Daily Roshni News

آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔قسط نمبر1

آج کی اچھی بات

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

(قسط نمبر1)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور جولائی2022

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)کائنات کو رونق بخشنے کے لئے قدرت نے ہر شے کو رنگین بنایا ہے، رنگینی کا اظہار پانی سے کیا ہے اور پانی کے مظاہرے کے لئے زمین بنائی ہے۔ ہر دنیا کی اپنی زمین ہے اور

ساری زمینیں خلا میں آباد ہیں۔

زمین پر زندگی کا آغاز پانی سے ہوتا ہے۔ پانی میں زندگی کے سارے رنگ اور رنگوں میں مخلوقات کے فارمولے ہیں۔ نشو و نما کے لئے ساری چیزیں پانی میں جمع ہیں۔ پانی جس کو قرآن کریم نے ”ماء” کہا ہے، ہر ڈائی میں خدوخال کے ساتھ مظاہرہ کرتا ہے۔ آسمان سے بارش ہوتی ہے تو پانی میں تصورات زمین کے اندر ڈائیوں میں داخل ہوتے ہیں۔ جتنی مخلوقات ہیں، زمین سب کی ڈائی ہے۔ آم کی تصویر آم کی ڈائی میں جاتی ہے ، گلاب کی تصویر گلاب کی ڈائی میں مہکتی ہے، پہاڑ اپنی ڈائی میں استادہ ہے، لوہے اور پٹرول کے ذرات بالترتیب اپنی ڈائیوں میں بہتے ہیں، ہاتھی کی ڈائی الگ ہے اور آدمی کی ڈائی بھی زمین کے

اندر ہے۔ ہر وہ بساط جس میں شے نشو و نما پا کر مظہر بنتی ہے ۔ زمین ہے۔

..

پانی رب ذوالجلال کا عطیہ ہے۔ سمندر کا پانی کڑوا ہے تو کنوئیں کا پانی کھارا یا میٹھا ہے۔

دریا کا پانی شیالا ہے تو چشموں کا پانی موتی کی طرح شفاف اور چمک دار ہے۔ کائنات کے ہر

یونٹ کے لئے حیات پانی ، مخلوقات کی شریانوں اور وریدوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔

آدمی جو کھاتا ہے، چوپائے جو چرتے ہیں، چڑیا جو چگتی ہے، مچھلی جو پانی میں سانس لیتی ہے ،

سیپ میں سچا موتی اور منجدھار میں لا شمار تخلیقات، سب پانی کے مختلف مظاہر ہیں۔

زمین ایسے لچک دار مادے سے بنی ہے جس کے اندر پھیلنے کی صلاحیت ہے مگر اس کی فطرت سمٹتا ہے۔ زمین کو سمٹنے سے روکنے کے لئے اللہ تعالی نے پہاڑوں میں ثقل غالب کیا ہے یعنی پہاڑوں کو میخیں بنا کر زمین میں نصب کیا ہے۔ پہاڑوں کے وزن سے زمین کا پھیلاؤ تو ازن میں قائم ہے۔ ایک مقام پر جتنا وزنی پہاڑ ہے ، اس کے عین مخالف سمت میں اسی قدر وزنی پہاڑ یا۔ پہاڑ کے وزن کے برابر کوئی شے ہوتی ہے۔ اگر نصب کی گئی میخوں

کا وزن دونوں طرف برابر نہ ہو تو زمین زمین نہیں رہے گی۔

اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تا کہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ (الانبیاء : ۳۱)

پہاڑ ہماری طرح مخلوق ہیں۔ یہ پیدا ہوتے ہیں، چھوٹے ہوتے ہیں اور بڑے ہوتے

ہیں، سانس لیتے ہیں، سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، کھاتے ہیں، پیتے ہیں، باتیں

کرتے ہیں اور بادلوں کی طرح اڑتے ہیں مگر ہمیں وزنی اور جمے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وزن

کا تعلق ثقل سے ہے۔ ثقل سے مراد بھاری پن ہے۔ جنت سے اس دنیا میں اترنے کے بعد

اسپیس کی تسخیر کے لئے درکار لطافت اندر میں مغلوب ہو گئی اور ثقل غالب ہو ا جس کی بنا پر

ہم اسپیس کے تابع ہو گئے۔ اگر آدمی وزن (ثقل ) کو بے وزن کر دے تو پہاڑوں کو بادلوں

کی طرح اڑتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔

اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ جھے ہوئے ہیں مگر یہ بادلوں کی

طرح اڑ رہے ہیں۔“ (النحل : ۸۸)

بادل بخارات یا گیسوں کے اجتماع سے بنتے ہیں اور اسفنج کی طرح چھوٹے بڑے خلا پر مشتمل ہیں۔ اس خلا میں پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنے میں اشارہ

ہے کہ پہاڑ بھی خلا در خلا وجو د ہے جس میں پانی ذخیرہ ہے۔

تفکر طلب ہے کہ پہاڑ آدھے سے زیادہ زمین کے اندر اور آدھے سے کم باہر ہیں۔ وہ مقامات جہاں پہاڑوں کا دھٹر پانی سے باہر ہے، وہاں خشکی کی مخلوقات آباد ہیں۔ ابتدا میں زمین پر آبادی محدود تھی۔ لوگوں نے درختوں پر آباد ہو کر لکڑی کے تختوں سے درختوں کے درمیان راستے بنائے پھر زندگی پہاڑوں اور غاروں میں منتقل ہوئی۔ زمانے گزرتے رہے۔ پہاڑوں کے درمیان راستے ہموار ہو کر قصبے اور شہر بن گئے۔ جہاں پہاڑی سلسلے ایک دوسرے سے دور ہیں، وہاں سمندر راستہ بن گیا ہے۔ آج سڑکوں کے وسیع جال اور تعمیرات میں جدت دیکھ کر کم لوگوں کو خیال آتا ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی تہذیب و

تمدن پہاڑوں پر قائم ہے۔

ہم جس کو زمین سمجھتے ہیں، وہ پہاڑوں کی چوٹی ہے جسے آبادی کے لئے ہموار کیا گیا ہے۔ اصل زمین وہ ہے جس پر پہاڑی سلسلے استادہ ہیں اور سمندر تیر رہے ہیں۔ زمین تک پہنچنے کا مطلب زمین کے کناروں تک پہنچنا ہے اور کناروں تک کسی آدمی یا محقق کی رسائی نہیں۔ وہاں پہنچنے کے لئے باطنی علوم سیکھنا ضروری ہیں۔ خالق ارض و سما کا ارشاد ہے، اے گروہ جنات اور انسان ! اگر تم زمین اور آسمانوں کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو

نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان ہے۔“ (الرحمن : ۳۳)

قدیم دور کا آدمی غاروں میں رہتا تھا تو جدید دور کا آدمی اونچے نیچے پہاڑوں کی چوٹی۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور جولائی2022

Loading