Daily Roshni News

آج کی بات قسط نمبر (2) ۔۔۔ تحریر ۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صا حب

دھا گا مٹی ہے۔ ایک سال کے بچے، دس سال کے لڑکے اور چالیس سال کے تجربہ کار شخص کا جسم لباس کے علاوہ کچھ نہیں۔ لباس پیدائش سے لے کر دنیا سے واپسی تک تبدیلی ۔ یہ گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ گھٹنے اور بڑھنے والی شے کا ہر سطح پر الگ الگ نام مقرر ہے جیسے دودھ پیتا بچہ، دوڑتا کھیلتا بچہ ، گورا، کالا، سرخ یعنی رنگ بدلتا بچہ – مٹی کا لباس اسپرم سے بنتا ہے۔ اسپرم میں گھٹنے بڑھنے کی صلاحیت نہ ہو تو ڈیڑھ فٹ کا بچہ 60 سال کا بوڑھا نہیں ہو گا۔ ہر قسم کا لباس جو بچے نے 60 سال تک پہنا ہے ، بوسیدہ ہو کر پھٹ رہا ہے۔ تفکر کیا جائے تو مٹی کا لباس جسے ہم آدمی سمجھتے ہیں، وہ بھی کپڑے کی طرح بوسیدہ ہو رہا ہے۔ گھٹنے بڑھنے کا عمل بالآخر ایسے مقام پر لے آتا ہے کہ بچہ 60 یا 100 سال کے بعد غائب ہو جاتا ہے اور مٹی سے بنا ہوا لباس مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
لباس مٹی کا ہو یا گیس اور روشنی کا، تغیر ہے ۔ ہم چاہے جس دنیا میں ہوں، خود کو کھاتا پیتا دیکھتے ہیں اور کھانے پینے کا تعلق نشود نما ( تغیر ) سے ہے البتہ کائنات میں جتنی دنیا میں ہیں، ان میں سب سے زیادہ تغیر مٹی کے لباس میں ہے۔ مٹی میں تعفن کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل زیادہ ہے۔ زمین پر جتنی مخلوقات ہیں، ان کی تعداد لا شمار ہے۔ سب کا وجود مٹی پر قائم ہے۔ مٹی کی تخلیق میں رنگ شامل ہیں۔ رنگوں کا مشاہدہ پودوں، پھولوں، پھلوں، پرندوں اور ساری مخلوقات میں نظر آتا ہے۔ احسن الخالقین اللہ کا ارشاد ہے، اور ہم نے انسان کو مٹی کے ستے سے بنایا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ نیکی ہوئی بونڈ میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لو تھڑکے کی شکل دی۔ پھر لو تھڑے کو ہوئی بنادیا۔ پھر بوٹی کی بزیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر ہم نے اسے نئی صورت میں بنا دیا۔ پس اللہ بڑا بابرکت ہے جو تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے۔” (المؤمنون: ۱۲-۱۴)
مٹی کے دھاگوں سے تیار ہونے والا لباس ٹوٹ پھوٹ کے چھ مراحل سے گزرتا ہےاور ہر مرحلہ رنگین ہے۔ مٹی ٹوٹتی ہے تو اس میں سے جو ہر نکلتا ہے، جوہر میں سے بوند ظاہر ہوتی ہے، بوند کے خلیات ٹوٹنے سے لوتھڑا بنتا ہے، لوتھڑے سے بوٹی بنتی ہے، بوٹی کھلتی ہے تو اس میں سے بڑی ظاہر ہوتی ہے اور ہڈی گوشت میں چھپ جاتی ہے۔ عرض ہے کہ جس لباس کی بنیاد ٹوٹ پھوٹ ہے، اس کی صلاحیتیں ایک حالت پر قائم نہیں رہتیں جب کہ اسپیس کی تسخیر کے لئے ایک مرکز پر قائم رہنا ضروری ہے۔
ہم مٹی کے لباس کو آدمی سمجھتے ہیں جب کہ لباس پہننے اوڑھنے کی چیز ہے۔ ہماری پہچان “جان” ہے جو لباس پہنتی ہے اور اتار دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوع آدم کو فی الارض خلیفہ بنایا ہے اور ارض ( زمین ) ایک نہیں، لاشمار ہیں۔ ہر زمین کے لباس کی صلاحیت الگ ہے۔ کسی میں کثافت زیادہ ہے اور کسی میں لطافت زیادہ ہے۔ جس لباس میں لطافت زیادہ ہے، وہاں ایک قدم سے دوسرے قدم میں میلوں میل طے ہو جاتے ہیں یعنی اسپیس سمٹ جاتی ہے۔ فی الارض خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ نوعِ آدم کے اندر ہر زمین کا لباس (صلاحیت) موجود ہے اور وہ جب چاہے، اسے پہنے اور اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس صلاحیت سے مستفید ہونے کے لئے فی الارض خلیفہ کے علوم جاننا ضروری ہیں۔ خالق کا ئنات اللہ کا ارشاد ہے،
اور یہ لوگ آپؐ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں۔ آپ ؐ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔” (بنی اسرآئیل: ۸۵)

Loading