Daily Roshni News

آج کی بات۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

آج کی بات

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

بشکریہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔آج کی بات۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  )جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور ان مقداروں کی ہدایت بخشی ۔ ( الاعلیٰ : ۲-۳)

مخلوقات کی رفتار مخصوص ہونے کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ رفتار کا ایک رخ انفرادی اور دوسرا اجتماعی ہے۔ مثلاً چاند اور سورج کی مقدار میں الگ ہیں لیکن ان کے ظاہر ہونے اور چھپنے کا وقت زمین سے قریب ہونے اور دوری کی وجہ سے ہے۔ زمین ، چاند اور سورج منفر د رفتار کے باوجود باطنی رخ میں اشتراک رکھتے ہیں ۔ اشتراک ایسی chain ہے جو ابتدا سے انتہا تک ہے ۔ زمین چاند اور سورج میں مطابقت کے ساتھ اپنے مدار کے گرد بھی مخصوص رفتار سے گردش کر رہی ہے ۔ علاوہ ازیں زمین ان سب چیزوں کی رفتار سے بھی ہم آہنگ ہے جو اس کے اوپر اور اندر ہیں ۔ ہر شے کی انفرادی اور اجتماعی رفتار بیک وقت جاری ہے اور اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا ۔

زندگی ایک رخ میں نقش و نگار اور دوسرے رخ میں رفتار پر قائم ہے۔ رفتار کا تعلق وقت اور وقت کا شے کی سکت سے ہے۔ شے یک مشت ظاہر ہو سکتی ہے اور مرحلہ وار بھی ۔ مادی خول میں اتنی سکت نہیں کہ یک مشت دباؤ برداشت کرے لہذا قدرت نے رفتار میں درجہ بندی رکھی ہے۔ ہر شے رفتار کی پابند ہے۔ پھل فروٹ موسم کی مناسبت سے مخصوص رفتار کے تحت بڑھتے اور پکتے ہیں۔ پھلوں کو پکانے میں فلکیاتی نظام سے ارضی نظام تک جتنے عناصر ہیں ، سب متفرق مقداروں کے ساتھ شرکت میں ہیں ۔ ہر تخلیق کی معین رفتار ہے اور اس رفتار میں رہتے ہوئے سب ایک دوسرے سے ربط میں ہیں۔ اس نکتہ پر تفکر سے صلاحیت کا انکشاف ہوتا ہے۔ چاند فلکیاتی مخلوق ہے اور فلک زمین سے الگ اسپیس ہے۔ فلک پر تخلیق زمینی اسپیس سے آزاد مگر ایک حد تک پابند ہے ورنہ مخلوقات کو زمین سے چاند ستاروں کا عکس نظر نہیں آئے گا۔ مٹھاس پیدا کرنے کے لئے چاند کی کرنیں فلکی رفتار کے مطابق پھلوں کو مہیا ہوں تو پھل توانائی کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ جائیں گے کیوں کہ توانائی شے کی ساخت اور رفتار کے مطابق فراہم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھلوں کی نشو و نما کا وقت اور ذائقہ مختلف ہے۔ تخلیقی نظام کا حسن ہے کہ انفرادیت کے ساتھ اجتماعیت برقرار ہے۔ ..

سورہ رعد میں کا ئناتی ایکویشن کی تفہیم پڑھئے ۔

(1-2) ال م ر۔ یہ کتاب کی آیات ہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے، حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔ اللہ وہ ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو، اونچے بنائے ۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک معین میعاد تک گردش کر رہا ہے ۔ وہی تدبیر سے امر کرتا ہے اور اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم اپنے پروردگار سے ملاقات کا یقین کرو۔“ (الرعد: ۱-۲)

ان آیات میں رفتار اور کشش کا قانون بیان ہوا ہے۔ رفتار توانائی میں دباؤ کی مقدار ہے ۔ قرآن کریم میں مقداروں کا صراحت سے بیان ہے لیکن غور کرنے والے لوگ کم ہیں۔ آسمان تناسب میں قائم اور حرکت میں ہے اور زمین بھی ۔ دونوں کے اپنے مدار میں رہنے کی وجہ مقدار میں ہیں۔ مقداروں کی حدود طے ہونے سے کشش اور گریز کا عمل متحرک ہو جاتا ہے۔ گریز ایک مقدار کو دوسری مقدار سے دور رکھتا ہے اور کشش ایک جیسی مقداروں کو قریب لاتی ہے ۔ نمک نمک سے رجوع کرتا ہے اور مٹھاس مٹھاس میں مل جاتی ہے۔چپک چپک کی طرف آتی ہے اور دوری بخارات بن کر اڑ جاتی ہے۔

