Daily Roshni News

آج ن ۔ م ۔ راشد کی برسی ہے

آج ن ۔ م ۔ راشد کی برسی ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نذر محمد راشد یکم اگست 1910 کو پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ کے قصبے اکال گڑھ  (موجودہ علی پور چٹھ) کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے. ان کے والد کا نام راجہ فضل الٰہی چشتی تھا جو اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے۔والدہ کا نام حسین بی بی تھا.  انھوں نے اسی قصبہ کے گورنمنٹ اسکول سے 1926 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا دادا جو پیشہ سے ڈاکٹر / سرجن تھے اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے اور والد بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔راشد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا ۔سات آٹھ سال کی عمر میں انھوں نے پہلی نظم

“انسپکٹر اور مکھیاں” لکھی۔ اس نظم میں اس انسپکٹر کا خاکہ اڑایا گیا تھاجو  ان کے اسکول کے معائنہ کے لئے آیا تھا اور جس کے سر پر مکھیوں کے ایک جھنڈ نے یلغار کر دی تھی اوروہ ان کو دور کرنے کے لئے  اپنے سر پیٹھ اور گال پر چپتیں مار رہا تھا۔اس نظم کے لئے باپ نے ان کو ایک روپیہ انعام دیا،دادا بھی خوش ہوئے لیکن شاعری سے دور رہنے کی تاکید بھی کی۔شروع میں راشد نے کچھ حمدیں اور نعتیں بھی لکھیں جو گمنام رسالوں میں شائع ہوئیں۔راشد  کے والد خود شعر کم کہتے تھے لیکن حافظ،سعدی غالب اور اقبال کے شیدائی تھے۔ان کی بدولت راشد کو اردو فارسی کے بڑے شاعروں کے کلام سے آگاہی ہوئی۔راشد اسکول کے زمانہ میں انگریزی کے شاعروں سے بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے ملٹن،ورڈزورتھ اور لانگ فیلو کی بعض نظموں کے ترجمے کئے اور اسکول کی ادبی محفلوں میں پڑھ کر انعام کے حقدار بنے۔

1926 میں راشد نے گورنمنٹ کالج لائلپور میں داخلہ لیا جہاں انگریزی ادب، تاریخ ، فارسی اور اردو ان کے مضامین تھے ۔وہاں ان کو ان کے شعری مذاق کو دیکھتے ہوئے کالج کے رسالہ “بیکن” کا طالبعلم ایڈیٹر بنا دیا گیا۔اس زمانہ میں انھوں نے انگریزی میں کئی مضامین لکھے۔اس نوعمری میں بھی وہ خاصے تیز طرار تھے۔لائلپور سے اک رسالہ زمیندارہ گزٹ” نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر سے ان کی دوستی تھی۔اس کے کہنے پر اس رسالہ کی ادارت سنبھال لی اور دیہات سدھار پر کئی مضامین لکھے۔۔1928 میں انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا وہ کالج کے مشاعروں میں حصہ لینے لگے اور کالج کے رسالہ “راوی” کے اردو سیکشن کے ایڈیٹر بنا دئیے گئے۔اس میں ان کی کئی نظمیں اور مزاحیہ مضامین شائع ہوئے۔جلد ہی ان  کی تخلیقات “نگار” اور “ہمایوں” جیسے معیاری رسالوں میں شائع ہونے لگیں 1930 میں راشد نے بی۔اے پاس کرنے کے بعد اقتصادیات میں ایم۔اے کرنے کا فیصلہ کیا۔اور ساتھ ہی فرانسیسی کی شبانہ کلاسوں میں بھی شرکت کر کے ثانوی کے مساوی سند حاصل کر لی۔ساتھ ہی انھوں نے آئی سی ایس/پی سی ایس میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے ۔اردو کے پرچہ مٰیں ان کو سب سے کم نمبر ملے تھے۔اسی عرصہ میں انھوں نے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کر ڈالا۔اس دوران  میں ان کے  مضامین “اردو شاعری پر غالب کا اثر” ،ظفر علی خاں کی شاعری” ،اور “امتیاز علی تاج کا ڈرامہ انار کلی”وغیرہ  شائع ہوتے رہے۔اس میں ان کو ڈاکٹر دین محمد تاثیر کی رہنمائی حاصل تھی۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ مختلف مقامات پر رہے اور خاصا وقت  شیخوپورہ اور ملتان میں گزارا 1934 میں تاجور نجیب آبادی کے رسالہ “شاہکار” کی ادارت کی لیکن ایک سال بعد اس سے الگ ہو گئے۔پھر بیکاری سے تنگ آ کر ملتان کے کمشنر کے دفتر میں بطور کلرک ملازمت کر لی۔اسی زمانہ میں انھوں نے اپنی پہلی آزاد نظم “جرأت پرواز” لکھی لیکن قارئین کو جس نظم نے سب سے زیادہ چونکایا  وہ “اتفاقات” تھی جو “ادبی دنیا” لاہور کے سالنامہ میں شائع ہوئی تھی۔۔1935 میں ان کی شادی ماموں زاد بہن صفیہ بیگم سے کر دی گئی۔

