Daily Roshni News

یہ ایک “میں”…

یہ ایک “میں”…
کتنی مختصر، کتنی چھوٹی سی،
مگر جب یہ دل و دماغ میں رچ بس جائے،
تو انسان کو ایسا اندھا کر دیتی ہے
کہ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
نہ کسی کا درد،
نہ کسی کا پیار،
نہ کسی کے خالص جذبات،
نہ کسی کے خاموش آنسو۔

انسان جب “ہم” سے “میں” میں تبدیل ہوتا ہے،
تو وہ صرف رشتہ نہیں توڑتا —
وہ خود سے جڑی انسانیت کو بھی روند دیتا ہے۔
اسے لگتا ہے وہ سب جانتا ہے،
وہ سب کچھ کر سکتا ہے،
وہ سب پر فوقیت رکھتا ہے…
اور وہ بھول جاتا ہے کہ
جس ذات نے اسے پیدا کیا،
وہ “میں” نہیں “ہم” سکھاتی ہے —
رحم، عجز، اور شکرگزاری سکھاتی ہے۔

یہ “میں”…
آہ! کیسی خاموشی سے
انسان کے اندر غرور بن کر بس جاتی ہے۔
پھر وہ کسی کی محبت کو کم تر جاننے لگتا ہے،
کسی کے خلوص کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے،
اور کسی کے جذبات کو معمولی، بے وقعت،
بس ایک اضافی چیز سمجھنے لگتا ہے —
جو اگر ہو تو ٹھیک،
نہ ہو تو بھی کیا فرق پڑتا ہے!

اسی “میں” کے غرور میں
کتنے رشتے دم توڑ جاتے ہیں،
کتنے لفظ دل میں دب جاتے ہیں،
کتنے لوگ اپنی ذات کے اندر
خاموشی سے ٹوٹتے رہتے ہیں۔

محبت ہو یا تعلق،
ایثار ہو یا قربانی —
یہ سب “میں” کے لیے نہیں،
“ہم” کے لیے ہوتے ہیں۔
لیکن جب انسان “میں” میں گم ہو جائے،
تو وہ اُن لوگوں سے بھی دور ہو جاتا ہے
جو اسے بغیر کسی لالچ کے چاہتے تھے،
جو خاموشی سے اس کے درد سمیٹتے تھے،
جو بنا کچھ مانگے
دعاؤں میں اس کا نام لیتے تھے۔

افسوس…
پھر ایک دن ایسا آتا ہے
جب وہی “میں” جس پر ناز تھا،
اکیلا کر جاتی ہے۔
اور تب جا کر انسان سمجھتا ہے کہ
“میں” صرف لفظ نہیں تھی،
یہ ایک اندھی کھائی تھی،
جس میں وہ خود ہی اپنے آپ کو دھکیل آیا۔

اس وقت نہ پاس کوئی روتی آنکھ ہوتی ہے،
نہ شانہ تھپتھپاتا کوئی ہاتھ…
صرف تنہائی،
صرف پچھتاوا،
اور وہ سارے جذبات —
جنہیں کبھی حقیر جان کر نظرانداز کیا گیا تھا —
وہی پلٹ کر سوال بن جاتے ہیں۔

تو اے انسان!
اگر تُو واقعی بڑا بننا چاہتا ہے،
تو “میں” کو تھوڑا سا جھکا،
تھوڑا سا مٹا،
اور “ہم” کو جگہ دے…
کیونکہ انسان “میں” سے نہیں،
محبت سے پہچانا جاتا ہے۔

Loading