Daily Roshni News

آپس کی بات

آپس کی بات

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔آپس کی بات)پچھلے چند دنوں سے علالت کے باعث بستر پر تھا پیروں پر ورم آگیا تھا نہ چلنے جیسا تھا نہ جوتی پہننے جیسا کئی کئی ٹیسٹ ہوئے مگر سب کچھ صحیح تھا بس بلڈ شوگر معمولی بڑھی ہوئی تھی ڈاکٹر پریشان تھے پیروں پر ورم کی وجہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کل میرا ایک جاننے والا نور الدین اچانک مزاج پرسی کو آیا جاننے والا اس لئے کہا ہے کہ میری ان سے بس تین چار بار کی ملاقاتیں ہیں نہ تو دوستی ہے اور نہ یہ پتا ہے وہ کون ہے کہاں رہتا ہے بس اتنا پتا ہے وہ عظیمی ہے یعنی میرا پیر بھائی ہے اس سے ملاقات اتفاق سے ہوگئی تھی میں اپنی نوکری کی آخری اسٹیشن کے طور پر نواب شاہ کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھا اور ریٹائرمنٹ کے دن گن رہا تھا ان دنوں میرا ایک محبوب دوست نوکری کھو بیٹھا تھا اور زیادہ تر وقت میرے پاس آکر بیٹھتا تھا اور ہم سر جوڑ کر اس کی نوکری کے متعلق سوچتے اور تعبیریں کرتے لیکن میں چاہتے ہوئے بھی اس کے لئے  کچھ کر نہیں پا رہا تھا ایک دن وہ میرے پاس آیا اور ایک بڑے عالم کے بیان کی بیان کی کلپ لے آیا جس میں وہ فرما رہے تھے اگر کسی کو کوئی کام بولا جائے تو ایک دفعہ اور یاد دہانی کرواسکتے ہیں اس کے بعد بولنا شرک ہے بس پھر اللہ پر رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے مینے کہا مگر شاہ عبدالطيف بھٹائی سرکار کہتے ہیں کہ لیلا اپنے محبوب کو ستاتی رہ نہ دے پھر بھی ستا کبھی اس سے آسرا مت اتار محبوب بڑا مہربان ہے  اگر بندہ مدد نہیں کرے گا تو وہ مالک خود تو نیچے نہیں آئے گا اس مالک نے تو بندے کے سارے کام بندوں کو دے دئے ہیں تو بندے کو تیسری بار کام کہنا شرک کہاں سے ہوگیا مینے کہا میں اس موضوع پر ورکنگ کروں گا اسی دن نور الدین سے میری پہلی ملاقات ہوئی یہ بات نکلی تو اس نے سورہ نساء کی آیت تلاوت کی جس میں اللہ کریم مکہ والوں کو دعا سکھا رہے ہیں کہ اے اللہ اپنی طرف سے مدد کر اور مددگار بھیج اس کا مطلب ہے مدد اللہ کریم کی طرف سے مگر کرے گا وہ مدد گار جسے اللہ کریم بھیج دے قصہ مختصر نورالدین نے طریقہ بتایا مینے اپنے اس دوست کو بتایا اور وہ روزگار سے لگ گیا اس کے بعد میں رٹائر ہوگیا اور مارچ 2021ع میں  نور الدین سے آخری ملاقات ہوئی کل اچانک وارد ہوگئے بیٹھتے ہی بولے بھلے مانس تو نے کیا کیا ہے اپنے ساتھ ؟ مینے کہا علیل ہوں  بولے وہ تو میں دیکھ رہا ہوں مجھے بتائو پیدا ہونے سے لیکر اب تک کوئی ایک فاقہ کیا؟ مینے کہا نہیں بولا آج تک کبھی پڑوسی سے نمک کی چٹکی مانگنے کی نوبت آئی ؟ مینے کہا نہیں بولا بینک میں پیسے ہیں مینے کہا ہاں ہیں وہ پر جلال آواز میں بولا پھر اللہ کریم سے کیا مانگ رہے تھے ؟ اور کیوں؟ اب مجھے یاد آیا کہ زمینداری میں پہ در پہ نقصان کی وجہ سے مینے صرف ایک ہی دن وہ الفاظ دہرا دئے تھے جو مینے اپنے محبوب  دوست کو نوکری دلانے کے لئے نواب شاہ میں نورالدین کے کہنے پر تلقین کئے تھے تاکہ وہ اللہ کی مدد پا سکے اور اللہ کریم کی مدد مل بھی گئی تھی میں شرم ساری والے لہجے میں بولا حضور غلطی سے مینے وہ الفاظ دہرائے تھے وہ پر جلال آواز میں بولے  بغیر اجازت کے مینے کہا نقصان کی وجہ سے  اس پر وہ  اتنا زور سے ہنسا کہ مجھے اپنے ہیرنگ ایڈ بند کرنا پڑے گمان غالب تھا ان کے لاوڈ اسپیکر پھٹ نہ جائیں یہ دیکھ کر اس نے آواز کی فریکوینسی کم کی بولا حضرت موسی علیہ السلام ایک دفعہ علیل ہوگئے تو اللہ کریم سے درخواست کی اللہ کریم نے ایک بوٹی بتائی جس کے کھانے سے افاقہ ہوگیا کچھ عرصہ کے بعد پھر علیل ہوئے تو وہ ہی دوبارہ کھا لی مگر مرض بڑھ گیا تو اس نے اللہ کریم سے درخواست کی اللہ کریم نے فرمایا پہلے تم نے مجھ سے پوچھا تو افاقہ ہوا دوسری بار بغیر پوچھے کھا لی  تو الٹا نقصان ہو گیا اور ضروری نہیں کہ ہر مرض کی ایک ہی دوا ہو تو نے بھی یہ ہی کیا اور وہ اسم جو تمہارے دوست کے لئے تریاق بنا تیرے لئے زہر قاتل ثابت ہونے لگا تھا اس لئے کہ ایک تو بغیر اجازت کیا دوسرے چھوٹے سے امتحان میں اللہ کریم سے شکایت کر دی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ نہ سوچا کہ آج کا نقصان کفائت سے کل کا فائدہ بن سکتا ہے ناشکری کر ڈالی  وہ کچھ لمحہ رکا پھر بولا انسان ہے ہی ناشکرا اس کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوتیں چنانچہ روایت ہے کہ ایک بادشاہ ایک فقیر کے پاس سے گزرا جو خاموش بیٹھا تھا اور اس کو بولا مانگ کیا مانگتا ہے فقیر بولا بادشاہ تیرا اقبال بلند ہو تو مجھے کچھ نہیں دے پائے گا بادشاہ اسرار کرنے لگا کہ تو مانگ میں دونگا فقیر نے تنگ آکر اپنا کشتہ آگے کر دیا بولا بادشاہ سلامت بس اس کو بھر دیں بادشاہ بولا بس ! بادشاہ نے پوری کوشش کر ڈالی اپنے سارے ثمر اس میں ڈالتا گیا مگر کشتہ خالی رہا بل آخر وہ فقیر سے بولا تو جیتا میں ہارا مگر اتنا بتا دو یہ کشتہ کس چیز سے بنا ہے کہ سب کچھ نگل جاتا ہے فقیر بولا بادشاہ سلامت یہ انسانی خواہشات سے بنا ہے جو کبھی پوری نہیں ہونے والی بس انسان مانگنا جانتا ہے جو ہے اس پر شکر اور صبر نہیں کرتا وہ رکا پر جلال نظروں سے مجھے گھورا میرا دل کرتا تھا زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائو وہ مسکرا دیا بولا تصوف کی جتنی تعریفیں اکابرین نے کی ہیں ان میں قدر مشترک ایک ہی ہے کی تصوف اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا نام ہے نہ کہ اللہ کریم سے شکایت کرنے کا محبوب سے شکایت تو شیطان نے کی جو مردود ہوا  تیرا کام تو صرف اور صرف شکر کرنا ہے وہ جس حال میں رکھے جتنا دے اس کی مرضی مجھ سے اب رہا نہیں گیا میں رو پڑا مینے عرض کی مجھے معاف کریں اور میرے لئے دعا کریں وہ ایک بار پھر زور سے ہنسا اور بولا میں دعا کروں؟ علیل آپ ہیں اور اللہ سے اتنے نزدیک ہیں بیان سے باہر ہے آپ سب کے لئے دعا کریں جو آپ کو لے کر پریشان ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں اور میرے لئے بھی جو طویل  سفر کر کے  آپ کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں میں خاموش اسے دیکھتا رہا وہ کچھ دیر رکا پھر بولا تو آپ اللہ کریم سے کیا مانگتے ہو مینے کہا اللہ کریم کا قرب سب کے لئے سب کے وسیلہ سے اپنے لئے اس نے اپنا ہاتھ زور سے میرے دونوں پیروں پر مارا اور بولا یہ ہوئی نا بات ! میرے پورے وجود میں ایک میٹھے درد کی لہر دوڑ گئی لگا جیسے میرے جسم کی ساری ہڈیاں چٹخ گئی ہیں تھوڑا سنبھل کر مینے کہا قبلہ میرے دو آیات ایک دفعہ پڑھنے کی جو سزا ملی سو ملی مگر یہ جو u tibe پر اتنے حضرات بولتے ہیں ایک آیت پڑھو تو کروڑ فرشتے دے جائیں گے یہ پڑھو محبوب تڑپا گا یہ ہوگا وہ ہوگا اس کا کیا ؟ وہ بولا سب اپنا اپنا آپ بیچتے ہیں اور کچھ نہیں اللہ کریم تو ہر ایک کو دیکھ رہا ہے صدا دینے والے کو سن رہا ہے اس نے تو بتا دیا ہے پورا قرآن شفا ہے مگر اس کے لئے جو اسے سمجھے اور عمل کرے طوطا چشم کو کچھ حاصل نہیں ہوتا الٹا نقصان ہوتا ہے اور یہ عملیات کی دنیا کچھ اور ہے چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک راجہ شکار کرنے جنگل میں گیا وہاں ایک فقیر درویش کو دیکھا جو ایک مخصوص لئے میں ایک ورڈ کر رہا تھا وہ ورڈ بادشاہ کی زبان پر چڑھ گیا واپس آکر اپنے راج کے درویش سے اس کے متعلق پوچھا اس نے کہا اگر مخصوص طریقہ سے پڑھا جائے تو اس کا موکل حاضر ہوتا ہے اور کام کر دیتا ہے راجہ نے کہا تو وہ طریقہ مجھے سکھا دو مگر درویش نے ٹال مٹول کر کے جان چھڑا لی مگر راجہ چپ نہ بیٹھا اور کہیں اور سے طریقہ سیکھ لیا چلہ کشی کی مگر کچھ نہیں ہوا راجہ اپنے راج درویش کو بلایا اور روداد بیان کی کہ نہ موکل حاضر ہوتاہے نہ کام کرتا ہے اب تو کچھ کر ورنہ تجھے قتل کر دونگا اب درویش کو موت سامنے نظر آ رہی تھی اس نے دربار کے سپاہی کو حکم دیا راجہ کو گرفتار کیا جائے سارے درباری سمجھے درویش پاگل ہو گیا ہے ادھر راجہ غصہ سے پاگل ہو گیا اسنے حکم دیا درویش کو گرفتار کیا جائے سارے سپاہی فورن حرکت میں آئے اور درویش کو گرفتار کر لیا راجہ بولا اب بول تو کیا بولا تھا درویش بولا راجہ اب سمجھانا تجھ کو آسان ہے غور کر ایک حکم مینے دیا وہ ہی الفاظ وہ حکم تو نے دیا راج تیرا تھا تو میرا حکم ایک سپاہی نے نہیں مانا اور تو نے حکم ایک سپاہی