جس زمانہ میں راشد ملتان میں کلرک تھے،وہ عنایت اللہ خان مشرقی کی خاکسار تحریک سے متاثر ہو گئے اور ملتان کے سالار بنا دئیے گئے۔وہ اس تحریک کی ڈسپلن سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہوئے تھے اور ڈسپلن کی مثال قایم کرنے کے لئے اپنی اک خطا پر خود کو سرعام کوڑے بھی لگوائے لیکن جلد ہی وہ تحریک کی آمریت سے دلبرداشتہ ہو کر خاموشی سے الگ ہو گئے۔۔اسی زمانےمیں انھوں نے الگزانڈرکوپرین کے ناول “یاما” کا ترجمہ بھی کیا جس کا معاوضہ پبلشر ڈکار گیا اور کتاب پر ان کا نام تک درج نہیں کیا۔

مئی 1939 میں ان کا تقرر آل انڈیا ریڈیو میں بطور نیوز ایڈیٹر ہوا اور اسی سال پروگرام اسسٹنٹ بنا دئیے گئے پھر انھیں ڈائریکٹر آف پروگرام کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی۔1941 میں ان کا تبادلہ دہلی کر دیا گیا۔راشد خاصے دنیا دار اور ہوشمند آدمی تھے۔روایتی شاعروں جیسی درویشی یا لا اوبالی پن سے انھیں دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ کس سے کیا کام لینا ہے ،کس سے بنا کر رکھنی ہے اور کس پر اپنی افسری کی دھونس جمانی ہے۔  وہ 1942 میں فوج میں عارضی کمیشن حاصل کر کے سمندر پار چلے گئےاور  ان کی دنیاوی ترقی کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا۔1943 سے 1947 تک وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈایریکٹریٹ انڈیا کے تحت عراق ،ایران مصر سیلون(سری لنکا)وغیرہ میں رہے۔فوج کی مدت ملازمت کے خاتمہ پر وہ آل انڈیا ریڈیو میں واپس آ گئے اور لکھنؤ  اسٹیشن کے ریجنل ڈائریکٹر بنا دئیے گئے ۔ملک کی تقسیم کے بعد اسی عہدہ پر وہ ریڈیو پاکستان پشاور پر مامور کئے گئے ایک سال پشاور میں اور ڈیڑھ سال لاہور میں گزارا پھر 1949 میں ان کو ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر کراچی میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بنا دیا گیا۔اس کے بعد 1950 سے 1951 تک پشاور اسٹیشن کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدہ پر کام کیا 1952 میں وہ اقوام متحدہ میں شامل ہوئے اور نیو یارک، جکارتہ، کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں کام کرتے رہے 1961 میں بیوی کے انتقال کے بعد انھوں نے 1963 میں دوسری شادی کر لی۔یہ ان سے عمر میں 20 سال چھوٹی، باپ کی طرف سے اطالوی اور ماں کی طرف سے انگریز  اور اسکول میں  ان کی بیٹی کی معلمہ تھیں شاعری کے علاوہ راشد کے دوسرے شوق، گھڑسواری، شطرنج، کشتی رانی تھے۔شراب نوشی کبھی کم اور کبھی زیادہ اس وقت تک چلتی رہی جب تک دل کے عارضہ کے نتیجہ میں ڈاکٹروں نے سختی سے منع نہیں کر  دیا۔مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے

