یک زمانہ صحبت بااولیاء
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ یک زمانہ صحبت بااولیاء۔۔۔ قسط نمبر2 )اپنے پیر و مرشد سے کرتا ہوں ، اتنی محبت کوئی نہیں کر سکتا۔ ایک روز حضور قلند ر ہا با اولیا ن نے مجھ سے فرمایا خواجہ صاحب! آپ نے میگنٹ دیکھا ہے ؟…
میں نے کہا جی ہاں دیکھا ہے“۔ پھر دریافت فرمایا “لوبادیکھاہے ؟ عرض کیا “جی ہاں ! دیکھا ہے”۔
اور یہ کبھی دیکھا ہے کہ لوہے نے میگنٹ کو کھینچے لیا ہو ؟… عرض کیا نہیں …
اس کے بعد حضور قلندر بابا اولیاء ؒنے ارشاد فرمایا پھر مرید پیر سے محبت کیسے کر سکتا ہے ؟…. محبت کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟…. اصل بات یہ ہے کہ پیر مرید سے محبت کرتا ہے۔ جب اس محبت کا عکس مرید کے اندر داخل ہوتا ہے تو مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں محبت کرتا ہوں۔ میگنٹ لوہے کو کھینچتا ہے لوہا سمجھ رہا ہے میں اپنے قدم سے چل کر میگنٹ کی طرف جارہا ہوں۔ پیر و مرشد مرید سے محبت کرتا ہے، ایثار کرتا ہے، مرید یہ کجھتا ہے کہ میں پیر ومرشد کی طرف بھاگاچلا جارہا ہوں”۔
امام سلسلہ عظیمیہ قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں… مرید اور مر شد کارشتہ استاد اور شاگرد، اولاد اور باپ کا ہے ، مرید مرشد کا محبوب ہوتا ہے۔ مرشد مرید کی افتاد طبیعت کے مطابق تربیت دیتا ہے۔ اس کی چھوٹی بڑی غلطیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔ نشیب و فراز اور سفر کی صعوبتوں سے گزار کر اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں پر سکون زندگی اس کا احاطہ کر لیتی ہے ۔ مرید کی بے خبری میں پیر و مرشد کی مرید پر عنایات کے حوالے سے فرمایا کہ حضور قلندر بابا اولیاء نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ … ” بعض حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ پیر ومرشد اپنے دوست اپنے مرید کے اندر سے تعفن کو الگ کرتا ہے ،صاف کرتا ہے ، بار بار صاف کرتا ہے اور وہ خود کو گندہ کر لیتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرشد ساری زندگی ایک مرید کی صفائی پر لگا ہے لیکن آخر میں مرید پھر خود کو گندہ کر لیتا ہے اور رہتا ہے کیا پیرومر شد اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔“
مر شد اپنے تصرف سے مرید کو دھو کر صاف کر کے اس کے اندر روشنیاں منتقل کرتا ہے۔ مرید اگر ایک منٹ کا فقہ کرے تو تین سال کی روشنیاں ضائع ہو جاتی ہیں اور مرشد کے لئے سب سے مشکل کام یہ ہے کہ وہ بار بار مرید کے اندر کی کثافت کو دھو کر روشنیاں منتقل کرتا رہتا ہے اور مرید ایک منٹ کے ننے سے ان روشنیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ مرید روشنیوں کو ضائع کرنے سے نہیں تھکتا مر شد روشنیاں ذخیرہ کرنے سے نہیں جھکاتا اگر اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہوتی ہے تو کام آسان ہو جاتا ہے ورنہ اسی صفائی ستھرائی میں مر شد پردہ کر لیتا ہے یا مرید مر جاتا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء فرمایا کرتے تھے کہ اس بات پہ کبھی نہیں اترانا کہ میں اللہ کا بر گزیدہ بندہ ہو گیا ہوں۔ میرے اوپر اللہ کے بڑے انعامات ہیں ۔ مجھے کشف ہو گیا ہے۔ مجھے بچے خواب نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی رحمت اور انعام ہے اور اللہ تعالی کی یہ بخشش ہے کہ اللہ تعالی نے لاکھوں بندوں میں سے جن چند بندوں کو نواز دیا ان میں ہمارا نام بھی شامل ہے … ( الحمد بند)۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے مر شد کریم قلندر بابا اولیاء سے اپنا خواب بیان کیا انہوں نے تعبیر بتائی کہ تم اخلاق کی فضول خرچی کرتے ہو۔ مجھے حیرانی کے ساتھ پریشانی لاحق ہو گئی کہ کیا اخلاق کی فضول خرچی بھی ہوتی ہے ؟