کو دیا مگر سارے سپاہی حرکت میں آ گئے یہ ہی احوال تیرے عمل کا ہے تو عمل کی دنیا میں ہے ہی نہیں تو موکل کس طرح تیرا حکم مانے گا اب اندازہ خود لگائیں اللہ کریم تو بول رہا ہے میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرو اگر میری مدد چاہتے ہو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم اللہ کے محبوب کی کیا مدد کر سکتے ہیں اور کیسے ؟ اس کا طریقہ بھی اللہ کریم کے محبوب نبی نے بتا دیا ہے چنانچہ حضرت ربیع اللہ کے محبوب نبی کا چہیتا صحابی تھا خود پر خود ایک کام رکھ دیا تھا تہجد کے وقت حضور کے وضو کا بندوبست کرتا تھا ایک دن حضور نے فرمایا ربیع مانگ کیا مانگتا ہے ربیع نے عرض کیا محبوب میرا سب کچھ آپ پر قربان مجھے جنت میں اپنے سے قریب کوئی جگہ دے دیں تاکہ وہاں بھی میں آپ کی خدمت کرتا رہوں حضور پر نور نے ارشاد فرمایا تم کو دی اور کچھ ربیع بولا اتنے کچھ مل جانے کے بعد میں کیا مانگوں کچھ نہیں حضور پر نور نے ارشاد فرمایا لیکن اس دیں کو برقرار رکھنے کے لئے تجھے میری مدد کرنی پڑے گی کرو گے ؟ ربیع نے کہا ارشاد فرمائیں حضور پر نور نے فرمایا ربیع سجدوں میں کثرت کر یہ ہی ایک مدد حضور پر نور اپنے امتیوں سے چاہتے ہیں اور یہ ہی امتیوں سے نہیں ہو پا رہی تو جب بھی کسی کو کوئی پریشانی ہو صبر اور سجدوں سے مدد لے اللہ مدد کرے گا وہ ہی مولا ہے وہ ہی وکیل ہے مینے عرض کی جب کوئی بندہ اتنا علیل ہو کہ ستر تک دوسروں کی دسترس میں ہو وہ کیا کرے ؟ وہ بولا اس حالت میں تین طرح کے انعام ہیں تین طرح کی آزمائش ہے ایک جو اللہ نے جو تکلیف دی وہاں نہیں دے گا حقوق العباد اس تکلیف میں پورے ہونگے دعائیں قبول ہوگی اور آزمائش اولاد کے لئے ہے اگر خدمت کا حق ادا کیا تو انعام ہی انعام ہے نہیں تو دونوں جہانوں میں کوئی خلاصی نہیں ہوگی وہ اٹھا میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا اب اٹھ جوتی پہن ہم گھومنے چلیں گے میں اٹھا جوتی پیر میں ڈالی تو دیکھا ورم آدھا ہو چکا تھا چلتے چلتے مینے کہا جو جو باتیں آپ سے ہوئی ہیں عوام ان ناس کے کام کی ہیں اجازت دیں فیس بک پر آپ کے نام سے ڈال دوں وہ ایک بار  پھر ہنسا بولا یہ فیس بک بھی عجیب ہے اپنے آپ سے باتیں کرو گے ہاں مگر ایک امتی بھی سمجھ گیا تو تیرے اور میرے لئے صدقہ جاریہ ہے تو بلا شک میرے نام سے دیدے مجھے کون پہچانے گا

آج میرے پیروں پر ورم تھوڑا سا رہ گیا ہے گھوم رہا ہوں ان تمام احباب کا بل خصوص مراقبہ ہال نواب شاہ کے اراکین  کا شکر گزار ہوں جنہوں نے نہ صرف دعا کی بلکہ فون پر بھی مزاج پرسی کی سب کو اللہ کریم کا قرب نصیب ہو آمین نور الدین سے ملاقات مینے من و عن انہی کے الفاظ میں گوش گزار کر دی ہے جس کو سمجھ میں آ جائے میرے حق میں دعا خیر کر دے

Loading