 فرض کیجئے۔ سیب اور کیلے میں مٹھاس کی مقدار بالترتیب 10 اور 15 فی صد ہو تو غور طلب ہے کہ چاند کی کرنیں دونوں میں موجود ہیں۔ کیا ہم نہیں کہہ سکتے کہ چاند کی صفات

معلوم کرنے کے لئے چاند پر جانا ضروری نہیں۔ چاند خود مختلف شکل میں پھلوں میں ، ندر کے مدو جزر میں ، آدمی اور دوسری مخلوقات کی طبیعت اور مزاج میں داخل ہے۔ سورج اور چاند معین مقداروں پر قائم ہیں ۔ حدت اور ٹھنڈک دونوں کو ملنے والی لہروں میں ہے مگر چاند میں حدت کم اور ٹھنڈک زیادہ ہے۔ سورج کو ملنے والی لہروں میں حدت کی مقدار زیادہ اور ٹھنڈک کم ہے۔ اب پڑھئے ۔ ان میں کشش اور گریز کس طرح قائم ہے۔ سورج میں زیادہ حدت اور چاند میں زیادہ ٹھنڈک سورج اور چاند کو ایک دوسرے سے دور رکھتی ہے۔ یہ گریز ہے۔ اس کے ساتھ ہی زیادہ حدت دوسرے رخ میں موجود کم حدت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ کشش ہے۔ اسی طرح زیادہ ٹھنڈک دوسرے رخ میں موجود کم ٹھنڈک کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ بھی کشش ہے ۔ مساوات یہ بنی۔ (+) حدت (+) ٹھنڈک = گریز (+) حدت (-) حدت = کشش

اللہ تعالیٰ نے ہر شے جوڑے جوڑے اور جوڑے دہرے تخلیق فرمائی ہے۔ اگر دوسرے دن میں کشش نہ ہو تو پہلا دن دوسرے دن میں داخل نہیں ہوتا ۔ داخل ہونے کے بعد پہلا دن گریز ہو جاتا ہے۔ شے میں کشش اور گریز کی مقدار میں برابر ہوتی ہیں کیوں کہ لہریں جتنی توانائی سے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرتی ہیں ، اتنی ہی مقدار میں توانائی کے ذریعے گریز کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیزیں اپنے مقامات پر متحرک لیکن ٹھہری ہوئی نظر آتی ہیں۔ ..

(3) اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور ہر طرح کے ثمرات کے جوڑے دہرے بنائے ۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ۔“ (الرعد: (۳) زمین کی بنیادی صفت کشش ہے۔ خالق ارض و سما نے زمین کو پھیلانے ، اور اس کی رفتار کو شعوری سکت سے مطابقت کے لئے زمین میں پہاڑ اور دریا تخلیق کر کے گریز قائم کیا ہے۔

پہاڑ مظاہرہ ہے کہ کس طرح ذرہ میں خمیر پیدا ہوتا ہے اور ذرہ پھول کر پہاڑ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے ہو پہاڑ جمے ہوئے ہیں لیکن یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔ ثمرات ( وسائل ) میں تمام مخلوقات شامل ہیں ۔ ہر مخلوق جوڑے دہرے ہے۔ مثال رات اور دن ہے۔ دونوں کی رفتار انفرادی مگر بنیاد ایک ہونے کی وجہ سے رات دن میں داخل ہوتی ہے اور دن رات کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔

.. .. زمین ایک ہے ، قطعات مختلف ہیں۔ قطعات ڈائیاں ہیں۔ ڈائیاں الگ کرنے کے لئے مقداروں میں تناسب کا نظام ہے۔ ایک ہی چیز زیادہ اور ایک ہی چیز کم ہونے سے سب چیزیں ایک دوسرے سے الگ نظر آتی ہیں۔ (4) اور زمین میں کئی طرح کے قطعات ہیں۔ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ۔ اور انگور کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت ۔ بعض کی بہت سی شاخیں ہوتی ہیں اور بعض کی اتنی نہیں ہوتیں ۔ پانی سب کو ایک ملتا ہے اور ہم بعض کو بعض پر لذت میں فضیلت دیتے ہیں ۔ اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ (الرعد : ۴) مختلف قطعات کا ایک دوسرے سے ملنا ۔ انفرادی اور اجتماعی ربط کی ایکویشن ہے ۔ مثال آبنائے جبل طارق (Strait of Gibraltar) ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم ساتھ بہتے ہیں لیکن ملتے نہیں ۔ مشاہدہ ہے کہ بحری جہاز دونوں پانی کے درمیانی خط پر سے گزرتا ہے تو سفید پانی کے چھینٹے سفید میں اور سیاہ پانی کے چھینٹے سیاہ میں گرتے ہیں۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا ہے کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے ۔“ (الرحمن : ۱۹-۲۰)

اللہ حافظ

بشکریہ ماہنامہ  قلندر شعور ستمبر 2019

Loading