اردو شاعری کو روایتی تنگنائے سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔

ساقی فاروقی بیان کرتے ہیں کہ فیض نے خود  کہا تھا کہ وہ راشد کی طرح نظمیں نہیں لکھ سکتے کیوں کہ راشد کا ذہن ان سے کہیں بڑا ہے۔

ن م راشد اور میرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی لکیر پر چلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے: واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال یا حبِ وطن یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑ بندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔

 راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔ن م راشد کے چار شعری مجموعے: ماورا( 1942) ایران میں اجنبی (1955) لا=انسان(1969) اور گماں کا ممکن (1976) شائع ہوئے۔ گمان کا ممکن ان کی موت کے بعد شائع ہوئی ۔ایران میں قیام کے دوران انھوں نے 80 جدید فارسی شعرا کے کلام کا ترجمہ “جدید فارسی شاعر” کے نام سے مرتب کیا۔ان کے متعدد تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوئے جن کو کتابی شکل نہیں ملی ہے۔فیض نے “نقش فریادی” کا دیباچہ راشد سے ہی لکھوایا تھا حالاں کہ راشد کبھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں رہے۔وہ حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھتے تھے۔

آزاد نظم کو عام کرنے میں راشد کا نام سر فہرست ہے۔راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں اک طرز نو کی بنیاد رکھی۔وہ اردو کے ان معدودے چند شاعروں میں ہیں جن کی شاعری نہ تو محض زبان کی شاعری ہے اور نہ محض کیفیات کی۔ان کی شاعری فکر و دانش کی شاعری ہے۔وہ خود بھی سوچتے ہیں اور دوسروں کو بھی سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔اور ان  کی سوچ کا دائرہ بہت وسیع ،بین الاقوامی اور آفاقی ہے۔ وہ مذہبی، جغرافیائی، لسانی اور دوسری حدبندیوں کو توڑتے ہوئے اک ایسے عالمی انسان کے قصیدہ خواں ہیں جو اک نیا مثالی انسان ہے جسے وہ” آدم نو”یا نیا آدمی کہتے ہیں یہ ایسا انسان ہے جس کے ظاہر و باطن میں مکمل ہم آہنگی ہے اور جو دنیا میں حاکم ہے نہ محکوم ۔۔۔ ایسے انسان کا خواب راشد کی فکر و دانش کا خاص حوالہ ہے۔ راشد کا شعری مزاج رومی، اقبال،دانتے اور ملٹن جیسے شعرا سے ملتا ہے جو اک خاص سطح سے نیچے نہیں اترتے کیونکہ وہ جن مسائل اور موضوعات سے دوچار ہیں وہ ان عمومی مسائل اور کیفیات سے مختلف ہیں جو غنائی شاعری میں تنوّع لوچ اور لچک پیدا کرتے ہیں ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے اک  دانشورانہ مزاج کی ضرورت ہے اور اس لحاظ سے وہ عوام کے نہیں بلکہ خواص کے شاعر ہیں۔

راشد کا انتقال 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، راشد کی اطالوی نژاد برطانوی بیگم شیلا انجلینی اور ساقی فاروقی. کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔۔ ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے، اس باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کی بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر، چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی۔

(ریختہ + وکی پیڈیا )

Loading