Daily Roshni News

ؒصدائےجرس۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

صدائےجرس

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائےجرس۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)کائنات میں موجود ہر شے کی بنیاد علم ہے:ایک قدیم حکایت ہے …. چاند کی چودھویں تاریخ تھی، دودھیا چاندنی سے زمین کا گوشہ گوشہ روشن تھا …. ایک مسافر جو چاندنی رات میں محو سفر تھا، چاند کی تعریف کرتے ہوئے بولا ”اے چاند ! تم کتنے عظیم اور مہربان ہو ۔ تمہاری روشنی سے رات کی تاریکیاں اجالوں میں بدل گئی ہیں ۔ تمہارا وجود بنی نوع انسان پر ایک عظیم احسان ہے۔ اب دیکھو، تمہاری روشنی میں میرا سفر کتنا آسان، دلفریب اور مسحور کن ہو گیا ہے“…. یہ کہتا ہو اوہ اپنے راستہ پر روانہ ہوا۔ اسی وقت شہر کے کسی گھر میں ایک چور، چوری کی غرض سے داخل ہوا، چاند کی روشنی میں اُسے اپنے پکڑے جانے کا خوف لاحق ہوا تو وہ اُسی گھر کے ایک کونے میں د بک گیا اور چاند کو کوسنے لگا ” تیر اوجود میرے لیے بد بختی کی علامت بن گیا ہے، تو نے میری آزادی اور میرے رزق میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ کاش کہ ایسا ہو کہ سیاہ بادل ہی مجھے ڈھانپ لیں … مجھے تیرا چہرہ کبھی دلکش نہ لگا، اگر میرا بس چلے تو کبھی تیری صورت نہ دیکھوں!… کاش تیرا وجود نہ ہوتا تو سیاہ اور تاریک راتوں میں میرا کام کتنا آسان ہو جاتا ….

چاند نے مسافر اور چور، دونوں کی باتیں نہیں اور آہستہ آہستہ کہنے لگا: ” تم دونوں جو کچھ کہتے ہو، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، میں تو محض ایک چاند ہوں، سورج سے روشنی حاصل کرتا ہوں، تعریف کرنی ہے تو سورج کی کرو اور اگر کوئی شکایت کرنی ہے تو سورج سے کرو”۔ جب معاشرے میں شعور کی کمی ہو اور صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹا ہو اما حول لوگوں کے اندر سے فہم کا چشمہ خشک کر چکا ہو تو اہل فکر و دانش تمثیل اور حکایات کی زبان میں بات کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں صورت حال تبدیلی ہو چکی ہے …. کہا جاتا ہے کہ آج کا بچہ کل ( مستقبل) کا بزرگ ہے …. موجودہ دور میں شعور اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ آج کا بچہ کل(ماضی) کے بڑے بوڑھوں سے کہیں زیادہ علم رکھتا ہے۔ آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت قابل قبول ہوتی ہے جب اسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجیہات کے ساتھ پیش کیا جائے۔ سلسلہ عظیمیہ کا یہ مشن ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول دیے جائیں۔ بحیثیت انسان جب ہم عقل و شعور سے کام لیتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں یا کائنات میں جو کچھ موجود ہے دراصل اس کی حیثیت علم کی ہے۔

کائنات میں موجود ہر شے علم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ تعارف میں کہیں راحت، سرور اور مسرت کے خاکے نمایاں ہوتے ہیں اور کہیں پریشانی، بے قراری اور اضمحلال موجود ہوتا ہے۔ غم اور خوشی کا جہاں تک تعلق ہے ، اس کی بنیاد بھی علم کے اوپر ہے۔ علم جب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس چیز کے نہ ہونے سے ہمارا نقصان ہے تو ہمارے اوپر تکلیف کی کیفیات مرتب ہونے لگتی ہیں۔ علم جب ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کام یا یہ عمل یا یہ چیز ہمارے فائدے کے لیے ہے تو ہمارے اوپر جو کیفیات مرتب ہوتی ہیں ان کا نام ہم خوشی، مسرت ، سکون، اطمینان قلب وغیر ہ وغیر ہ رکھتے ہیں۔

یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ آگ ہمیں راحت بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ چونکہ علم میں مثبت اور منفی رخ موجود ہیں اس لیے آگ سے ہم منفی اور مثبت دونوں قدروں میں متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پانی سے ہمارے اندر موجو در گوں، پٹھوں اور اعصاب کی سیرابی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ہمارے علم میں موجود ہے کہ اگر پانی اعتدال سے زیادہ ہو جائے تو یہ زمین اور نوع انسانی کے لیے بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔

