونیورسٹی کا۔ کوئی چیز ویز دلادیں۔ کوئی چاکلیٹ کوئی برگر کوئی آئس کریم!”

اسکی لسٹ لمبی ہونے لگی۔ اجلال ہنسا۔

“اکلوتی بہن کا یونیورسٹی کا پہلا دن ہے یا سسرال کا؟”

“مطلب سسرال آپ مجھے برگر چاکلیٹ دے کر رخصت کریں گے؟”

لالہ رخ نے آنکھیں باہر نکالیں۔

“نہیں نہیں وہاں تم چاکلیٹ سے کہاں ٹلوگی۔ وہاں کیلئے تو کروڑوں کا جہیز دینا پڑے گا”

اجلال برابر اسے چھیڑتا رہا۔

“ہاں تو ظاہر ہے۔ جائیداد تو آپ کھا جائیں گے اسلئے جہیز کم سے کم کروڑوں کا ہی لوں گی میں۔”

وہ کہاں باز آنے والی تھی۔ اجلال نے گھورا۔

“اب تمہارے کروڑوں کے جہیز کیلئے بچت ضروری ہے اسلئے میں نے چاکلیٹ آئس کریم کے پیسے بچا لئے ہیں اکٹھے جہیز میں لے لینا۔ اب بھاگو شاباش تمہاری یونیورسٹی آگئی۔”

اجلال نے اسکی بات پکڑ لی تھی۔

“یار بھائی یہ کوئی بات نہیں۔’

وہ منمنائی۔ اجلال ہنسی روکتا رہ گیا۔ ساتھ ساتھ اسے گیٹ آوٹ کا اشارہ بھی کرتا رہا۔ وہ آنکھیں دکھاتی اتر گئی۔ وہ کھڑا رہا جب تک وہ گیٹ سے اندر داخل نہیں ہوگئی۔

“ہیلو؟ آگے بڑھئے مسٹر! یہ آپ کا کار پورچ نہیں ہے۔”

ٹھک ٹھک لمبے ناخنوں سے شیشہ بجاتی وہ طرح دار حسینہ اسے گنگ کر گئی تھی۔ وہ اسے گھورتا ہوا گاڑی بڑھا لے گیا۔ میلمہ نے اس ہینڈسم سے آدمی کی نظروں کا ارتکاز محسوس کیا تو خائف سی ہوکر پیچھے ہٹ گئی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی مرد اس قدر بے باکی سے اسے اتنی گہرائی تک گھورے۔ وہ سر جھٹکتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی۔

******

“بس کردو لالہ کب تک بیچارے اجلال بھائی کو کوسوگی؟ غریب لڑکی کینٹین سے کچھ لے کر کھالو ایسا بھی کیا ہوگیا؟”

حسنہ بری طرح بیزار ہوگئی تھی۔

“ہاں تو کیا جارہا تھا انکا۔ ایک برگر ہی تو مانگا تھا۔ کتنی بھوک لگ رہی ہے مجھے اب۔ یا اللّه میاں مجھے ایک برگر آسمان سے اتار دیں وہ بھی کسی اچھے سے ریسٹورنٹ کا۔”

اس نے باقاعدہ ہاتھ پھیلا کر برگر مانگا اور جبھی ایک برگر کا ڈبہ اسکی پھیلی ہتھیلیوں پر آکر ٹھہر گیا۔ حسنہ الگ منہ کھولے دیکھ رہی تھی۔ دینے والے نے اسے بھی نوازا۔ لالہ رخ حیرت سے مرنے والی ہوگئی۔

“ہائے فرشتے۔۔۔ کیا واقعی اللّه نے میری سن لی؟”

بابر نے آنکھیں سکیڑ کر اسکی ایکٹنگ دیکھی۔

“پاگل ہو کیا؟”

لالہ رخ اس طرز تخاطب پر ہوش میں آئی۔

“پاگل کس کو بولا اور تم ہو کون اور یہ کھانا کیوں دیا ہے ہمیں؟ بھک منگا سمجھا ہے کیا؟”

