۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
شاعرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شاکر
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لئے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
لے جاہیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
پروین شاکر