ہمارا علم ہمیں بتاتا ہے کہ رزق حلال انسان کو سکون اور راحت پہنچا تا ہے جبکہ رزق حرام انسان کے سکون اور راحت کے لیے ایک بہت بڑی دیوار ہے ۔ رزق حرام سے بھی آدمی آٹا خرید کر روٹی پکاتا ہے ، پیٹ بھرتا ہے اور رزق حلال سے بھی آدمی آٹا خرید کر روٹی پکاتا ہے، پیٹ بھر تا ہے یعنی بھوک کا تقاضا ایک علم ہے ، جب تک علم بھوک کے اندر محدود ہے اس کی حیثیت علم کی ہے۔ بھوک کس طرح رفع کی جائے ؟…. یہ علم کے اندر معنی پہنانا ہے۔ اب اگر معنی منفی پہنا دیے گئے تو باوجود اس کے کہ بھوک کو رفع کرنے کے لیے ہی سارے کام کیے جارہے ہیں اور آدمی اسی طرح اہتمام سے دستر خوان بچھا کر کھانا کھ رہا ہے اس روٹی سے خون بھی بن رہاہے،اس روئی سے از بی بھی حامل ہوری ہے، اس روٹی میں غذائیت کی وجہ سے قدو قامت بھی بڑھ رہا ہے اور عقل و شعور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن ضمیر مسلسل ملامت کر رہا ہے کہ یہ رزق کسی کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہے۔ جب آدمی حرام روٹی کا لقمہ کھائے گا تو اس کے اندر بے سکونی، پریشانی، بدحالی، ذہنی کشاکش، دماغی کشمکش کا پیٹرن بن جائے گا۔ دماغ کے اندر بننے والا یہ پیٹرن مستحکم اور مضبوط ہو جاتا ہے تو اس کے بعد علم میں جب بھی معنی پہنائے جائیں گے وہ بے سکونی بے اطمینانی اور پریشانی کے ہوں گے۔ اس کے بر عکس ہم علم میں مثبت پہلو داخل کرتے ہیں یعنی علم کے اندر جو معنی اور مفہوم پہناتے ہیں وہ معنی اور مفہوم سکون آشنا زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سکون آشنا زندگی کا پیٹرن جب دماغ میں مستحکم ہو جاتا ہے تو دماغ کے اندر وہ خلیے جو علم کے اندر مفہوم اور معنی پہناتے ہیں ہمیں سکون اور راحت کی اطلاع دیں گے۔

یہ تلاش کرنا ضروری ہے کہ فی الواقع سکون کیا ہے اور اضطراب کیا ہے؟

یہ بات ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ اضطراب ہو یا سکون ہو، پریشانی ہو یا خوشحالی، غم ہو یا خوشی اس کا تعلق علم میں معنی پہنانے سے ہے۔ اب یہ تلاش کرنا ہے کہ کون سی ایسی مخلوق ہے جو سکون آشنا زندگی گزارتی ہے اور جس کے او پر خوف اور غم کے سائے اگر منڈلاتے ہیں تو وہ کم سے کم ہوتے ہیں ۔ مخلوق کو تلاش کرنے میں ہمیں کہیں باہر جانا نہیں پڑے گا۔ اس زمین پر ہمیں ایسی مخلوق مل جائی گی ہے جو انسانی زندگی کے اعتبار سے زیادہ پر سکون ہے ، زیادہ خوش حال ہے، زیادہ صحت مند ہے، زیادہ بے فکر ہے جبکہ اس کی تمام ضروریات وہی ہیں جو انسان کی ضروریات میں مثلاً کھانا کھانا اور دوسرے وہ تمام تقاضے جو زندگی میں داخل نہ ہوں تو زندگی پوری نہیں ہوتی۔ یہ مخلوق درخت ہیں، پرندے ہیں، چرندے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کی زندگی میں سکون کا بڑا واسطہ اور ذریعہ یہ ہے کہ یہ تمام مخلوقات جبلت کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارتی ہیں۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری نو میں علم کو صرف اس حد تک جانتی ہیں جس حد تک علم از خود اپنے معنی اور مفہوم ان کے دماغ پر ظاہر کرتا ہے۔ ان تمام انواع کے بر عکس انسان اپنے ارادے اور اختیار سے علم میں معنی پہنا سکتا ہے۔ علم میں مثبت یا منفی معنی پہنانے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ہے۔

یہی وہ صورت حال ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”ہم نے اپنی امانت سماوات، پہاڑ اور ارض پر پیش کی، سب نے انکار کر دیا اور انسان نے اپنے کاندھوں پر اٹھالیا ہے بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے “۔ (سورۃ احزاب: آیت 73)

اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے علم کے اندر معنی پہنانے کا نا صرف یہ کہ اختیار دیا بلکہ معنی پہنانے کی مشین اس کے اندر فٹ کر دی یہ بھی بتا دیا گیا کہ علم کے اندر معنی اور مفہوم اگر مثبت ہوں گے تو آدمی پر سکون زندگی گزارے گا اور علم کے اندر معانی اور مفہوم منفی ہوں گے تو آدمی ایسی زندگی گزارے گا جو حیوانات، نباتات اور جمادات سے بھی کمتر ہو گی۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ سکون آدمی کو وہاں ملتا ہے جہاں سکون موجود ہو، راحت آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں راحت کے وسائل موجود ہوں، روشنی آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں روشنی کا بندوبست ہو، خوشبو آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں خوشبو کے

ذرائع ہوں …. بد بو اور تعفن میں کوئی بندہ اگر خوشبو تلاش کرتا ہے تو یہ نادانی اور جہالت ہے …. جب کوئی بندہ اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے، تو اس کے دماغ میں ایک ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ اس کے اندر مخلوق سے احتیاج ٹوٹ جاتی ہے اور وہ درو بست اللہ کو اپنا حاکم، اپنا خالق، اپنی خواہشات پوری کرنے والا اور اپنی ضروریات پوری کرنے والا سمجھنے لگتا ہے، نتیجے میں سکون اس کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی تعریف ہے ان لوگوں کی جن کو اللہ تعالیٰ نے ” مستغنی” کہا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2024

Loading