وہ ڈبہ تھامے اسکے روبرو کھڑی ہوگئی۔ بابر بدک گیا۔

“ہاں آج غریبوں کا دن ہے۔ تم بھی مفت کا کھانا اڑاؤ۔ وہ رہے مالک جنکے خزانے کا آج منہ کھلا ہے۔شکریہ کہنا ہے تو انکا کہو۔”

وہ الٹی سیدھی بتا کر سامنے بیٹھے اٰصال کی طرف اشارہ کرکے بھاگ گیا۔

“شکریہ مائی فٹ!”

لالہ رخ نے آستینیں چڑھائیں اور تن فن کرتی اٰصال کے سر پر پہنچ گئی۔ وہ میلمہ اور سمیع کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آہٹ پر مڑ کر دیکھا تو ایک کم عمر سی بٹر کپ جیسی لڑکی سفید نارنجی اور زرد رنگ کے لباس میں اسکے سامنے کھڑی تھی۔ کاٹن نیٹ کا سفید دوپٹہ گردن سے گھوم کر سینے پر پڑا تھا۔ الجھا سا سنہری بالوں کا جوڑا اور چہرے کے اطراف بکھری لٹیں۔۔ براؤن گولڈن آنکھیں گلابی چہرہ چوٹی موٹی سی ناک پتلے گلابی ہونٹ۔ گڑیا جیسے چہرے پر دبا دبا غصہ لئے وہ اٰصال کو گھور رہی تھی۔ ہاتھ میں برگر کا ڈبہ موجود تھا۔ وہ نا سمجھی سے کندھے اچکا کر وجہ پوچھنے لگا۔

“یہ؟ یہ بھیک کیوں دی مجھے؟ کیا سمجھا ہے؟ بھوک لگ رہی تھی مگر كنگلی نہیں ہوں میں۔ آئے بڑے نہیں تو۔”

وہ جو منہ میں آیا بول گئی۔ حسنہ پیچھے سے بازو کھینچنے لگی۔

“سوری یہ بس ایسے ہی۔۔”

اٰصال کو ذرا برابر فرق نہیں پڑا تھا۔

“اٹس اوکے رکھ لیجئے۔۔ ٹریٹ ہے۔”

وہ اسے بالکل نہ جانتا تھا شاید کوئی نیو کمر تھی۔ وہ یہی سمجھا کہ وہ تامل برت رہی ہے مگر بھوکی ہے ‘بیچاری’۔

“ٹریٹ ہے یا بھیک؟ خیرات بانٹنے کا اتنا شوق ہے تو ایدهی جائیں یہاں کیوں آگئے؟”

اس نے برگر اٰصال کی گود میں پٹخا اور یہ جا وہ جا۔ وہ ہرگز اسکے غصے کا سبب نہیں سمجھ پایا تھا۔ ارد گرد سب ہی اسکا دیا برگر کھا رہے تھے۔ آدھے لوگوں کو تو وہ واقعی نہیں جانتا تھا۔ بابر ہی سب کو سرو کررہا تھا۔

“عجیب لڑکی تھی۔۔ ایڈیٹ۔”

میلمہ بڑبڑائی۔ اٰصال اب تک اس پھولے منہ والی کو جاتا دیکھ رہا تھا۔ اس نے بابر کو آواز دی اور معاملہ پوچھا۔

“ہاتھ پھیلا کر دعا مانگ رہی تھی کہ آسمان سے برگر ٹپک جائے۔ میں نے ٹپکا دیا تو چڑ گئی۔”

اسکی بات پر وہ سب ہنس دئیے۔

“سٹوپڈ!”

اٰصال زیر لب کہتا ہوا پھر اسے دیکھنے لگا جو اب کینٹین کی طرف جارہی تھی۔

********

جاری ہے ۔۔۔

Loading