عظیمی صاحب بتاتے ہیں میں نے حضور قلندر بابا اولیاء سے ایک روز سوال کیا کہ سب کے ساتھ بشری تقاضے ہیں، کمزوریاں ہیں.. مجبوریاں ہیں پھر ہر شخص کیسے خوش رہ سکتا ہے۔“
تو انہوں نے مجھے تین باتیں بتائیں کہ ان تینوں کو اختیار کر کے آدمی ہمیشہ خوش رہ سکتا ہے۔ فرمایا… پہلی بات یہ ہے کہ جو تمہارے پاس ہے اس کا شکر ادا کرو ، جو تمہارے پاس نہیں ہے اس کا شکوہ نہ کرد دوسری بات یہ ہے کہ جد و جہد کرو اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی کی کوشش رائیگاں نہیں کرتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ کسی سے توقع قائم نہ کرو۔ حضور قلند ر ہا با اولیاء کے حلقہ ارادت میں تقریباً ہر شعبہ کے لوگ شامل تھے۔ انجینئر ، ڈاکٹر ، ٹیچر ، پروفیسر ، صنعت کار ، سوداگر ، اعلیٰ عہدوں پر فائز اور ماتحت سرکاری افسران … سب ہی لوگ حاضر ہوتے تھے … حضور قلند ر ہا ہا کے کمرے میں ایک تخت بچھا ہوا تھا … تخت کے اوپر ایک چٹائی اور دو یکیے رکھے رہتے تھے … محنت کے سامنے ایک کرسی اور ایک تپائی (پیچ) پڑی ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی اٹیچی تھی جس میں ایک یا دو جوڑے کپڑے رکھتے تھے لوگ جب حاضر ہوتے اور ایک کرسی اور بینچ پر بیٹھ جاتے تو گفتگو کا سلہ کبھی قلند ر ہا ہا شروع کرتے تھے اور کبھی حاضرین میں سے کوئی ایک سوال کرتا تھا۔ سوال و جواب کی یہ محفل گھنٹوں جاری رہتی تھی۔ ہر علم کے بارے میں سوال کرنے کی عام اجازت تھی۔ لیکن روحانی، تحقیقی اور سائنسی علوم کے بارے میں سوال کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ شب بیداری قلندر بابا اولیاء کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس دوران بھی سوال و جواب کی محفل جم جاتی تھی۔ حضور قلندر بابا اولیاء کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ وہ خود ہی کوئی بات بیان کر کے سننے والے سے پوچھتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ … یا کوئی طالب علم سوال کرتا تھا تو اس کا تشفی بخش جواب دینا قلندر بابا اولیاء اپنا فرض جانتے تھے۔
خواجہ صاحب بیان کرتے ہیں قلندر بابا اولیاء کے پاس جب لوگ آیا کرتے تھے تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو بھٹی کوئی کام ہو تو بتادو۔ ہمارے ساتھ استاد شاگردی کارشتہ نہ استوار کر دور نہ پریشانی ہو گی۔ جو تمہارا کام ہے کہو …. ہم اللہ سے دعا کریں گے۔“ مرشد کریم حضور قلند ر ہا ہا اولیاء نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ…. ” پیر اور فقیر میں فرق ہے۔ فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اس میں استغناء ہوتا ہے اس کے اندر دنیاوی لالچی نہیں ہوتا وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا کفیل صرف اور صرف اللہ ہے۔ اللہ اس کو اطلس و کمخواب پہنا دیتا ہے وہ خوش ہو کر پہن لیتا ہے، اللہ اس کو کھد ر پہنا دیتا ہے۔ اس میں بھی وہ خوش رہتا ہے۔ اس کے پاس کچھ نہ رہے وہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ دوسری پہچان یہ فرمائی کہ جب تک بندہ فی الواقع کسی فقیر کی صحبت میں رہتا ہے اس کا ؤ من اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔“ حضور قلندر بابا اولیاء نے ایک مرتبہ فرمایا …. سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ” مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے … اس ارشاد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کی مومن کا دیکھنا بھی عام انسانوں کی ہی طرح سے ہوتا ہے لیکن عام انسان کی نگاہ پر محدود شعور کا چشمہ لگا ہوتا ہے اور مومن کی آنکھ پر اللہ کے نور کا چشمہ لگا ہوتا ہے۔ اللہ کے نور کے ذریعے وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کا کھلے عام اظہار نہیں کرتا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2016