آواز دوست
تحریر۔۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمیؒ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آواز دوست۔۔۔ تحریر۔۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمیؒ)مٹی کا شعور:مٹی کا شعور سوچ کی دو طرزیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہو کر وسائل کے انبار میں خود کو قید کر لیتے ہیں اور ہمارے سامنے آسائش و آرام اور روٹی کپڑے کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں آتی اور اسی کو ہم زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔
دوسری طرز یہ ہے کہ اعتدال کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس مادی دنیا میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا ہے۔ دنیا میں عزت و جاہ کا خوش نما لباس زیب تن کرنے کے لئے ہم دولت جمع کرتے ہیں۔ اس دولت کی تشہیر کے لئے عالیشان محلات کھڑے کرتے ہیں۔ گھروں میں تزئین و آرائش کے ایسے ایسے سامان رکھتے ہیں جن سے اس بات کا اظہار ہو کہ ہماری اپنی ایک حیثیت ہے۔
جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزت و توقیر کے حصول کا تعلق ہے یہ ایک خود فریبی ہے، ایسی خود فریبی جس سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ فراعین مصر کے محلات، قارون کے خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔
تاریخ خود کو دوہراتی رہتی ہے اور ہر زمانے میں دولت کی حقیقت کو ہمارے اوپر آشکار کرتی رہتی ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کے حالات سے کون واقف نہیں ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ پوری شان و شوکت اور شاہی دبدبہ کے باوجود مادرِ وطن میں قبر کے لئے جگہ بھی نصیب نہیں ہوئی۔
سونے چاندی کے ذخیروں اور جوہرات کے ڈھیر نے دنیا کے امیر ترین آدمیوں کے ساتھ کتنی وفا کی؟ کیا یہ حقیقت ہمارے لئے درسِ عبرت نہیں ہے؟ مٹی صرف خود کو پہچانتی ہے اور اپنے ایک ایک عضو کو اپنی کوکھ سے وابستہ رکھتی ہے۔ مٹی کو اگر ایک فرد مان لیا جائے تو مٹی سے بنی ہوئی ہر چیز مٹی کے اعضاء ہیں، تانبہ، لوہا، جوہرات، سونا، چاندی وغیرہ مٹی کے وہ اعضاء ہیں جن پر مٹی کا تشخص قائم ہے۔
آدمی کا جسم بھی مٹی سے مرکب ہے لیکن آدمی چونکہ اللہ کی امانت کا امین ہے، اس لئے مٹی کا شعور آدمی کو دوسرے اعضاء کے مقابلے میں اپنا قلب سمجھتا ہے اور جب کسی جسم میں قلب متاثر ہو جاتا ہے تو بالآخر جسم مفلوج اور ناکارہ بن جاتا ہے۔ مفلوج اور ناکارہ جسم کی حیثیت زمین پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
یہ بات کس کے علم میں نہیں ہے؟ آدمی چاہے تو پچاس کمروں کا مکان بنا لے لیکن سوئے گا وہ ایک ہی چارپائی کی جگہ۔ چاہے تو ہوسِ زر میں سونے چاندی (مٹی کے ذرات) سے خزانے بھر لے لیکن پیٹ کے ایندھن کو پورا کرنے کے لئے اسے دو ہی روٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماحول کو مصنوعی روشنیوں اور خوشبوؤں سے کتنا ہی رنگین اور معطر کر لیا جائے آدمی کے اندر کی سڑاند کا یہ نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہے اور صاف ستھرا رکھتی ہے اور جب اولاد تعفن سے نکلنا نہیں چاہتی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے اور اس ادبار کی وجہ سے انسان گھناونا اور ناسور زدہ ہو جاتا ہے۔ بلا شبہ کسی بندہ کے لئے اس سے بڑا دردناک عذاب اور کوئی نہیں۔ قرآن کہتا ہے:
’’اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے عَذَاب اَلِیمْ کی بشارت ہے۔‘‘
![]()

